نڈر طاہر شاہ اور دلیر حکمران
خبر کو سفر کرتے دیر نہیں لگتی، خاص کر جب خبر ذرا ہٹ کر ہو تو اس کے اڑنے میں مزید ’پر‘ لگ جاتے ہیں۔
خبر کو سفر کرتے دیر نہیں لگتی، خاص کر جب خبر ذرا ہٹ کر ہو تو اس کے اڑنے میں مزید 'پر' لگ جاتے ہیں۔ اب وہ پانامہ لیکس کے ٹیکس چور ہوں یا پھر موسیقی کو روح کا عذاب بنانے والی طاہر شاہ کی اینجل، اینجل والی ویڈیو ہو، جس نے پوری دنیا میں اپنے لاکھوں تنقیدی مداح پیدا کرلیے ہیں۔
خوبصورت گیت، مدھر کردینے والی موسیقی اور لاجواب شاعری، کچھ بھی تو ایسا ویڈیو میں دیکھنے کو نہیں۔ شوق بڑھ کر جنون کی شکل اختیار کرلے تو اچھے بھلے آدمی کو لے ڈوبتا ہے، بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔ راتوں رات بین الاقوامی شہرت پانے والے سنگر طاہر شاہ نے تین سال پہلے بھی ایک گانا متعارف کروایا تھا، آئی ٹو آئی کے نام سے، جو اسی طرح تنازعات کا شکار رہا۔ سوشل میڈیا کا کیا جادو ہے، اگر گانا مثبت پیرائے میں ہٹ ہوگیا تو چل سو چل، ورنہ بھی بازی مات نہیں، بدنام گر ہوں تو کیا نام نہ ہوگا۔
طاہر شاہ ایک پڑھے لکھے، اچھے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مالی اعتبار سے بھی خاصے خوشحال ہیں، اپنا ٹی وی چینل کھولنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انھوں نے یہ گانا خود لکھا، کمپوز کیا اور اس میں اداکاری بھی خود کی ہے۔ اس گانے پر موسیقی کے شائقین ان سے کافی خفا نظر آتے ہیں، کافی لے دے ہورہی ہے۔ موسیقی اور شاعری کی تابندہ روایات کے سنگم سے ہٹ کر بننے والے سونگ میں علی آفتاب سعید (آلو انڈے فیم) تک تو قابل ہضم تھا، طاہر شاہ کے اس گانے کو لے کر سوشل میڈیا میں گویا ایک نیا دلچسپ موضوع ہاتھ آگیا ہو۔
کسی کو اینجل کا کردار اس قدر خوف زدہ کررہا ہے تو کسی کو وہ 'پرا' نظر آتا ہے، جو خاتون کا لباس پہنے زمین کا مذاق اڑانے پر اتر آیا ہے۔ ایک بھارتی اداکارہ نے تو ایٹم بم سے بھی مہلک قرار دے دیا۔ طاہر شاہ کہتے ہیں کہ اس گانے میں انھوں نے اپنی پسند کو مدنظر رکھ کر بنایا ہے، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا لوگ اس پر اپنے اظہار کو بیان کرتے رہیں۔ لیکن کیا کوئی اس قدر نڈر ہوسکتا ہے کہ اس طرح شہرت کی خاطر اپنا مذاق بنتا دیکھتا رہے، اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔
دیکھا جائے تو ہمارے لیڈر بھی نہایت دلیر واقع ہوئے ہیں، ان کے حوصلے کی بھی داد دینی پڑے گی، ان کی ذات سے ملک کا کچھ بھی بگڑ جائے، کتنے ہی بحران آئیں، وہ پروا نہیں کرتے، ملک دو ٹکڑے ہوجائے، کشمیر پر قبضے کی کہانی ہو، چشم دید گواہان کے بیانات پورے ثبوت سمیت مہیا کیے جائیں، وکی لیکس کے اسکینڈل ہوں یا پھر موجودہ پانامہ لیکس اسکینڈل ہو، بے حسی کی ایک روایت سی پڑچکی ہے۔
عوام اور میڈیا چند دن رو دھو کر، شور مچا کر چپ بیٹھ جاتے ہیں۔ لگتا ہے ہم نے اپنی راہ گم کردی ہے۔ بدگمانی اور خوش فہمیوں کا سفر تو ہم کہیں بہت دور چھوڑ آئے ہیں۔ ہر بار محسوس ہوتا ہے گویا بہت کچھ کھونے کا خطرہ ہے، مگر اب اس کے لیے بھی کئی تدابیر ڈھونڈ لی جاتی ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کبھی کبھی یہ ماں دوسرے کا بچہ گود لے لیتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں دولت کی گردش کو آزادانہ قرار دیتا ہے، لیکن کچھ اخلاقی و قانونی اصول وضوابط ملک اپنے طور پر بھی لاگو کرتے ہیں۔ اس وقت پانامہ لیکس کی بدولت کرپشن کے الزامات سے سیاسی فضا مکدر ہوچکی ہے، جو اب کبھی صاف نہ ہوسکے گی۔ کرپشن کے الزامات ان بڑی کاروباری شخصیات پر لگ چکے ہیں، جن کا نام لینا چاہیں تو زبان موٹی پڑجاتی ہے۔
پاکستان کو صرف ایک سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ سیکڑوں بیورو کریسی، ملٹری، صنعتکاروں، دکانداروں و تاجروں نے لوٹا ہے۔ اثاثے جمع کیے جائیں تو پاکستان کے تمام قرضے ادا ہوجائیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس نجی کاروباری، ملازمت پیشہ افراد ادا کرتے ہیں، جب کہ دیگر کاروباری افراد اول تو ٹیکس ادا نہیں کرتے، اگر کسی طرح ان پر بار گراں آجائے تو کوشش کرتے ہیں کہ ٹیکس ریٹرن فائل کراتے ہوئے اپنے اثاثے بچوں کے اخراجات وغیرہ بڑھا چڑھا کر بتائے جائیں۔
اس سلسلے میں خود ادارہ بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، اگر ٹیکس چوری نہ ہوتی تو تین سال میں قرضے ختم ہوسکتے تھے۔ ماہرین معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق جنوبی ایشیا کے سات ممالک میں پاکستان کی شرح نمو سب سے کم ہے۔ کرپشن اور ٹیکس چوری سے ملک کو سالانہ آٹھ ہزار ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ پچھلے سال پاکستان کی تاریخ میں بجٹ خسارہ سب سے زیادہ رہا۔ اس وقت پاکستان قومی مالیاتی اداروں کا سترہ ہزار ارب روپے اور بیرونی مالیاتی اداروں کا اسی ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ پاکستان 124 ممالک کی فہرست میں سماجی و اقتصادی اشاریوں کے لحاظ سے 113 ویں نمبر پر ہے۔
سیاست کو ملکی خدمت کے جذبے کے تحت نہیں، تجارتی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ کروڑں روپے صرف کرکے بیرون ملک کے دورے کیے جاتے ہیں۔ غیرملکیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے اور خود وزراء ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک اسمگل کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت عالمی برادری میں اپنا وقار و احترام کھوچکی ہے۔ موجودہ قیادت کو کرپشن کے الزامات کے باوجود صرف کہانیوں میں تخت سے اتارا جاسکتا ہے۔ استعفیٰ دینا ہماری روایات ہے نہ شیوہ۔ محض عذر سنائے جائیں گے، اعتراضات کا پنڈورا بکس کھلے گا، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جاتے جاتے قرآن پاک کا ایک قصہ یاد آتا ہے، آپ بھی سنتے جائیے۔ پرانے زمانے میں دولت کو چھپانے کے لیے دیوار کے نیچے گاڑ دیا جاتا تھا۔
سورۂ کہف میں حضرت موسیٰؑ کا قصہ بہت مشہور ہے، جب وہ حضرت خضرؑ کے ساتھ سفر پر تھے، ایک خوشحال بستی سے گزر ہوا، ایک مکان کی گرتی دیوار حضرت خضرؑ نے بنا اجرت کے مرمت کردی۔ حضرت موسیٰؑ بستی والوں کی بے التفاتی سے نالاں تھے، انھیں یہ بات ناگوار گزری، شکایت کی تو اﷲ نے فرمایا، جو تم نہیں جانتے وہ ہم جانتے ہیں، یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے، ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، اس نے دیوار کے نیچے خزانہ دفن کیا تھا، پس تمھارے پروردگار نے چاہا کہ ان کا خزانہ لڑکوں کی جوانی تک محفوظ رہے، اس لیے اسے دوبارہ چھپادیا گیا۔ باپ نیک ہو، اولاد اس کے نقش قدم پر ہو، تو دیوار اسی طرح محفوظ کی جاتی ہے کہ خزانہ حقیقی وارثوں تک پہنچ سکے۔ جی ہاں! ورنہ خبر کو سفر کرتے دیر کب لگتی ہے، خاص کر جب وہ ذرا ہٹ کر ہو۔