محنت کشوں کی 130 سالہ جدوجہد

18ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہوگیا تھا۔


Manzoor Razi May 01, 2016

آج سے ٹھیک 130 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کار مقررکروانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے 8 گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور 12 اور 16گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہے، دوسری جانب یورپ میں مزدور 6 گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

یکم مئی کو دنیا بھرکے محنت کش اپنے اپنے ملکوں میں شکاگوکے ان شہید محنت کشوں کی یاد میں جلسے جلوس، سیمینار اورریلیاں نکال کر اس عہد اورعزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصال نظام کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اورکٹھن صبرآزما جدوجہد صدیوں سے جاری ہے اورآج بھی جاری ہے جب سے کائنات یا دنیا وجود میں آئی ہے یہ کشمکش جاری ہے، جانے کب پہلی مرتبہ زمین پر طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اورکمزور بے بس، مظلوم، محکوم اورغریب عوام پرظلم وستم اور جبرکرکے اپنا غلام بنالیا تھا اور جبری مشقت لینا شروع کردی۔خیر یہ تو بڑی طویل داستان ہے۔ ابتدائی معاشرہ تو بھائی چارے کا اشتراکی معاشرہ تھا۔

18ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے انجن اورکارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے، بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بیگار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں ہی میں بند کردیا جاتا تھا۔ اس سے قبل 1783 اور 1789 میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جاتا ہے۔کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے، اینگلزکا دور تھا، داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آچکی تھی۔

کارل مارکس 1883 میں دنیا چھوڑ گئے تھے۔ اسی دور میں محنت کشوں میں انجمن سازی بھی ہورہی تھی۔ محنت کشوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا نہ اوقات کار تھے، رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا، یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھی۔ سائنس بھی ترقی کررہی تھی،کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جارہا تھا۔ مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور یونین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جد وجہد کی یونینز بنائی۔ فیڈریشن بنائی،کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی،اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جدوجہد کرتے رہے تھے مگر جوکام شکاگوکے محنت کش 1886 میں کرگئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

130 سال قبل ایسے مزدور رہنما پیدا ہوگئے تھے، جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دے کر محنت کشوں کا سرفخر سے بلند کردیا تھا۔ یہ واقعہ شکاگوکی مشہور زمانہ ''حے'' (HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ''ظالم حکمرانو! ہم بھی انسان ہیں، ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روزگار دو'' وہ نعرے لگارہے تھے ''دنیا کے مزدورو۔ ایک ہوجاؤ'' وہ بلا رنگ ونسل ومذہب ایک تھے ''کوڈ گوکہ وہ عیسائی یا یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے'' پورا صنعتی شہر جام ہوگیا۔

ملوں اورکارخانوں کی چمینیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیا تھا، یکم مئی 1886 کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر تحریر کردیا تھا جواب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

'' مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہوچکی، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، آگے بڑھو، اپنے مطالبات منوانے کے لیے، اپنے اوقات کارکے لیے جدوجہد جاری رکھنا، حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا ہے، اسی میں تمہاری فتح ہے، لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک مزدور اتحاد زندہ باد۔'' صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھارپیداکردیا اور انھوں نے زدوردار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کارکا مطالبہ کردیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کوکچھ اس طرح تقسیم کیا گیا، ہم 8 گھنٹے کام کریں گے، ہم 8 گھنٹے آرام کریں گے، ہم 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔

حکمرانو! مل مالکو!، سرمایہ دارو! کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ نہتے، کمزور اور پر امن محنت کشوں کو لہو لہان کردیا۔ شکاگوکی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہوگیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے سرخ ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنالیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ پرچم ہمارا جھنڈا ہوگا، ہم اس وقت تک کام پر نہیں جائیںگے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔

سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہوگا اس وقت سے محنت کشوں کا دنیا بھر میں یہی پرچم ہے، آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔ اس موقعے پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں، فشر،انجیل، پیٹرسنز اوراسپائنر سمیت 7 رہنماؤں پر مقدمہ چلایاگیا اور چار رہنماؤں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایاگیا۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، ان رہنماؤں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھنے سے پہلے کہا تھا۔ حاکمو! غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو، نہیں تو پھر ان کی تلواریں بلند ہوںگی (اسپائنر) جب کہ ایک اور ساتھی نے کہا تھا کہ'' ہم نیک مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں ہمارا قافلہ آگے بڑھے گا۔''

بعد ازاں دنیا بھر میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ 1917میں روس میں انقلاب آیا پھر چین میں انقلاب آیا اور اب لاطینی امریکا کے ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔خود یورپ میں بڑی تبدیلی آئی ہے محنت کشوں نے کئی ایک مراعات حاصل کرلی ہیں وہاں 6 گھنٹے اوقات کار ہیں۔ تعلیم، صحت اور رہائش گاہ میسر ہے مگر ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ ملک میں بھوک، غربت، جہالت، بے روزگاری عام ہے خودکشی کا رجحان عام ہے، پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، حکمرانوں، سرمایہ داروں، مذہبی فرقہ پرستوں، لسانی اور نسلی گروہوں نے محنت کشوں کو زبان، مذہب، کلچر، تہذیب اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔

ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کے لیبر ونگ ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہوکر دم توڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آرہی ہے، بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، وہ پیجاروکلچر ایئرکنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیں، مزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے قومی اداروں کوفروخت کیا جارہاہے، ملکی معیشت زوال پذیر ہے،آیے ہم عہدکریں کہ یکم مئی 1886 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2016 کو ایک نئی تاریخ رقم کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔