اگر اوباما انتقام لینے پر اتر آئے تو۔۔۔۔۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ناموافق صورتِ حال کا سامنا۔
KARACHI:
اوباما تو وہیں کے وہیں ہیں، تیرا کیا بنے گا کالیے؟
اب ہم اس قدر بھی بدتمیز واقع نہیں ہوئے کہ ایسا کوئی جملہ اسرائیل کے وزیراعظم سے پوچھتے پھریں لیکن عالمی سیاست کے بارے میں بہت کم جاننے والے یا یوں کہیے کہ کچھ نہ کچھ جاننے والے ایسا بول رہے ہیں حال آںکہ نہ تو وہ ''گبرسنگھ'' ہوتے ہیں اور نہ ہی گورے چٹے نیتن یاہو کالیے ہیں البتہ یروشلم کے یہودی یہ کہنے سے گریز نہیں کر پاتے کہ نتن یاہو امریکی جن کو بوتل میں اتارنے کے ہنر سے آگاہ نہیں ہیں لہٰذا اب کوئی نیا ''عامل'' تلاش کرنا چاہیے۔
سو دکھائی یوں دیتا ہے کہ اسرائیل کے 22 جنوری کے انتخابات میں نتن یاہو کو پروانۂ فراغت مل جائے گا کیوں کہ اسرائیلیوں کا خیال ہے اور سو فی صد درست خیال کہ امریکا کی مکمل آشیر باد اور دستِ شفقت کے بغیر تل ابیب کی حیثیت دو کوڑی سے زیادہ نہیں۔
نتن یاہو ایک عرصے سے باراک اوباما کو نالائق قرار دیتے آرہے ہیں، ایران کے حوالے سے ان کے ہر ہر جملے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور 6 نومبر کے انتخابات میں ان کو ہرانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کے زور کے ساتھ مٹ رومنی کے لیے اندرون خانہ اور کھلم کھلا جدوجہد کرتے رہے لیکن اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ وہ اس ریشہ دوانی میں یقیناً اکیلے نہ تھے، امریکی کانگریس بھی، جو اسرائیل کے لیے ہم دردانہ جذبات رکھتی ہے، ان کے ساتھ تھی، لیکن امریکیوں نے ان کی بازی ہروا دی اور ثابت کر دیا کہ اسرائیلی وزیراعظم ایک غلط گھوڑے سے آس باندھے ہوے تھے۔
ٹائم جیسے ہفت روزوں کو ''دیہاڑی'' پر لگایا گیا جس نے باراک اوباما کی شخصیت کے کم زور گوشے انتہائی عیاری کے ساتھ رونما کیے۔ یہ پرانا محاورہ بھی تازہ کیا گیا کہ ''جس نے (ریاست) اوہایو جیتی اس نے امریکا فتح کر لیا'' اور اس کے ساتھ ہی اوہایو کے کوئلے کے کان کنوں کی اوباما سے نفرت کی توپ سے خوب خوب گولا باری کرائی بل کہ اوباما کے خلاف ان کان کنوں کی زبان سے ادا کیے گئے نازیبا الفاظ بھی اپنے مضامین کی زینت بنوائے گئے، اوباما کو ایسی شخصیت بتایا گیا جو ''اپنے منہ میاں مٹھو'' بنتے ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔
اسرائیلی وزیراعظم پر بدھ کا سویرا خاصا اندھیرا تھا، جیت والی لوح پر سے گورے مٹ کا نام مٹا ہوا تھا، سیاہ فام باراک، برق کی طرح ان پر گر رہے تھے، کوچہ و بازار میں اسرائیلیوں کی زبانوں پر اپنے وزیراعظم کے لیے ناگوار الفاظ تھے۔ ''نالائق نے واشنگٹن سے بگاڑ کر اچھا نہیں کیا''۔ اسرائیل کے نائب وزیراعظم عیلی یشائی، جن کا تعلق مذہبی جماعت ''شاس پارٹی'' سے ہے، کہ رہے تھے آج کی صبح نتن پر بارک نے نامبارک کر دی ہے۔ نتن یاہو اسرائیل کے وزیراعظم ہیں، اپنی قوم کے مفاد کے لیے وہ جو بہتر سمجھتے ہیں، خلوص نیت سے کر رہے ہیں، ایسا کرنے کا انھیں سیاسی حق حاصل ہے۔
کانگریس سے ان کے بہترین تعلقات ہیں جو اوباما کے جیت جانے کے بعد بھی قائم رہیں گے تاہم ان کی سیاست کو اپنے ملک اور اپنے عوام تک محدود رہنا چاہیے۔ امریکا و ایران کے معاملے میں انھیں ٹانگ اڑا کر دنیا جہان کا امن و سکون تباہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ان کے لیے مٹ رومنی کا امریکی صدر بننا، اگر ان کے خیال میں اسرائیل کے لیے بہتر تھا، تو وہ اس کی خواہش کرنے میں حق بہ جانب ہو سکتے تھے لیکن اوباما کو صدارتی دوڑ میں ہروانے کے لیے عملی اقدامات کرنا اور کسی دوسرے ملک کی سیاست میں پنگا لینے کو جائز سمجھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
کیا خود امریکا نے کبھی اسرائیل کا وزیر اعظم منتخب کرانے کے لیے کوئی ایسی حرکت کی؟ حال آں کہ وہ اسرائیل کا مربی ہے، اسی کے دم سے اسرائیل، اسرائیل ہے۔ آج واشنگٹن اپنی ڈھال ہٹا لے تو کل ہی اسرائیل کا ''بولو رام'' ہو جائے۔ بہ ہرحال نتن یاہو، اوباما کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر خفیف ضرور ہیں اسی لیے تو انھوں نے فوری طور پر بدمزگی دور کرنے کے لیے امریکی سفیر کو اپنے دفتر پرمدعو کیا اور تادیر گپ شپ کرتے رہے۔
تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ امریکا میں اوباما کی جیت اور مٹ رومنی کی ہار امریکی سیاست کا معمول ہے اور یہ کہ امریکا کی صدارت پر کوئی بھی براجے، مائی باپ ہے۔ پھر انھوں نے فوری طور پر یہ پیغام بھی دیا کہ دونوں قوموں (اسرائیل، امریکا) کا بندھن سنگِ راسخ جیسا مضبوط ہے اور رہے گا۔ اپنی لیکڈ پارٹی کو فوری طور پر منع کر دیا کہ وہ اوباما پر جملے کسنا بند کریں تاہم اندرون خانہ اوباما کے ساتھ ان کا تعلق، بہ قول کالم نگار جوڈی ایوڈورین ''کوئی معمول کا سیاسی سردرد نہیں ہے''۔
اسرائیلی سیاسی قائدین اور تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ نتن یاہو واشنگٹن پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے میں کام یاب نہیں رہے، خاص طور پر ایران کے ایٹمی معاملے پر تو انھیں ہر بار منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ اسرائیل کو سب سے بڑا خدشہ اس وقت یہ ہے کہ امریکا کہیں ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی میز پر نہ جا بیٹھے۔ بیت المقدس میں ایک اسرائیلی دانش ور مچل بارک کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نتن یاہو نے غلط گھوڑے پر شرط بدی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 22 جنوری کے انتخابات میں کوئی بھی وزیراعظم منتخب ہو اسے اسرائیل امریکا تعلقات پرعبور ہونا چاہیے اور یہ وہ خاصیت ہے جس سے موجودہ وزیراعظم متعصف نہیں ہیں۔
باراک اوباما کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرت البتہ بہت خوش ہیں۔ ان صاحب پر بدعنوانی کے الزامات میں مقدمہ بھی چلتا رہا ہے، یہ اپنے مستقبل سے مایوس بیٹھے تھے لیکن اوباما کے دوبارہ انتخاب سے نہ جانے کیوں ان کا حوصلہ بڑھا اور اتنا کہ وہ ایک بار پھر انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہونے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ وہ اب اسرائیل کے سینیئر لیفٹ بلاک کو یک جا کرنے اور اسے توسیع دینے کے ارادے باندھ رہے ہیں۔ نیو یارک میں یہودی رہ نمائوں کے ایک اجلاس میں انھوں نے پوچھا '' یارو! ان حالیہ مہینوں میں نتن یاہو صاحب کے کرتوتوں کے باعث یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اب بھی کیا وائیٹ ہائوس میں ان کا کوئی دوست ہے'' پھر خود ہی جواب دیا ''مجھے نہیں یقین... اور یہ ہمارے لیے خاصا مسئلہ بنے گا''۔
بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اوباما، اسرائیلی وزیراعظم کو ان کے کیے کی سزا دیں گے، اکثریت کا خیال غالباً یہ ہے کہ امریکی صدر نتن یاہو کی سطح پر آنے سے گریز کریں گے تاہم دونوں شخصیتوں کے مابین تعلقات بہت ہی کشیدہ دکھائی دیتے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہی نہیں کہ نتن یاہو، امریکی صدارتی امیدوار مِٹ رومنی کو جتوانے کے جتن کرتے رہے ہیں بل کہ اس میں نتن یاہو کا ایران کے حوالے سے سخت رویہ بھی شامل ہے جو دونوں شخصیات کی ترجیحات میں آڑے آ رہا ہے۔
باراک اوباما اپنے دوبارہ انتخاب سے قبل ممکن ہے اپنی ترجیحات کے حوالے سے کچھ مشوش رہے ہوں لیکن اب وہ اس سے آزاد ہو چکے ہوں گے اور جو غالب امکان ہے وہ یہ ہے کہ اب وہ واشنگٹن کی اسرائیل نواز لابی کی پروا کم ہی کریں گے۔ امریکی سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے، جس کا نوٹس عالمی دانش ور اور تجزیہ نگار ذرا کم ہی لیتے ہیں، کہ امریکا میں دوبارہ منتخب ہونے والا صدر زیادہ طاقت ور ہوتا ہے بہ نسبت اپنے پہلے صدارتی دورانیے کے۔ پہلی صدارت کے دوران وہ امریکی سیاست کا محض نظری علم رکھتا ہے، دوسری صدارتی مدت تک وہ گرگِ باراں دیدہ بن چکا ہوتا ہے، اوباما اب اسی سطح پر آ گئے ہیں، تب ہی انھوں نے اپنے پہلے بیان میں جنگ کے اختتام کی نوید دے ڈالی۔ اس دعوے کی عملی صورت ایسی ہی نکلتی ہے تو یہ نئی صدی کی بہت بڑی سعادت ہو گی اور نہ بھی نکلی تو یہ تو ثابت ہو ہی جائے گا کہ اوباما امریکی صدارت کے ماہر ہو چکے ہیں۔
اے بی سی نیوز کے مشرق وسطیٰ کے سابق نامہ نگار بوب زیلنک کا کہنا ہے کہ اگر اوباما نے نتن یاہو کے بارے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا تو یہ ان کے لیے حیرت کا باعث ہو گا، یعنی ان کو یقین نہیں آ رہا، کیوں کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم پر اعتماد کرنے کے نہیں، سو اب وہ تنازعات طے کرنے کے بجائے اسکور بڑھانے پر زور دیں گے۔ اسرائیل کی لمحۂ موجود میں سب سے بڑی تشویش ''ایران'' ہے کیوں کہ وائیٹ ہائوس کی طرف سے ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا عندیہ بہت واضح ہے جب کہ نتن یاہو نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کی بندش کے حوالے سے معروف ''ریڈ لائن'' دے رکھی ہے۔
اس صورت حال میں اگر واشنگٹن تہران سفارت کاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو نتن یاہو کے منہ پر کیا رہ جاتا ہے، ظاہر ہے عالمی سطح پر ان کی کرکری ہو گی اور نہ صرف عالمی سطح پر بل کہ اندرونِ اسرائیل بھی وہ مزید کم زور پڑ جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کی اکثریت خیال کرتی ہے کہ امریکی صدر اوباما مشرقِ وسطیٰ میں عسکری کارروائی کے حق میں نہیں ہیں اور صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد ان کی تقریر کی یہ ہی وہ لائین ''A decade of war is ending'' تھی جن پر انھوں نے سب سے زیادہ داد سمیٹی۔
اسرائیل کا ایک بہت ہی اہم مسئلہ ''فلسطین'' کی اقوام متحدہ میں رکنیت ہے لیکن یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صدر اوباما اپنے گزشتہ عرصۂ صدارت میں چاہتے رہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ منجمد مذاکرات کو بحال کرے۔ اسرائیلی اخبار ہارتیز اس حوالے سے اپنی ایک اشاعت میں لکھتا ہے کہ اب اوباما ایران کے تنازع پر نتن یاہو کو ''لیڈری'' کرنا سکھائیں گے۔ معروف یہودی مبصر میلی بارڈن سٹین کا کہنا ہے ''اسرائیلی وزیراعظم بہت پریشان ہیں، بہت ہی پریشان''۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ صرف نتن یاہو ہی پریشان نہیں ہیں بل کہ دونوں شخصیات کے درمیان اعتماد کے بحران کے باعث پورے اسرائیل میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ناخوش گواریاں رونما ہونے والی ہیں۔
نتن یاہو کی ایک بہت قریبی شخصیت کا کہنا ہے، وائیٹ ہائوس، بی بی (نتن یاہو کی عرفیت) سے انتقام لینے پر اتر آیا یا اس کی سردمہری بڑھ گئی تو ہم مشکل میں گھر جائیں گے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اوباما کا رویہ سرد ہے وہ کاندھا دینے کے موڈ میں نہیں ہیں اور یہ تبدیلی نتن یاہو کے لیے سیاسی سردرد کا باعث بنے گی اور ایک ایسے وقت پر جب وہ خود انتخابی مہم پر نکلنے کو ہیں۔
اسرائیل کو پہلا دھچکا ممکن ہے آنے والے چند ہفتوں میں پہنچے کیوںکہ فلسطینی صدر محمود عباس اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کا ڈول ڈالنے والے ہیں جس کا مخالف اسرائیل ہی نہیں خود امریکا بھی رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی محمود عباس اسی طرح کی ایک کوشش کر چکے ہیں جو امریکا کی طرف سے ویٹو کی دھمکی کے باعث ناکام ہو گئی تھی لیکن اس برس ویٹو کا حربہ نہیں چلے گا کیوں کہ اس سال فلسطین کی رکنیت کا سوال جنرل اسمبلی میں اٹھایا جا رہا ہے۔
ابھی امریکی صدر کی طرف سے ایسا کوئی عندیہ سامنے تو نہیں آیا کہ وہ اس سوال پر اسرائیل کے حق میں اپنا کوئی سیاسی، سفارتی اثر و رسوخ استعمال کریں گے لیکن بالفرض اوباما اس معاملے سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں نتن یاہو کی کیا حیثیت رہ جائے گی اور اسرائیل کی کیا کیفیت ہو گی۔ بارڈن سٹین کہتے ہیں کہ نتن یاہو کوئی بھی مشکل فیصلہ کرنے کی حیثیت سے محروم ہو جائیں گے اور امریکا کے مطالبات پورے نہ کرنے کی انھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ایران اور دنیا کی چھے بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات، جو اس سال کے آخر تک ہونے کو ہیں، صرف اسرائیل ہی نہیں خود ایران کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔
پاگل ہے جو ایٹمی ہتھیار جمع کرتا ہے
صدر باراک اوباما کا دوبارہ انتخاب جہاں اسرائیل اور اس کے وزیراعظم کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے وہاں فلسطین کے قائدین مطمئن ہیں اور کسی بھی طرح کے نفسیاتی دبائو سے آزاد ہیں۔ وہ اس وقت جنرل اسمبلی میں اپنا کیس کام یاب کرانے کے لیے معاملے کے تمام پہلوئوں پر بڑے انہماک سے کام کر رہے ہیں۔ فلسطین کے چیف مذاکرات کار صائب اراکات کاکہنا ہے کہ وہ اپنی سی کرتے رہیں گے اور گم راہ نہیں ہوں گے۔
ادھر ایران، جو اسرائیل اور بہت سے دوسروں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، کے صدر احمدی نژاد نے ایک بار پھر اس امر کی تردید کر دی ہے کہ تہران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے بل کہ اس بار تو انھوں نے کہا ہے کہ ''اب ایٹمی ہتھیاروں کا زمانہ لد چکا ہے۔ جوہری اسلحہ کسی کو بھی کسی طرح کا فائدہ پہنچانے کے لائق نہیں ہے''۔ انھوںنے بڑی دل چسپ بات یہ کی کہ ''اس کی دماغی حالت درست نہیں ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگانے کی سوچ رہا ہے'' یہ باتیں وہ انڈونیشیا میں باراک حسین اوباما کے مقابلۂ صدارت جیتنے کے اگلے ہی دن فروغِ جمہوریت کے حوالے سے ایک فورم میں شرکت کے بعد اخبار نویسوں سے کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار بنانا ایک فرسودہ عمل ہے اور یہ کہ ایران کسی طرح کے ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا اور اسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوںکہ ایران اپنے دفاع کے اور طریقے بھی جانتا ہے۔ انھوں نے دعوتِ عام دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو شک ہے تو ایران آ کر ان کے دعوے کی تصدیق کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اگر یورینیئم افزودہ کر رہے ہیں تو اس کا مقصد اس کا پرامن استعمال ہے۔ انھوں نے یہ بھہ کہا کہ وہ عالمی بقائے امن کے لیے صدر اوباما سے مذاکرات کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اس کے ساتھ ہی انھوں نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ دنیا بھر سے اپنے اڈے سمیٹے۔ انھوں نے ایک بار دہرایا کہ ایٹمی ہتھیار جمع کرنا پاگلوں کا کام ہے۔