کرلو جو کرنا ہے
آف شور کمپنیوں نے بڑا رولا ڈالا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہان پر برا وقت پڑگیا ہے
آف شور کمپنیوں نے بڑا رولا ڈالا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہان پر برا وقت پڑگیا ہے۔ وقت تو خیر ہم پر بھی ہے، مگر یہ پاکستان ہے تو امید ہے کہ کچھ ہونا ہوانا نہیں۔ ایک تو اس اپوزیشن نے بڑا تنگ کیا ہے، پیپلز پارٹی کو تو کسی نہ کسی طرح لارے لپے دے کر کہیں گیدڑ بھبھکیاں دے کر فرینڈلی اپوزیشن بنالیا مگر ان دھرنے دھرنیوں نے الگ ہی راگ الاپ رکھا ہے۔
کون ان سے پوچھے کہ بھئی! اگر حکمرانوں کے کماؤ پوتوں نے لندن میں فلیٹ اور جائیدادیں بنالیں تو کون سا گناہ کردیا، آف شور کمپنیوں کے ذریعے کچھ مال وہاں لے گئے۔ بچے ہیں، غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں ۔ یہ پتہ ہو مال کو کس طرح لے کر جانا ہے اور روپے سے ڈالر میں تبدیل کرنا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ آخر نظر لگ جانے کا بھی تو ڈر ہوتا ہے۔ مگر بیڑہ غرق ہو ان پانامہ لیکس والوں کا، جنھوں نے سب کچا چٹھا کھول دیا۔ ورنہ دوسرے ممالک کے لوگ تو بلاوجہ کے چکروں میں آکر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگر وہ بھی حکیم صاحب سے رجوع کرلیتے تو کچھ نہیں ہونا تھا، آخر انھوں نے اپنا مطب لندن میں کس لیے لگایا تھا، خلق خدا کے فائدے کے لیے ناں۔ مگر اب کیا ہوتا ہے جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔ مگر ان کے ایک دو حکیمانہ تجربہ کارانہ نسخوں سے پاکستان میں تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اب ہر شخص مدبر بن کر ماہرانہ مشوروں کی ٹانگ توڑ رہا ہے کہ کہاں سے آئے یہ پیسے، کس سے لیے یہ پیسے اور کہاں گئے یہ پیسے؟ اب کوئی ان سے پوچھے کہ سب تمہیں بتادیں تو ہاتھ پاؤں کٹوا دیں۔بیچارے پاکستان میں رکھا کیا ہے، سب اسے لوٹ رہے ہیں، بس زندگی گزارنی ہے تو لندن، امریکا میں گزاریں، ایک ڈھنگ کا دواخانہ تو ہے نہیں کہ کوئی شریف آدمی اپنا علاج ہی کروالے کہ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ مگر دوائے دل جو بیچتے تھے وہ تو اپنی دکان بڑھا گئے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ جعلی دواؤں کا کھیل ختم ہی ہوا چاہتا ہے۔
کس معصومیت سے فرمایا گیا ہے کہ کوئی مشرف سے تو کچھ پوچھتا نہیں کہ جناب آپ نے ایک وزیراعظم کے اقتدار کو راتوں رات الزام لگا کر ختم کردیا، ایسا تو کوئی سوکن بھی نہیں کرتی پھر جیل کی صعوبتیں، جبری جلاوطنی مقدر ٹھہری۔ اب جو سعودی عرب کے انٹیلی جنس کے آفیسر پول کھول رہے ہیں تو ان کو معلوم نہیں کہ چغل خوری کتنا سخت گناہ ہے۔ اب کوئی بتائے کہ معاہدہ نہ کرتے تو پھر کیا کرتے؟ جیل کی زندگی کون پسند کرتا ہے۔ آخر دیار حرم میں آرام کی زندگی کون پسند نہیں کرتا۔ اعتراض کرنے والوں کا منہ توڑ جواب یہ ہے کہ اللہ کرے تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو، پھر پتا چلے کہ جوڑ توڑ کرکے جیل کی سلاخوں سے نکلنا کتنا مشکل ہے۔ کسی کو کھاتا پیتا تو یہ دنیا دیکھ ہی نہیں سکتی۔
اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لیے کوئی استعفیٰ کا کہہ رہا ہے تو کوئی پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کر رہا ہے، کوئی معاہدے کی خبر لا رہا ہے۔ خیر یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ حکمران صفائی دیتے دیتے تھک چکے ہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ ان کی حمایت میں بولنے والوں کو بھی خوشامدی کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ وہ انسان دوست حکمران جس نے دنیا میں پاکستان کی عزت بحال کی، آف شور کمپنیوں میں نام آنا معمولی بات نہیں، جس کے پاس سونا ہوگا اس کے کان ہی لٹکے ہوں گے۔ بدنام گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ مگر یہ جاہل عوام کیا جانے۔
تمام اثاثے ڈیکلیئر کردیے، ملک کے سچے ہمدرد بہی خواہ کے لیے کہا جارہا ہے کہ ملک کی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے کالے دھن کو چھپایا گیا ہے، توبہ توبہ۔ کتنی بری بات ہے۔ یہ ہیٹ اسٹروکس کا عذاب ایسے ہی تو نہیں آگیا۔ اللہ کے نیک بندوں کو تنگ کرنے کی سزا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لو، بیرون ملک اثاثوں کی بات کرتے ہو، بے چاروں کے پاس ایک چھوٹا سا گھر ہے ۔
ایسی کسمپرسی کی حالت میں بھی ایسے ایسے کیڑے نکالے جا رہے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ پاکستان کو چھوڑ دیا جائے۔ قدر کرنی چاہیے عوام کو ایسے حکمرانوں کی جو ہر حالت میں حب الوطنی کا راگ الاپتے ہیں، مگر عادت جو پڑگئی ہے کیڑے نکالنے کی۔ خیر وزیراعظم کے خطاب نے ایک چیز تو واضح کردی ہے کہ وزیراعظم اس وقت غصے میں بھی ہیں اور دکھ کی شدید کیفیت میں بھی ہیں۔ چاروں طرف اندھیرا ہے اس لیے مشرف دور کے زخم ہرے ہورہے ہیں، تو کہیں دوسرے بخیے ادھیڑے جارہے ہیں۔
مگر کوئی پوچھے کہ جناب ان مشرف صاحب کو تو آپ کی حکومت نے ہی باعزت طریقے سے جانے دیا، اب کیسے پکڑ ہوگی؟ کسی نے سات توپوں کی سلامی دے کر رخصت کیا، تو کسی نے انسانی ہمدردی کو بنیاد بنایا۔ تو پھر حساب کون لے گا؟ سپریم کورٹ کو خط اور کمیشن بنانے کی درخواست بڑی سوچ بچار کے بعد کی گئی ہے۔ لگتا ہے حکیم صاحب کی دواؤں اور خفیہ مشوروں نے کچھ کام کر دکھایا ہے۔
اب ایسے کمیشن کتنے آئے اور کتنے گئے، کس نے کس کا کیا بگاڑ لیا، جب تک کمیشن کی رپورٹ آئے گی، اقتدار کی مدت پوری ہوجائے گی، پھر پرانے شکاری نیا جال لے کر میدان عمل میں آجائیں گے۔ غریب وہیں رہے گا، غربت وہیں رہے گی۔ جس ملک میں تعلیمی اداروں میں جانوروں کے طویلے ہوں، وہاں ہونا کچھ نہیں۔ کچھ خاندان برسوں سے مسلط چلے آرہے ہیں۔ مگر نمرود اور فرعون کو بھی زوال آیا تھا تو شاید کوئی موسیٰ ہم میں بھی پیدا ہوجائے اور ان فرعونوں کے کنگرے توڑ دے۔ جنرل راحیل شریف نے بالکل صحیح کہا، احتساب ہر ایک کا بلاامتیاز ہونا چاہیے، اس کی ابتدا انھوں نے اپنے گھر سے کردی ہے۔ اب کسی کی ہمت ہو تو احتساب کے لیے اپنے آپ کو والنٹیئرلی پیش کرے۔ یہ کہنے سے احتساب نہیں ہوجاتا کہ جناب ہم نے اپنے آپ کو اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کردیا ہے، جرم ثابت ہونے کی صورت میں گھر چلا جاؤں گا۔
دست بستہ عرض ہے کہ جرم تو ثابت ہوچکا ہے، بیانات کے تضاد اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے انداز نے ہی مجرم بنادیا ہے۔ مگر کون پوچھے سب کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہیں، ہاں وہ پوچھ سکتا ہے جو احتساب کرنا بھی جانتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ اب ایسے مجرموں کو فوجی عدالتوں سے ہی احتساب کی ہوا کھلانی پڑے گی، ورنہ یہ دنیا کے سامنے یہی کہتے رہیں گے کرلو جو کرنا ہے۔