عرب ڈکٹیٹر اور لوٹ مارکی الف لیلیٰ

مصر، لیبیا اور تیونس کے سابق آمروں کی لوٹ مار کے نئے نئے اسکینڈل منظرعام پر آرہے ہیں۔


Muhammad Akhtar November 18, 2012
فوٹو: فائل

آج بھی یحییٰ حسین عبدالہادی کوجب 2006ء کی وہ صبح یاد آتی ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے۔

اس روز اسے مصر کی وزارت نجکاری میں طلب کیا گیا تھا۔ہادی اس وزارت کا ملازم تھا اور اس کا کام نجکاری کے سودوں کی چھان بین کرنا تھا۔وہ جب دفتر پہنچا تو تین صفحات پر مشتمل ایک دستاویز اس کے حوالے کی گئی۔ہادی کا کہنا ہے کہ اسے کہا گیا کہ دستاویز پر دستخط کردو۔ اس دستاویز کے ذریعے مصر میں ڈیپارٹمنٹل اسٹورزکی چند سب سے بڑی چینز میں سے ایک ''عمر آفندی'' کی فروخت کی اجازت دی گئی تھی۔دستاویز کے تحت اس چین کو ساتھ منسلک کاغذات میں بیان کی گئی مالیت پر فروخت کیا جانا تھا لیکن اس کے ساتھ کسی قسم کے کاغذات منسلک نہ تھے۔

ہادی نے جب ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو اس کے ساتھیوں نے اسے حکم دیا کہ وہ اس حوالے سے کوئی سوال نہ کرے۔ہادی کا کہنا تھا کہ وہاں پر موجود لوگوں کے چہروں پر بے رحمی اور سفاکی تھی۔وہ خوف زدہ ہوگیا اور دستخط کرتے ہی بن پڑی۔تین روز بعد پتہ چلا کہ ''عمرآفندی'' کے 82 ڈیپارٹمنٹل اسٹور ان کی اراضی سمیت 99 ملین ڈالر کے عوض ایک سعودی تاجر کو فروخت کردیے گئے تھے۔یہ مالیت اس رقم کا معمولی حصہ تھی جو کہ ان اسٹورز اور ان کی اراضی کی اصل مالیت تھی۔ہادی کا کہنا تھا کہ حکومت فروخت کرنے کی جلدی میں تھی اور اس سلسلے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جارہا تھا کہ آیا اصل مالیت کیا ہے۔

لیکن اب سوال اٹھ رہے ہیں۔عرب ممالک میں ''بہار عرب'' کے نام سے بپا ہونے والے انقلاب کے بعد یہ سوال اٹھنا ہی تھے۔عرب ممالک میں آنے والے اس انقلاب کے بعد ہر کوئی اس قسم کے مشکوک سودوں ، جن میں کروڑوں اربوں ڈالر کے گھپلے کیے گئے، کے بارے میں استفسار کررہا ہے۔اس قسم کے سودے کئی عشروں تک ان عرب ممالک میں ایک معمول تھے کیونکہ یہاں پر ڈکٹیٹروں اور ان کے خاندانوں کا قبضہ تھا اور کسی میں سوال اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔لیکن اب لوگوں کو کسی کا ڈر نہیں۔اب وہ اپنے سابق ڈکٹیٹر حکمرانوں کی جانب سے لوٹی جانے والی دولت کا حساب مانگ رہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ اس دولت کو ملک میں واپس لایا جائے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان حکمرانوں اور ان کے خاندانوں بلکہ ان کے دوستوں ، ساتھیوں اور چمچوں نے بھی دونوں ہاتھوں سے ملک کی دولت لوٹی اور اس سے ملک میں محلات کھڑے کرنے اور کروڑوں کی گاڑیوں میں عیاشیاں کرنے کے علاوہ اربوں روپیہ بیرون ملک کے بینکوں میں بھی جمع کرادیا۔کرپشن کے خلاف کام کرنے والی عالمی تحقیقی تنظیم ''گلوبل وٹ نس'' Global Witnessکی اینتھیا لاسن کے بقول اصل میں یہ کرپشن ہی ہے جس کی وجہ سے عرب ممالک میں لوگوں کی بغاوت نے جنم لیا۔یہ کرپشن ہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں غم وغصے کا لاوا پھٹ پڑا اور انھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر بھی اس بغاوت میں حصہ لیا۔

ادھر تیونس میں ملک کی تمام تر معیشت پر صدر زین العابدین بن علی کے رشتہ داروں کا غلبہ تھا۔زین العابدین انقلاب کے بعد ملک سے فرار ہوگیا تھا۔اس کے خاندان کی بیرون ملک پرتعیش جائیدادیں تھیں جن میں پیرس میں محلات، فلیٹس ، سلسلہ کوہ ایلپس اور جنوبی فرانس میں موجود جائیدادیں شامل ہیں۔ سوئٹزرلینڈ نے تیونس کے حکمران خاندان کے سوئس بینکوں میں موجود 69ملین ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کردیا تھا۔ اس کے علاوہ فرانس اورسوئس حکومتوں نے تیونسی حکمران خاندان کے لیے ان کے ذاتی جہازوں کو بھی ملک میں رکھا ہوا تھا۔

گذشتہ سال فروری میں بن غازی لیبیا میں جب بغاوت پھوٹی تو باغیوں کا پہلا مطالبہ یورپی اور امریکی حکومتوں سے یہ تھا کہ معمر قذافی اور اس کے خاندان کے تمام اثاثوں کو منجمد کیاجائے جن کی مالیت باغیوں کے ساتھ شامل ہونے والے لیبیائی حکام کے مطابق اربوں ڈالر تھی۔اس وقت ان ملکوں میں قذافی خاندان کے جو اثاثے منجمد ہیں ان میں سے چند مغربی لندن میں ایک آفس بلڈنگ ، برطانوی پبلشر پیرسن میں تین فیصد حصص ، اٹلی کے جووینٹس فٹبال کلب میں شراکت اور اسپین کے کوسٹا ڈی سول میں سات ہزار ہیکٹر اراضی شامل ہے۔

مصر، انقلاب کی جلتی پر کرپشن کا تیل

مصر میں لوٹی جانیوالی قومی دولت بھی بے پناہ تھی اور یہی بغاوت کے پیچھے ایک اہم ترین محرک بھی تھی۔حسنی مبارک خاندان نے جب اقتدار چھوڑا تو اس کے کئی مہینوں بعد قاہرہ میں بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ شاید یہ انقلاب اوائل فروری میں ہی ناکام ہوجاتا کیونکہ اس کے سرگرم افراد تھک چکے تھے جبکہ سردی بھی بہت تھی تاہم پھر برطانیہ کے ''گارڈین'' اخبار میں چار فروری کو ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ حسنی مبارک کے خاندان کی دولت کی مالیت 40 سے 70 ارب ڈالر ہے جس میں بیورلی ہلز، مین ہٹن اور لندن کے بلگراویہ نامی علاقے میں کئی محلات اور کوٹھیاں شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی مصر میں شور مچ گیا اور جو باغی اوران کے ساتھی تھک چکے تھے ان میں غم وغصے کی آگ بھڑک اٹھی جس نے ان میں ایک بار پھر توانائی بھر دی۔قاہرہ کی عین الشمس یونیورسٹی میں کمرشل لاء کے پروفیسر حسام عیسیٰ کا کہنا ہے کہ جس وقت خبر شائع ہوئی تو وہ تحریر اسکوائر میں تھا۔ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہ خبر حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کی ایک اہم محرک بن سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔رپورٹ شائع ہونے کے صرف چند دن بعد سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں مزید مصری تحریر اسکوائر پہنچ کر احتجاج کاحصہ بن گئے۔یہ زیادہ تر غریب لوگ تھے جو نعرے لگارہے تھے: حسنی مبارک 70 ارب ڈالر کا چور ہے۔'' ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں حسنی مبارک اقتدار سے محروم ہوگیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کے ان ڈکٹیٹروں نے اپنی قوم کو سفاکی سے لوٹا۔اربوں کھربوں ڈالر ان کے خاندان اور چمچے ہڑپ کرگئے۔لیکن اس لوٹ مار پر تمام تر غم وغصے کے باوجود لوٹی ہوئی دولت کو ملک میں واپس لانا اور قوم کو واپس لوٹانا اتنا آسان نہیں۔سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا کے مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈکٹیٹروں کی جانب سے لوٹی گئی دولت کو واپس ان کے مظلوم عوام کو لوٹانا ایک نہایت مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ان کا کہناہے کہ اکثر ان واقعات میں ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو معلوم ہو کہ لوٹا ہوا پیسہ ، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کو کہاں رکھا گیا ہے اور کس نام سے رکھا گیا ہے۔ان افراد کی مدد حاصل کرکے ہی اس دولت کو واپس لانے میں کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی مچھلی کا شکار کرنے جیسا کام نہیںکہ کنڈا لگایا اور مچھلیاں خود ہی پھنس جائیں۔ آپ کو اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ معلومات ہونی چاہیے۔

لوٹی ہوئی دولت کا معما

عرب ممالک سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مصر ، تیونس اور لیبیا میں تحقیقاتی حکام معموں کے ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اپنے سابق لٹیرے حکمرانوں کی جانب سے لوٹی جانے والی قومی دولت کامعمہ ٹھیک ٹھیک طرح سے حل کرکے وہ دستاویزات تیار کی جاسکیں جن کو غیرملکی بینکوں اور حکومتوں کے سامنے پیش کرکے اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس قوم کے پاس لایا جاسکے۔

اصل میں یہ کام اس لیے بھی مشکل ہوچکا ہے کیونکہ سرکاری ملازمین اور افسران اس حوالے سے معلومات دینے سے گھبرار ہے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ کہیں معلومات دینے کی صورت میں وہ بھی مجرم ثابت نہ ہوجائیں اور جیلوں میں نہ ٹھونس دیے جائیں۔اطلاعات کے مطابق ابھی ایسے بہت کم لوگ سامنے آئے ہیں جو لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کہاں کہاں رکھی گئی ہے اور کس کے نام پر رکھی گئی ہے۔تاہم حکام پر یہ دبائو بڑھ رہا ہے کہ جلد از جلد اس دولت کا سراغ لگایا جائے۔

پیری شیفرلی جینوا میں ایک اٹارنی ہیں اور نائجیرین صدر ثانی اباچہ اورفلپائنی ڈکٹیٹر مارکوس کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے میں مدد کرچکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کا کیسے پتہ چلایا جائے جو لوٹی ہوئی دولت کے با رے میں معلومات اور دستاویزات تک رسائی میں مدد فراہم کریں۔دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دولت لوٹنے والے لوگ مرجاتے ہیں اور دستاویزات لاپتہ ہوجاتی ہیں اور یوں قوم اس لوٹی ہوئی دولت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتی ہے ۔

انھوں نے بتایا کہ فلپائنی آمر مارکوس نے اپنی دولت اس طریقے سے چھپا رکھی تھی کہ خود اس کے خاندان کے لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ یہ کہاں ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ تیس انڈے کسی باغ میں چھپادیے جائیں اوربچوں سے کہاجائے کہ انھیں تلاش کریں لیکن بچے صرف پندرہ انڈے تلاش کرسکیں۔اس طرح وہ یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ باقی پندرہ انڈے کہاں چھپائے گئے۔

حسنی مبارک ، بن علی اور قذافی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے درجنوں ملکوں میں اثاثے چھپائے جن میں خلیجی ممالک کے علاوہ ایشیا کے کئی ممالک شامل ہیں جہاں کی حکومتیں ان کا سراغ لگانے میں بہت سست رفتاری سے مدد کررہی ہیں۔اگر یہ دولت گھر پر رکھی گئی ہوتو اس کا سراغ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر تیونس کے حکام کو تحقیقات سے پتہ چلا کہ بن علی کے محلات سے کروڑوں ڈالر مالیت کے زیورات اور کرنسی ملی جبکہ لیبیا کے مرکزی بینک کے گورنر فرحت بیندرا جس نے قذافی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ، نے انکشاف کیا کہ قذافی نے پچاس ملین ڈالر نقدی طرابلس میں رکھی ہوئی تھی جبکہ 155ٹن سونے کے بار اس کے علاوہ ہیں جن کی مالیت ساڑھے سات ارب ڈالر بنتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب ڈکٹیٹروں کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ ان کی اربوں ڈالر کی دولت کا شاید کبھی بھی سراغ نہ لگ سکے تا ہم بہت سی دولت کا سراغ آخرکار لگالیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے کے لیے ان عرب حکومتوں کو سب سے پہلاقدم یہ اٹھانا ہوگا کہ دولت کا پتہ چلایاجائے کہ وہ کہاں رکھی ہے اور اس کے بعد عدالتوں میں ثابت کیا جائے کہ یہ دولت غیرقانونی طورپر لوٹی گئی۔

باسل انسٹی ٹیوٹ سوئٹزرلینڈ کے معاون ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈینیل دیلاسکلاف جو کہ قاہرہ میں مصری حکام کو حسنی مبارک حکومت کی جانب سے لوٹی گئی دولت کا سراغ لگانے میں مدد فراہم کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ امیر ہونا یا سیاست میں شامل ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ اصل مجرم وہ امیر لوگ ہیں جو ناجائز طریقے سے دولت جمع کرتے ہیں یا سیاست کی آڑ لے کر کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔ہمیں ایسے ہی لوگوں کو پکڑنا چاہیے۔حسنی مبارک حکومت کی وزارت سیاحت اور داخلہ کے وزیر پہلے قومی دولت لوٹنے کے جرم میں مجرم قرار پاچکے ہیں اور جیلوں میں طویل قید کاٹ رہے ہیں۔

حسنی مبارک کے وزیرداخلہ یوسف بطرس غالی اس انجام سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہوگئے تھے تاہم بعدازاں انھیں قومی دولت لوٹنے کے الزام سے بری کردیا گیا تھا۔اس طرح دیگر کئی کیسوں کو ثابت کرنا بھی مشکل ہوگا کیونکہ بہت سے حکام بڑے بڑے تاجر بھی ہیں۔دیلاسکلاف کا کہنا ہے کہ تصویر کا ایک رخ کبھی نہیں ہوتا۔مصریوں کا کہنا ہے کہ کرپشن نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کررکھا تھا۔انھیں گاڑی پارک کرنے کے لیے آج بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ اس طرح کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر حاصل کرنے اور پاسپورٹ کی تجدید جیسے معمولی کام تک پیسے دیے بغیر نہیں ہوتے۔تاہم سابق مصری حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے اربوں کھربوں ڈالر کی کرپشن کی تصویر تاحال دھندلی ہے کیونکہ انھوں نے بہت چالاکی اور فنکاری سے ہاتھ دکھایا۔

سیاسی چیلوں چانٹوں کے ہتھکنڈے

رپورٹ کے مطابق 1990سے 2000 کی دہائی کے دوران ڈکٹیٹروں اور ان کے خاندانوں کی بات تو دور ، ان لوگوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جن کا تھوڑا بہت بھی سیاسی اثر و رسوخ تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مصر ، تیونس اور لیبیا میں نجکاری کا عمل شروع ہوا۔ان ملکوں نے سرکاری اداروں اور معیشت کو مغربی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا جس کی ایک وجہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مطالبات بھی تھے۔ چنانچہ اس دور میں اراضی سے لیکر توانائی کے شعبے اور پاور پلانٹس سے لیکر موبائل فون لائسنس تک ہر چیز کی سودے بازی کی دوڑ لگ گئی۔

کسی قسم کے ٹینڈرز کے بغیر اثاثے جلدی میں خرید ے گئے ، ان کو فروخت کیا گیا اور پھر خرید کر دوبارہ فروخت کیا گیا۔تیونس میں طرابلسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بن علی کے سسرالیوں نے معیشت پر قبضہ ہی کرلیا۔انھوں نے بڑے بڑے ملٹی نیشنل اداروں جیسے ٹیوٹا ڈیلر شپ ، کیرافور سپرمارکیٹس اور اورنج ٹیلی کام کی سب سڈریز کو نہایت کم نرخوں میں خرید لیا۔

مصر میں کس طرح کرپشن ہوئی ؟ قاہرہ میں سرکاری اخبار ''الاہرام'' کے لیے کام کرنیوالے سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ سٹرٹیجک اسٹڈیز کے احمد السعید النغار نے حسنی مبارک کے ساتھیوں اور سیاسی چیلوں چانٹوں کے بارے میں کئی سالوں کی تحقیق کے بعد جو دستاویزات تیار کیں ان کے مطابق ان لوگوں نے اربوں ڈالر کی کرپشن کی۔طریقہ واردات کے مطابق ان لوگوں نے بغیر کسی نیلامی یا ٹینڈر کے سرکاری اثاثوں کو اونے پونے داموں خریدا اور پھر اربوں ڈالر میں دوبارہ فروخت کردیا۔

2000ء میں حسنی مبارک کے قریبی ساتھی احمد ایز کو نہر سویز کے قریب ایک بڑی اراضی صرف سولہ ڈالر فی مربع میٹر کے حساب سے خریدنے کی اجازت وہاں پر ایک فیکٹری لگانے کی شرط پر دی گئی تھی۔ اس نے وہاں پر چھوٹی سی ایک فیکٹری لگائی اوراس کے بعد تمام زمین ایک کویتی کمپنی کو فروخت کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے37 ملین ڈالر کامنافع اپنی جیب میں ڈال لیا۔النغار کے مطابق کوئی بھی نجکاری کے عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتا تھا لیکن ایک بھی سودا ایسا نہ تھا جس میں کروڑوں ڈالر کی بدعنوانی نہ کی گئی ہو۔

اب جبکہ ان عرب ممالک میں انقلاب آچکا ہے اور کم ازکم کرپٹ ڈکٹیٹروں کو ہٹایا جاچکا ہے اس لیے اب کافی کچھ بدل سکتا ہے۔مصر میں درجنوں افسران کو ان الزامات کاسامنا ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاری منافع کمایا۔حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں علاء اور جمال پر کرپشن کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی۔تیونس کے حکام بن علی حکومت کے ایک سو دس ارکان اور اور طرابلسی خاندان کے بے شمار افرادکے اثاثے منجمد کرچکے ہیں۔لیبیا کے خود مختار اثاثوں کے تخمینے کے مطابق ان کی مالیت پچاس ارب ڈالر ہے جن کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تحت منجمد کیاجاچکا ہے۔

اقوام متحدہ کے حکام تحقیقات کررہے ہیں کہ آیا متعلقہ ممالک کی جانب سے واقعی اثاثوں کو منجمد کردیا گیا ہے تاہم یہ کام بہت پیچیدہ ہے اور اثاثوں کی مینجمنٹ کرنیوالی کمپنی KPMG کے مطابق ان میں کئی اطراف سے سرمایہ کاری ہوچکی ہے اور اس کا ریکارڈ غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔اس کمپنی کو لیبیا کی قذافی حکومت نے ہی ہائر کیا تھا۔2008ء میں عالمی اقتصادی کساد بازاری سے کچھ ہی عرصہ پہلے فنڈ کی جانب سے گولڈمین ساچس میں لگ بھگ اڑھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی تاہم اقتصادی بحران کے نتیجے میں اس میں سے اٹھانوے فیصد سرمایہ ڈوب گیا تھا۔

ادھر مصر میں حسنی مبار ک کا تختہ الٹے جانے کے تین ماہ بعد ایک مصری جج نے فیصلہ دیا جس کے تحت ''عمر آفندی''ڈیپارٹمنٹل اسٹورکے سودے کو آخر کار کالعدم قرار دے دیا گیا اور فیصلے میں کہا گیا کہ سودے میں فراڈ کیا گیا۔اس طرح عبدالہادی جس وزارت میں کام کرتا تھا اس میں اور بھی بڑے بڑے فراڈ کیے گئے جن میں کروڑوں ڈالر لوٹے گئے۔اس سلسلے میں بہت سختی سے تحقیقات جاری ہیں۔مصری حکام اب اس بات کی بھی تحقیق کررہے ہیں کہ اس وقت جو سابق مصری حکام ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ عمر آفندی کی ڈیل سمیت کہاں تک کرپشن میں ملوث ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق اس وقت مذکورہ عرب ممالک میں جہاں کروڑوں افراد بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں اور انتہائی عدم مساوات کے حامل معاشرے میں رہ رہے ہیں ، وہاں عوام چاہتے ہیں کہ ان کی کروڑوں ڈالر کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس ملک میں لایا جائے۔رپورٹ کے مطابق اسی صورت میں عرب انقلاب کو کامیاب کہا جاسکتا ہے۔یہی وہ کامیابی ہو گی جس کی عرب دنیا سالہاسال سے منتظر تھی۔

تیل کے وسائل سے 60 ارب ڈالر لوٹنے کا قصہ

ایلومبا ڈاٹ کام کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ لیبیا کے کرنل قذافی نے اپنے ملک کے تیل کے وسائل سے 60 ارب پائونڈ کی رقم کو کس طرح لوٹا اور کیسے اس کو اپنے اکائونٹس میں جمع کرانے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اور دنیا بھر میں ویلتھ فنڈز میں لگایا۔

تحقیقات کے مطابق قذافی کی اس دولت کا سب سے زیادہ فائدہ برطانیہ نے اٹھایا۔ برطانیہ نے خود تصدیق کی تھی کہ لندن منی لانڈرنگ کے لیے دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔قذافی کے سابق ساتھیوں کے مطابق 2004ء میں برطانیہ کے ٹونی بلئیر کی جانب سے قذافی کی طرف ''دوستی کا ہاتھ '' بڑھائے جانے کے بعد قذافی نے برطانیہ میں منی لانڈرنگ کا فیصلہ کیا جس کی وجہ برطانیہ میں بہت سی آسانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کا آسان نظام بھی تھا۔بعض اعداد وشمار کے مطابق قذافی نے برطانیہ میں دس ارب پائونڈ کی سرمایہ کاری کی۔

اپنے ملک کو لوٹنے کے لیے قذافی کا سب سے بڑا ذریعہ خود اس کا ہی قائم کردہ ادارہ لیبین انوسٹمنٹ اتھارٹی تھا جو کہ ایک نام نہاد خود مختار فنڈ تھا جس کا مقصد تیل سے کمائی گئی ملک کی دولت کو سرمایہ کاری میں لگانا تھا۔اس کا دفتر لندن میں مے فیئر میں تھا۔ اس اتھارٹی کی جانب سے لندن کے مذکورہ اداروں میں سرمایہ کاری کی گئی۔

٭ پبلشرز پیرسن جو کہ فنانشل ٹائمز اور پینگوئن بکس کے مالکان ہیں ، ان کے ساتھ تین فیصد سرمایہ کاری کی گئی جو کہ بیس کروڑ پائونڈ بنتی ہے۔

٭ بینک آف انگلینڈ کے بالمقابل کارن ہل سمیت متعدد دفاتر خریدے گئے۔اس کے علاوہ پورٹ مین ہائوس خریدا گیا جہاں آکسفورڈ اسٹریٹ کے متعدد اسٹورز واقع تھے۔

٭ تین ارب پائونڈ مے فئیر پرائیویٹ ویلتھ منیجر میں لگائے گئے۔اس طرح چار ارب پائونڈ کے عوض میرل لنچ اور بیئر سٹیرنز نامی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ لندن میں ''چند کروڑ پائونڈ'' کی سرمایہ کاری کے لیے ان کی مشاورت لی جائے۔

قذافی کا بیٹا اوراس کا جانشین کہا جانے والا سیف الاسلام ہیمپ سٹیڈ میں ایک کروڑ پائونڈ کے گھر کامالک تھا۔اسی طرح برطانوی حکام نے ایک کارروائی میں لگ بھگ ایک ارب پائونڈ مالیت کے لیبین کرنسی نوٹ قبضے میں لیے جو شمال مشرقی انگلینڈ میں ایک مقام پر رکھے گئے تھے۔علاوہ ازیں قذافی اور اس کے خاندان کے ایک ارب پائونڈ کے اثاثے برطانوی حکومت کی جانب سے منجمد کیے گئے۔لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں قذافی خاندان کی اٹھائیس کروڑ پائونڈ کی جائیدادوں سے ہونیوالی آمدنی کو بھی قذافی خاندان تک پہنچنے کے عمل کو روک دیا گیا۔

حسنی مبارک، کرپشن، غربت اور مایوسی کا عہد

مصر کے صدر حسنی مبارک کا دور کرپشن کا عہد تو تھا ہی ، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ غربت اور مایوسی کا عہد بھی بن چکا تھا کیونکہ کرپشن نے ہی اس غربت اور مایوسی کو جنم دیا تھا۔تیونس سے جنم لینے والے انقلاب نے جب مصر پر دستک دی تو حسنی مبارک کو اپنے تیس سالہ دور اقتدار کا مستقبل خطرے میں دکھائی دیا۔عالمی زرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق حسنی مبارک کے خلاف مصریوں کی نفرت نئی نہ تھی بلکہ اس کی لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیوں کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اس سے نفرت کرتی تھی اور یہ نفرت عشروں سے ان کے دلوں میں پوشیدہ تھی۔

اس نفرت کی وجہ کرپشن کے علاوہ معاشی ، سماجی ، تاریخی اور انتہائی زاتی نوعیت کی بھی تھی۔اقتدار پر حسنی مبارک کی اجارہ داری کے باعث مصریوں کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوچکی تھی۔کرپشن کے نتیجے میں ملک غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔کسی کی شنوائی نہ تھی۔جب انقلاب آیا تو حکومت کے بعض اتحادیوں اور اندرونی حلقوں نے بھی تسلیم کیا کہ مظاہرین کی شکایات اور ناراضی درست ہے۔

رپورٹ کے مطابق مصری نہ صرف حسنی مبارک کے طویل اقتدار سے تھک چکے تھے بلکہ وہ اس کی اور اس کے خاندان اور چیلوں چانٹوں کی کرپشن سے بھی تنگ آچکے تھے۔حسنی مبارک کا طویل ا قتدار انھیں اپنی توہین اور تذلیل معلوم ہوتا تھا۔اس اقتدار نے انھیں غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا تھا۔خود حسنی مبارک کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اور الاہرام پبلشنگ ہائوس کے چیئرمین عبدالمنعم سعید کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے بہت سے مطالبات جائز تھے۔تاہم مشکل یہ تھی کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان مطالبات کی کیا وضاحت کی جائے اور انھیں کیسے پورا کیا جائے۔مظاہرین کے جو بنیادی مطالبات تھے ان میں کرپشن کا خاتمہ بھی شامل تھا جس میں حسنی مبارک نے انتہا کر رکھی تھی۔

مصر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنیوالی ایک دیرینہ کارکن غدا شبندار کابھی یہی کہنا تھاکہ مصر کے عوام کرپشن سے تنگ آچکے ہیں۔اگر آپ ماہانہ تین سو مصری پائونڈ کمائیں تو زندہ رہنے کے لیے آپ کے پاس دو ہی آپشن ہوں گے،اول یہ کہ بھکاری بن جائیں اور دوئم چور، لیکن لوگوں نے انقلاب کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ وہ نہ تو بھکاری بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی چور۔

جن لوگوں نے مصر میں وقت گذارا ہے ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں صورت حال کیا رہی ہے۔مصری پولیس بہت ظالم تھی۔الیکشن جعلی ہوتے۔کرپشن کی کوئی حد نہیں تھی۔لوگوں کی زندگی دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھی۔لیکن ان حالات میں بھی بتیس سال سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک چاہتا تھا کہ اپنی جگہ اپنے بیٹے جمال مبارک کو ملک کا حکمران بنادے جیسے ملک اس کے باوا کی جاگیر ہو۔آخر لوگوں نے پھٹنا ہی تھا۔تیونس میں جب انقلاب آیا تو مصریوں میں بھی بغاوت کی چنگاری بھڑکی۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر میں انقلاب کی بنیادی وجہ کرپشن تھی۔حسنی مبارک کے مصر میں لوگ دو ڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر گذارا کرتے تھے۔غریبوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی جبکہ امیروں کے لیے نئی نئی آبادیاں بن رہی تھیں جہاں سرسبز و شاداب باغات ، پارک اور سوئمنگ پولز تھے اور یہ زیادہ تر ناجائز دولت کمانے والوں کا مسکن تھیں۔ دوسرے لفظوں میں امیر لوگ اپنی الگ جنتیں بنارہے تھے جن کے ساتھ ہی غریبوں کی وہ آبادیاں تھیں جہاں پانی بجلی اور سڑکوں سمیت کوئی سہولت نہ تھی۔لوگو ں کا کہنا تھا کہ ملک کی تباہی کا واحد ذمے دار حسنی مبارک ہے۔وہ اور اس کا خاندان کرپشن کررہا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہا تھا اور یہی کچھ ملک کے عوام اور دیگر طبقات بھی کرنے لگے تھے۔جب حکمران ہی ڈاکو ہو تو عوام کو ڈاکو بننے سے کیسے روکاجاسکتا ہے۔

حسنی مبارک نے جب انور سادات کے قتل کے بعد اقتدار سنبھالا تو اس نے تمام آمروں کی طرح عوام کو سبز باغ دکھائے اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب لے کرجانے کا خواب دکھایا۔لیکن اس کے اقتدار کے 30 سال بعد عوام کو پتہ چلا کہ وہ جہنم میں رہ رہے ہیں۔ایک طرف غربت اور بدحالی تھی جو کہ کرپشن کانتیجہ تھی اور دوسری جانب مجروح عزت نفس تھی جو حسنی مبارک اور اس کے چیلوں چانٹوں کی طویل ظالمانہ اور آمرانہ حکومت کے باعث تھی۔

بہت سے مصریوں اور ان لوگوں جنہوں نے حسنی مبارک کے طویل آمرانہ دور کا مشاہدہ کیا ، ان کے لیے حیرانی کی بات یہ نہ تھی کہ وہ بہت غیرمقبول اور نفرت انگیز شخصیت بن چکا تھا ، بلکہ یہ تھی کہ لوگ اس کی لوٹ مار اور مظالم کے بارے میں بات کرنے سے اب ڈر نہیں رہے تھے۔

عالمی اور سماجی امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر حسنی مبارک اپنے ملک میں صرف کرپشن کو کنٹرول کرلیتا تو شاید اس کا انجام اس قدر المناک نہ ہوتا۔لیکن وہ تو خود اس لوٹ مار کا حصہ تھا۔اس کا خاندان اور قریبی لوگ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے۔ اس لیے یہ وقت تو آنا ہی تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔