ایٹم بم سے بھی خطرناک پہلاحصہ
جن کے پاس دولت کا تخمینہ 53کھرب روپے یا 50ارب ڈالر ہے
دنیا بھر میں سماجی اور معاشی صورت حال پر نظرکرنے والے امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر نے پاکستان کی معیشت کو دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت ترقی کررہی ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت نے بھی اسے تسلی بخش گردانا ہے ۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلم لیگ ( ن) پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے وعدے پر عمل پیرا ہے، گزشتہ عید پر پاکستانیوں نے تقریبا ایک کھرب روپے کی خریداری کی۔ اسی طرح امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل اوردیگر ذرایع ابلاغ نے سوئٹزرلینڈ کے فنانشل تھنک ٹینک یو بی ایس کی سالانہ رپورٹ ورلڈ الٹرا ویلتھ رپورٹ 2013 کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں انتہائی امیر ترین افراد کی تعداد 415 ہوگئی ہے۔
جن کے پاس دولت کا تخمینہ 53کھرب روپے یا 50ارب ڈالر ہے ۔گزشتہ مہینے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے کنٹری ڈائریکٹر Tokhir Mirzoevتوخرمیرزوف نے کہا تھا کہ پاکستان میں شرح نموبڑھنے میں رکاوٹیںکئی جہتی اور طویل مدتی ہیں تاہم مضبوط ادارہ جاتی اصلاحات کی کوششوں سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے،آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے تحت پاکستان نے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں،خاص طور پر معیشت میں استحکام آیا ہے اورکئی ڈھانچہ جاتی اصلاحات عمل درآمد کے مختلف مرحلوں میں ہیں ۔
اس سے قبل یعنی فروری 2016 کو بین الاقوامی مالیاتی تجزیہ کار کمپنی بلو مبرگ نے کہا تھا کہ اگرچہ پاکستان نے دہشتگردی میں کمی اور سرمایہ کاری میں اضافے کے حوالے سے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، تاہم 2016ء کے وسط تک اس کا قرضہ 50ارب ڈالر تک پہنچنے کے باعث دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ ادھر پاکستان کی وازرت خزانہ نے بلوم برگ نیوز ایجنسی کی پاکستان کے قرضوں کی صورتحال سے متعلق خبرکوگمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ رپورٹ میں غلطیو ں کی تصیح کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود بلوم برگ نے وزارت خزانہ کی وضاحت کو نظر انداز کرتے ہوئے حقائق کے منافی رپورٹ جاری کی۔ وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے جون 2015ء کے اختتام پر 50.9ارب ڈالر تھے جن کی واپسی کی مدت اگلے 40سال پر محیط ہے ۔ اس میں سے تقریبا 4 ارب ڈالرکی 2016ء اور 2.8ارب ڈالر کی 2017ء میں ادائیگی ہونی ہے۔
بلوم برگ کی 50ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضہ کے ایک سال میں میچور ہونے سے متعلق ہیڈ لائن انتہائی گمراہ کن اور تشویشناک ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطا بق آئی ایم ایف کے پاکستان کے بیرونی قرضے کے حوالے سے تخمینہ بڑھ رہے ہیں اور قرضے کی مینجمنٹ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔ اعدادوشمار میں تبدیلی سے بڑھتے ہوئے قرضے کوکنٹرول کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کی عدم موجودگی کا اشارہ بھی ملتا ہے ۔آئی ایم ایف کی گزشتہ سال میں جاری کردہ تمام جائزہ رپورٹوں کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جا ئزہ رپورٹ کے برعکس حالیہ جائزہ رپورٹ میں مالی سال 2015-16ء میں قرضے کا حجم تقریبا 11.6ارب ڈالر زائد ہے ۔آئی ایم ایف نے 2013ء میں تخمینہ لگایا تھا کہ 2015-16ء میں پاکستان کے غیر ملکی قرضے کا حجم 58.6 ارب ڈالر ہوگا مگر دو سال بعد 9ویں جائزہ رپورٹ میں بیرونی قرضے کا حجم 70.2ارب ڈالر بتایا گیا ہے ۔
ایک سہ ماہی سے دوسری سہ ماہی تک کے دوران 10ارب ڈالر کا فرق آرہا ہے اور اس سے نہ صرف قرض کی منیجمنٹ کے مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ قرضے کو کنٹرول کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے ۔ مزید ایک اور رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے ابتدائی 27ماہ کے اقتدار کے دوران پاکستان کے فی کس قرض میں مزید24ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں ہر پاکستانی شہری 1لاکھ 15ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ اس مدت میں غیر ملکی قرضوں و واجبات میں 900ارب اور مقامی قرضوںمیں 1394 ارب کا اضا فہ ہوا ہے جس سے مجموعی قرضے 20ہزار 706 روپے تک پہنچ گئے ۔
آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اور رواں مالی سال کے آخر تک مہنگائی کی شرح ساڑھے 4 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔10ویں جائزے کی تکمیل پر پاکستان کو 49 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہم کیے جائیں گے ۔ مذاکرات مکمل ہونے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے مشن سربراہ ہیرالڈ فنگر اور دیگر حکام کے ہمراہ پریس کانفرس کرتے ہوئے ملک میںمہنگائی کی شرح 12سال کی کم ترین سطح پر لانے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ خطے میں چیلنزکے با وجود پاکستانی معیشت ترقی کررہی ہے ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی کا گراف اوپر ہی گیا ہے ۔ پتہ نہیں کن بنیادوں پر یہ کہا گیا ہے کہ مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک آئٹم کی قیمت ہو یا مارکیٹ میکنزم کی وجہ سے کچھ اشیاء کی قیمتیں وقتی طور پر کم ہوئی ہوں لیکن مجموعی طور پر مہنگائی بڑھی ہے اور عام آدمی کی آمدنی سکڑی ہے ۔گراں فروشی عروج پر پہنچ گئی ہے، پھل ، سبزیاں،اجناس، دودھ، مرغی اورگوشت من مانی قیمتوں پرفروخت کیے جارہے ہیں ۔
شہری انتظامیہ کی جانب سے حسب روایت مصنوعی مہنگائی روکنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے رہے ہیں تاہم صارفین کا کہنا ہے کہ بازاروں میں سرکاری نرخ کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، شہری انتظامیہ نمائشی کارروائیوں میں مصروف ہے ، مہنگائی روکنے کے لیے گراں فروشی پر قابو پانا بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنادیا جائے اورذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کرنیوالے عناصر کے خلاف بھی دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلاکر سخت سزائیں دی جائیں۔ صارفین کے گلے پر گراں فروشی کی چھری پھیرنے میں بڑے ڈیپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور بڑے اسٹور پر عام دکانوں اور بازاروں کے مقابلے میں آگے ہیں۔
عالمی اور مقامی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30فیصد کمی کے باوجود کم آمدنی والا طبقہ آج بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ گھریلو بجٹ بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ، گھریلو امورکی انجام دہی کے لیے بجٹ بنانے میں اعلیٰ معیارکی مہارت درکار ہوتی ہے ، جس میں کچن کے اخراجات کے علاوہ گھرکا کرایہ ، بجلی اور گیس کا بل ، بچوں کے اسکول کی فیس اور علاج کے اخراجات بہ مشکل ہی پورے ہوتے ہیں جس میں بچت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ مہینے کے اختتام میں قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے۔