تاآنکہ بے گناہی ثابت نہیں ہوتی…
ریاستی مشینری لامحالہ برسراقتدار حکومت کی حمایت کرتی ہے
سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پانامالیکس کی وضاحت کے لیے غیر استدلالی طور پر وزیراعظم نے بیانات جاری کیے ہیں۔ اپنے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے قیام کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا ہے جس نے صورت حال کو مزید الجھا دیا ہے۔ انھوں نے اپنے 22 اپریل کے قوم سے خطاب میں زیادہ تر وقت اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور پاناما لیکس کے واقعے کو اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف ایک گہری سازش قرار دینے میں صرف کیا۔ گو انھوں نے براہ راست کسی کا نام نہیں لیا' لیکن ان کے خطاب سے واضح تھا کہ وہ کسے نشانہ بنا رہے ہیں۔ شوکت خانم جیسے ادارے کو جو عام اور غریب آدمی کے کینسر کے علاج میں نمایاں خدمت سر انجام دے رہا ہے' تختہ مشق بنانابھی لوگوں کو اچھا نہیں لگا۔
بلاشبہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ایک مہذب خاندانی اور طبعاً شریف النفس شخص ہیں لیکن ان کے ساتھی جس انداز میں پاناما لیکس پر ان کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں وہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ امر تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک پختہ ثبوت نہ ہوں تب تک عدالتیں کسی کو گناہگار یا بے گناہ نہیں قرار دے سکتیں۔ لیکن اگر یہی معاملہ کسی ایسے شخص کے متعلق ہو جو وزارت عظمیٰ جیسے باوقار عہدے پر فائز ہو' اس کے لیے بہت اہم ہے کہ اپنی ذات کے متعلق اٹھنے والے سوالات کا خاطر خواہ جواب دے۔ وہ سوالات جیسے کہ لندن کے مہنگے فلیٹس کی خریداری اور اس کے لیے ایک خطیر رقم کا انتظام کہاں سے کیا گیا' جواب مانگتے ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون نے بلاتاخیر پارلیمان کے سامنے اپنے دفاع کے لیے مدلل انداز میں خود کو پیش کیا۔ یہ ایک بہتر جمہوری طریقہ ہے ۔شریف خاندان نے آف شور کمپنیاں 1999ء سے پہلے قائم کیں لیکن کس طریقے سے قائم ہوئیں یہ غیر واضح ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ تین سال میں شریف فیملی کے اثاثوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن انھوں نے اس کے حساب سے ٹیکس نہ ہونے کے برابر دیا ہے۔ میاں نواز شریف نے چیف جسٹس کو ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنس) والا جو خط لکھا ہے اس میں اصل معاملہ یعنی پانامالیکس کا حوالہ گول کر دیا گیا ہے بلکہ صرف یہ لکھا ہے کہ 1947ء کے بعد وقوع پذیر ہونے والی ہر قسم کی مالی بے ضابطگی اور بدعنوانی کی باریک بینی سے تحقیقات کی جائے جس میں ان قرضوں کا بھی جائزہ لیا جائے جو واپس نہیں کیے گئے۔ اس طرح تقریباً 50 سال کا حساب لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بظاہر تو ان معاملات کے احتساب کے لیے نیب اور ایف آئی اے کے ادارے پہلے سے موجود ہیں جو سوؤ موٹو ایکشن بھی لے سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ادارے اس قسم کی تحقیقات کے لیے مہارت کے حامل ہیں۔ اگرچہ برسراقتدار حکومت کسی حد تک نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی حیثیت میں ہوتی ہے اس کے باوجود تھوڑی بہت تحقیقات ضرور عمل میں آ جاتی ہیں۔ لیکن ایسی تحقیقات امریکا انگلینڈ اور یورپی یونین کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی 100 فیصد کامیابی سے انجام تک نہیں پہنچتیں۔
ریاستی مشینری لامحالہ برسراقتدار حکومت کی حمایت کرتی ہے اور قصداً بعض حقائق کو مسخ کر دیا جاتا ہے یا سرے سے حذف کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کو لکھے جانے والے خط میں میاں نواز شریف نے یہ کہا ہے کہ ان کے منصب کو متنازع بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ عارضی طور پر اپنے منصب سے الگ ہو کر ایک نگران حکومت قائم کر دیتے جو غیر جماعتی طور پر ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوتی اور یہ حکومت اس وقت تک قائم رہتی جب تک انکوائری مکمل نہ ہو جاتی۔
یہ نگران حکومت نہ صرف وفاق میں بلکہ صوبائی سطح پر بھی قائم کی جانی چاہیے تھی۔ جنرل وحید کاکڑ نے ایک فارمولا طے کر دیا تھا۔ 1993ء میں جب نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے مابین سنجیدہ اختلافات پیدا ہو گئے جس کے نتیجے میں تنازعہ اس نہج پر پہنچ گیا کہ خانہ جنگی کا امکان پیدا ہو گیا تو جنرل کاکڑ نے مارشل لا لگانے کے بجائے غیرجانبدارانہ موقف اختیار کرتے ہوئے دونوں کو ان کے عہدوں سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا، جس کے بعد ایک نگران حکومت قائم کی گئی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔ تاہم اس مرتبہ اسمبلیوں کے تحلیل کیے جانے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ انھیں تحقیقات مکمل ہونے تک غیر فعال کیا جا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف کی ٹیلی ویژن پر تقریر جنرل راحیل شریف کے اس بیان کے بعد ٹیلی کاسٹ کی گئی جس میں جنرل صاحب نے کہا تھا کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بلاامتیاز احتساب کریں گے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے کچھ اعلیٰ عہدوں کے حاضر سروس فوجی افسروں کو گھر بھجوا دیا، جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل' ایک میجر جنرل شامل تھے۔ ان پر کرپشن کے الزامات عاید تھے جب کہ مزید برطرفیاں بھی متوقع ہیں۔
2007ء میں بنگلہ دیش کے صدر اور وزیراعظم کو معزول کر کے ایک نگران حکومت قائم کی گئی تھی تا کہ 11 جنوری 2007ء کو پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو دور کیا جا سکے۔ اس موقع پر ایک نیا الیکشن کمیشن بھی قائم کر دیا گیا۔ بنگلہ دیشی نگران حکومت میں کوئی فوجی افسر شامل نہ کیا گیا اور نہ ہی کسی فوجی کو سول بیوروکریسی میں داخل کیا گیا۔ بنگلہ دیش سے کرپشن کے قلع قمع کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے۔ اس ساری اکھاڑ پچھاڑ میں وزراء' اراکین اسمبلی' پارٹی لیڈرز' سول سرونٹس اور کاروباری شخصیات وغیرہ کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔
اس موقع پر بنگلہ دیش فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل معین احمد تھے جن کے لیے میرے دل میں بہت عزت ہے کیونکہ 2007ء سے پہلے میری ان سے بات چیت ہوئی تھی۔ ان کے بھائی کرپشن میں ملوث تھے جس کو انھوں نے نظر انداز کر دیا۔ اس بنا پر ان کی ساکھ تباہ ہو کر رہ گئی۔ اپنے بھائیوں کو نہ چھیڑنے کے لیے انھوں نے ''نظریہ ضرورت'' کا سہارا لیا البتہ نگران حکومت کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوئی اور الیکشن کمیشن نے بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جس کے لیے اہم اصلاحات کی گئی تھیں جن کی وجہ سے کسی کرپٹ امیدوار کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
موجودہ صدر کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین عارضی طور پر صدر مملکت کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قائم مقام صدر کا حلف اٹھا لیں اور ایک ریٹائرڈ جج کو نگران حکومت کی سربراہی کے لیے نامزد کردیں۔ اس صورت میں سرکاری اور نیم سرکاری مناصب پر جتنی بھی سیاسی تقرریاں ہیں انھیں بھی عارضی طور پر رخصت پر جانا ہو گا۔
نگران حکومت غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے۔اس مقصد کے لیے فارنسک آڈٹ کروایا جائے۔ ان تحقیقات کے لیے وقت کی میعاد مقرر کی جا سکتی ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کے پاس اختیار ہو کہ وہ غیر ملکی ماہرین' فارنسک اکاؤنٹنٹس' غیر ملکی وکلا اور بینکاروں کو اپنی مدد کے لیے طلب کر سکے۔ نواز شریف اور دیگر کا اگر تحقیقات میں کوئی قصور ثابت نہ ہو تو وہ واپس اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ ''جمہوریت کی قیمت پر احتساب قابل قبول نہیں''۔یہ وہ بات ہے جسے زرداری بہت پسند کریں گے ۔ بہرحال نواز شریف جب تک اپنی اور اپنے خاندان کی بے گناہی ثابت نہیں کرتے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ انھیں چاہیے کہ وہ راست اقدام کریں کیونکہ ممکن ہے کہ کل تک بہت دیر ہو چکی ہو۔