معین اختر کی یادیں
معین اختر کی شہرت کراچی کے فنکشنوں میں بڑھتی جا رہی تھی اور یہ شادی بیاہ کے فنکشنوں کا شہزادہ کہلایا جاتا تھا
جب بھی اپریل کا مہینہ آتا ہے تو ایک دیرینہ نہایت ہی پیارے دوست اور نامور فنکار معین اختر سے بچھڑنے کا غم پھر سے تازہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم سارے دوست اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مستقبل کو سنوارنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے اور راتوں کو فنکشنوں میں جانے کے لیے ایسے دوستوں کی تلاش میں رہتے تھے جن کے پاس کوئی اسکوٹر یا موٹرسائیکل ہوتی تھی کیونکہ اس زمانے میں کسی کے پاس موٹرسائیکل ہونا بھی خوشحالی کی علامت ہوتی تھی۔
معین اختر کی شہرت کراچی کے فنکشنوں میں بڑھتی جا رہی تھی اور یہ شادی بیاہ کے فنکشنوں کا شہزادہ کہلایا جاتا تھا۔ یہ جس فنکشن میں ہوتا تھا اس فنکشن میں اس کی وجہ سے جان پڑ جاتی تھی۔ اب اس کے پاس بھی ایک عدد اسکوٹر آگیا تھا اور اب یہ کسی اور فنکارکو اپنے پیچھے بٹھا کر لے جاتا تھا۔اس کی شہرت میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہورہی تھی۔ پھر میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے لاہور چلا گیا اور وہاں خدا کے فضل وکرم سے میں بحیثیت نغمہ نگار اور مکالمہ نگار اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
جب میں دس سال لاہور میں گزارنے کے بعد کراچی آیا تومیرے کئی پرانے دوستوں کی شادیاں ہوچکی تھیں اور وہ کئی بچوں کے باپ بن چکے تھے ان دوستوں میں معین اختر وہ واحد دوست تھا جس کی شادی میرے لاہور جانے سے پہلے ہی ہوگئی تھی اور اس کے والدین نے اس کو بڑی جلدی شادی کی ذمے داریوں سے وابستہ کردیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب معین اختر لیاقت آباد میں رہتا تھا اور جب بھی اس کا کوئی دوست اس سے ملنے کی غرض سے اس کے گھر جاتا تھا تو سب سے پہلے معین اختر کے والد سے اس کا ٹکراؤ ہوتا تھا اور اس کے ہر دوست کو پہلے معین اختر کے والد کے چند سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ معین اختر کے والد روزانہ شام کے سائے گہرے ہوتے ہی اکثر اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چھوٹے سے چبوترے پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور وہ پان بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ میں بھی اکثر و بیشتر معین اختر سے ملنے اس کے گھر جایا کرتا تھا اور معین اختر کے والد سے میری اچھی خاصی بے تکلفی بھی ہوگئی تھی۔
وہ کبھی کبھی مجھ سے یہ بھی کہتے تھے کہ'' ارے بھئی! تم معین کے دوست ہو ذرا اس کو سمجھاؤ کہ وہ پہلے زیادہ سے زیادہ اپنی تعلیم پر توجہ دے یہ فنکشنوں میں راتیں کالی کرنا اچھی بات نہیں ہے ان فنکشنوں سے اس کا مستقبل بھلا کیسے بن جائے گا کمائی کجائی دھیلہ نہیں ہے بس کہتا ہے ذرا اور مشہور ہوجاؤں گا تو مال بھی کماؤں گا بھلا یہ کامیڈی یہ فقرے بازی اس کا کیا مستقبل سنوارے گی۔'' میں خاموشی کے ساتھ ان کی بات سن کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا کیونکہ میرے والد بھی اکثر میرے سامنے بھی یہ کہہ کر ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے تھے کہ چھوڑ دو یہ شاعری واعری۔ یہ تمہیں کچھ نہیں دے گی۔ اس شاعری نے تمہیں نکما بنادیا ہے۔
میں معین اختر کے والد کی بات سن کر کہتا تھا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں انکل! آج کے دور میں تعلیم کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہے اور معین اختر کے والد میری بات سن کر مسکراتے ہوئے کہتے تھے۔ بس یہی بات تم معین کے دل میں اتار دو میں تو اس کے مستقبل کی وجہ سے بڑا پریشان رہتا ہوں۔ میں نے یہ بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ میں اس کی جلدی شادی کردوں گا تاکہ شادی کی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے کچھ اپنے مستقبل کی فکر کرے گا۔ معین کے والد بھی کافی مذہبی اور پرانے خیالات کے تھے اور شادی کے بعد خوشحالی کی برکتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔
معین اختر اپنے والد کی ہر بات کو سن کر انھیں یہی تسلی دیتا رہتا تھا کہ وہ فنکشنوں کے علاوہ تعلیم کی طرف بھی توجہ دے رہا ہے اور وہ اپنے والد کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر پیار سے چند میٹھی میٹھی باتیں کرکے ان کے دل کو تسلیاں دے دیا کرتا تھا۔ معین اختر میں شروع سے ایک بڑا آرٹسٹ بننے کی لگن تھی۔ اس کے اندر فن کا ایک جوالا مکھی روشن تھا۔ معین اختر ویسے تو بہت سے فنکشنوں میں حصہ لیتا تھا اور ہر فنکشن میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے فنکشن میں چھا جاتا تھا مگر اکثر و بیشتر فنکشن کے میزبان اور آرگنائزر معین اختر کا معاوضہ دبا لیا کرتے تھے یا جتنے معاوضے کی بات کرتے تھے فنکشن کے بعد اس سے آدھا معاوضہ اسے دیتے تھے اور آدھا خود رکھ لیتے تھے۔
مگر معین بہت بڑے دل کا مالک تھا وہ اس تکلیف دہ عمل کے بعد بھی ان میزبانوں سے کبھی جھگڑتا نہیں تھا اور اپنی خوش گفتاری کی وجہ سے ان سے کچھ نہ کچھ مزید معاوضہ وصول کرلیا کرتا تھا کیونکہ پروگرام آرگنائزرز کو اپنے آیندہ فنکشنوں میں عوام کی پسندیدگی کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا اور معین اخترکی ڈیمانڈ فنکشنوں میں روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور پھر ایک وقت وہ بھی آگیا کہ معین اختر بطور آرگنائزر خود بڑے بڑے پروگرامز بک کرنے لگا تھا اور نہ صرف کراچی بلکہ کوئٹہ و بلوچستان، لاہور، ملتان اور اسلام آباد بھی پروگراموں کے لیے بلایا جانے لگا تھا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بطور مزاحیہ فنکار ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا تھا اور اب بہت سے دوسرے فنکار معین اختر کی وجہ سے فنکشنوں میں بک ہونے لگے تھے اور معین اختر ان کو بہتر سے بہتر معاوضے دلانے میں بھی پیش پیش رہتا تھا۔
آخر ایک دن وہ آ ہی گیا جب اس نے اپنے دوستوں کو اپنی شادی کے کارڈ تقسیم کرتے ہوئے کہا '' یارو! شادی کی یہ زنجیر باندھنی اب ضروری ہوگئی ہے۔ میرے والد کی میرے بارے میں کچھ بدگمانیاں بڑھتی جارہی ہیں اوران کی بدگمانیوں کو دورکرنے کا واحد حل یہ شادی ہی ہے۔'' پھر معین اخترکی زندگی میں وہ اہم دن بھی آگیا جب اسے دلہا بنایا گیا اور وہ اپنے دوستوں کے درمیان شیروانی پہنے اور سہرا باندھے ہوئے منہ پر ایک عدد رومال لگائے ہوئے تھا اور قاضی صاحب معین اختر کا نکاح پڑھا رہے تھے۔
معین اختر کی شادی میں اس کے فنکار دوستوں کے علاوہ کئی مشہور صحافی افراد بھی شامل تھے کیونکہ معین اختر کی چند فلمی صحافیوں سے بھی بڑی گہری دوستی تھی۔ اور نکاح کے موقعے پر ان صحافیوں میں ماہنامہ ''رومان'' کے ایڈیٹر نامور ناول نگار اور صحافی سعید امرت ، اے۔آر۔سلوٹ، خورشید اختر، یوکملانی اورگلوکار احمد رشدی بھی خاص طور پر موجود تھے۔ نکاح کے بعد میں نے برجستہ چند اشعار بھی پڑھے تھے اس وقت ذہن میں صرف ایک ہی شعر رہ گیا ہے وہ میں اپنے قارئین کی نذرکردیتا ہوں۔
ہوگیا اس کا نکاح اب یہ کنوارا نہ رہا
آج سے یار ہمارا بھی ہمارا نہ رہا
معین اختر کی شادی بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوگئی تو معین اختر کے والد بہت ہی خوش تھے اور ان کی ایک بڑی پریشانی دورہوگئی تھی کہ اب معین کا مستقبل سدھر جائے گا اور یہ اپنی ذمے داریوں کو خیر وخوبی کے ساتھ انجام دے گا اور پھر معین اختر نے وہ لڈو کھا ہی لیا جسے جو نہ کھائے وہ پچھتائے۔