وہ کہ جن کا خاتمہ ہونے کو ہے

انسانوں کی خودغرضی کے باعث معدومیت کا شکار دس جان دار


Ateeq Ahmed Azmi May 01, 2016
انھیں بچایا نہ گیا تو یہ خوب صورت جانور صرف تصویروں اور کتابوں میں نظر آئیں گے۔ فوٹو: فائل

رب کائنات نے اس کرۂ ارض پر چاروں جانب خوب صورتی اور زندگی کی علامتیں پھیلا رکھی ہیں۔ کہیں بلند وبالا پہاڑ ہیں تو کہیں جھاگ اڑاتے آبشار ہیں، جو گھن گھرج کے ساتھ بہتے چلے آتے ہیں اور دریا کی صورت میں تبدیل ہوکر حضرت انسان کے لیے زندگی کی نوید بنتے ہیں ایسے ہی لاتعداد مناظر فطرت میں وہ جان دار بھی شامل ہیں جو انسان کے وجود سے قبل بھی اس کرۂ ارض پر موجود تھے اور کرۂ ارض کے سینے پر اپنی فطری زندگی بسرکر رہے تھے، لیکن بدقسمتی سے ترقی کی دوڑ نے کائنات کی فطری تصویر کو دھندلانا شروع کردیا ہے۔

اس ماند پڑتی تصویر کے ثبوت میں وہ لاتعداد جانور اور پرندے پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں سے بیشتر انسان کے ہاتھوں معدوم ہوکر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس حوالے سے عوام الناس میں شعور پیدا کیا جائے اور احساس دلایا جائے کہ رب کائنات کی جانب سے تخلیق کردہ یہ جان دار ہمارے کرۂ ارض کی متنوع خوبیوں کا انمول حصہ ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں انہیں محض تصاویر، ڈرائنگ، اسکیچز یا خوابوں ہی میں دیکھ سکیں۔ زیرنظر تحریر میں ایسے ہی دس اہم جان داروں کے بارے میں مختصر تفصیلات پیش کی گئی ہیں جن کی رونقیں ماضی کا قصہ بنتی جارہی ہیں۔

٭آئیوری بلڈ وڈ پیکر(Ivory-Billed Woodpecker)



معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں میں سرفہرست ''آئیوری بلڈ وڈ پیکر'' ہے۔ یہ خوب صورت پرندہ امریکا کے انتہائی جنوب مشرقی جنگلات میں جھیلوں سے متصل درختوں پر پایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہی پرندہ کیوبا کے سرسبز جنگلات میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ بیس انچ طوالت کے حامل آئیوری بلڈ وڈ پیکر کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اسے آخری مرتبہ سن دو ہزار چار میں دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد بہت کوشش کے باوجود اس پرندے کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ یاد رہے کہ چمک دار سیاہ اور سفید پروں پر مشتمل اس پرندے کی موجودگی کے بارے میں سن دو ہزار چھے میں بعض تنظیموں کی جانب سے اطلاع دینے والے کو دس ہزار ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جب کہ دو ہزار آٹھ میں یہ رقم بڑھا کر پچاس ہزار ڈالر کردی گئی۔ تاہم پرندے کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مردہ درختوں کے تنوں میں سوراخ کرکے کیڑے مکوڑے کھانے والے آئیوری بلڈوڈپیکر ہمیشہ جوڑے کی شکل میں گھونسلہ بنا کر رہتے تھے۔ یہ درخت ابھی بھی اپنے مہمانوں کے منتظر ہیں کہ شاید گھنے جنگلوں کے سیاہ دامن میں آئیوری بلڈ وڈپیکر کا کوئی جوڑا ایک مرتبہ بھر اپنی نسل کی موجودگی کی نوید دے۔

٭ایمو رتیندوا (لیپرڈ) (Amur Leopard)



مشرقی روس کے علاقے پریمور اور چین کے صوبے جی لین کے شمال مشرق میں واقع برفانی پہاڑی جنگلات میں پایا جانے والا ایمور تیندوا یا چیتا تیزی سے معدوم ہوتا جارہا ہے۔ بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اس تیندوے کے بارے میں بین الااقوامی تنظیم برائے تحفظ قدرتی حیات اور قدرتی وسائل (ICUN) کے ماہرین میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کے اعدادوشمار کے مطابق دوہزار سات میں ایمور تیندووں کی تعداد چودہ سے بیس تک تھی۔ تاہم حالیہ اعدادوشمار کے مطابق یہ تعداد ستر تک جاپہنچی ہے، لیکن اس میں سے نصف تعداد قدرتی ماحول کے بجائے چڑیا گھروں میں بنائے گئے مصنوعی جنگلی ماحول کی مرہون منت ہے۔ ایمورچیتے کی سیاہ دھبوں پر مشتمل زردی مائل روئیں دار جاذب نظر کھال اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ طبقہ امراء میں ایمور کی کھال سے بنائے گئے ملبوسات زیب تن کرنا امارت کی نشانی سمجھی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایمورتیندوے کا بے دردی سے شکار کیا گیا۔ ایمور تیندوں کی نسل کی واحد نوع ہے جو بہ آسانی سرد برفانی ماحول میں زندگی گزار نے پر قادر ہے، لیکن بدقسمتی سے ایمور کے برفانی مسکن اس کی دھاڑ سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

٭جاوین گینڈے (Javan Rhinoceros)



بہ ظاہر سخت جان نظر آنے والے جانے نسل کے گینڈے اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کے ''اجن کلنگ نیشنل پارک'' میں پائے جانے والے اس نسل کے گینڈوں کی تعداد محض چالیس رہ گئی ہے۔ مختصر قامت والے یہ گینڈے ہندوستانی نسل کے گینڈوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا قد ہندوستانی گینڈوں سے کم ہوتا ہے۔ جاوین نسل کے گینڈوں کی خطرناک حد تک کم ہوتی تعداد کی وجہ ان کے سینگ ہیں جنہیں روایتی چینی ادویات میں سفوف بناکر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان گینڈوں کا بے دریغ شکار کیا گیا۔ واضح رہے کہ یوں تو گینڈوں کی تمام پانچوں اقسام ہی معدومیت کا شکار ہیں، لیکن اعدادوشمار کی بنیاد پر ماہرین کا کہنا ہے کہ جاوین گینڈے عنقریب ناپید ہوجائیں گے، کیوں کہ یہ گینڈے چڑیا گھر یا مصنوعی جنگلی ماحول میں پنپنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب موجودہ جدید دنیا قدیم دنیا سے تعلق رکھنے والے اس جانور کا تذکرہ صرف کتابوں ہی میں پڑھ سکے گی۔

٭شمالی لیمور (Northern Sportive Lemur)



بڑی بڑی زرد آنکھوں اور لمبی دم والا جانور لیمور بندروں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے انتہائی چاق وچوبند اور غضب کی پھرتی کا حامل یہ جانور تیزی سے اپنے آبائی مسکن سے غائب ہوتا جارہاہے واضح رہے لیمور نسل کے بندر بحرہند میں واقع جزیرے پر مشتمل ملک مڈغاسکر میں پائے جاتے ہیں، جہاں ان کا مسکن جزیرے کے شمالی جنگلات میں ''دریائے لاکی'' کے ساتھ ایک پہاڑی پر تھا۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی تعداد بیس سے بھی کم رہ گئی ہے۔ محض دو پونڈ کا وزن رکھنے والا یہ جانور اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے باعث رات کو شکار کرتا ہے اور دن میں سوتا ہے، لیکن دن میں سونے کے باعث لیمور آسانی سے دوسرے جانوروں اور انسانوں کا شکار بن جاتا ہے درختوں کی شاخوں پر بجلی کی مانند دوڑتے رہنے والے لیمور کی کم ہوتی تعداد کی ایک اہم وجہ اس کے مختلف جسمانی اعضاء کو روایتی ادویات کی تیاری میں استعمال کرنا بھی ہے۔

٭مغربی گوریلا (Western Lowland Gorilla)



''مغربی لو لینڈ گوریلا'' مغربی افریقی نسل کی گوریلوں کی دو اہم نسلوں میں سے تعلق رکھنے والی ایک نسل ہے، جو تیزی سے معدومیت کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ گوریلوں کی نسل کا یہ گروہ اس وقت بہت معمولی تعداد میں کرۂ ارض پر موجود ہے۔ واضح رہے کہ لولینڈ گوریلے دیگر نسل کے گوریلوں کی نسبت بہت زیادہ ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ انیس سو ستر کی دہائی میں اس نسل سے تعلق رکھنے والا ایک گوریلا جس کا نام ''کوکو'' تھا تقریباً ایک ہزار علامتوں کو سمجھ سکتا تھا اور ان علامتوں کی مدد سے اپنا مدعا بھی بیان کرنے پر قادر تھا۔ ماہرین کے مطابق ''لولینڈ گوریلا'' کے معدوم ہونے کی سب سے اہم وجہ ان کے گوشت کا مغربی افریقہ میں رغبت سے کھایا جانا ہے، جب کہ ایبولا وائرس بھی لولینڈ گوریلوں کی اموات کی اہم وجہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں جو گوریلے موجود ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق مغربی افریقی نسل کے گوریلوں ہی سے ہے۔ تاہم ان کی نسل کی ایک شاخ ''مغربی لولینڈ گوریلے'' معدومیت کی کیفیت سے دوچار ہوچکے ہیں۔

٭ساؤلہ (The Saola-An Asian Unicorn)



گائے، بکری اور ہرن کی نسل سے تعلق رکھنے والا ''ساؤلہ'' نسل کا جانور ویتنام کے مغرب اور لاؤس کے پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس جانور کو سب سے پہلے انیس سو بانوے میں دیکھا گیا تھا۔ تاہم لگ بھگ تین فٹ کی قامت والے اس جانور کی تعداد اب نہایت قلیل ہوچکی ہے اور گذشتہ پندرہ برسوں سے اس علاقے میں ایک بھی ساؤلہ نہیں دیکھا گیا ہے۔ بھوری جلد پر مشتمل اس جانور کے چہرے پر سفید دھبے ہوتے ہیں، جب کہ سر پر نہایت سخت ، نوکیلے اور سیدھے سینگ ہوتے ہیں اور یہی سینگ ساؤلہ کی کم ہوتی تعداد کی وجہ بن چکے ہیں، کیوں کہ جانوروں کے اجسام سے آرائش کے شوقین حضرات شکار کے بعد ساؤلہ کے سر کو حنوط کرکے اس میں بُھس بھر کر اپنے گھروں کی دیواروں پر آرائش کے لیے سجاتے ہیں اور اس طرح اپنی شکارانہ جبلت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساؤلہ کی محدود ہوتی تعداد کی ایک وجہ چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی روایتی ادویات میں ساؤلہ کی ہڈیوں کے سفوف کا استعمال ہے اور رہی سہی کسر اس خطے میں تیزی سے گھٹتے ہوئے جنگلات اور خشک سالی نے پوری کردی ہے۔

٭چمڑے کی جلد والا سمندری کچھوا(The Leatherback Sea Turtle)



جسامت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کچھوے کی یہ نسل دنیا بھر کے سمندروں میں پائی جاتی تھی جو اب سمٹ کر محدود ہوگئی ہے۔ سخت پشت والی اس نسل کی مادہ ریتیلے ساحلوں پر انڈے دینے کے لیے دنیا بھر کے سمندروں میں سفر کرنے کے لیے بھی منفرد شہرت رکھتی ہے۔ بین الااقوامی تنظیم برائے تحفظ قدرتی حیات اور قدرتی وسائل (ICUN)کے اعدادوشمار کے مطابق انیس سو بیاسی میں ان کچھوؤں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔ تاہم اب یہ گھٹ کر محض بیس ہزار رہ گئی ہے، جو ایک تشویش ناک امر ہے۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ کم ہوتی اس تعداد کی سب سے اہم وجہ انسان ہیں جو ساحلوں پر سے ان کے انڈے اٹھا کر فروخت کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمی حالات میں تغیر بھی انڈوں سے بچے نکلنے میں اہم رکاوٹ بن گیا ہے۔ مزیدبراں ساحلوں پر پھیلی ہوئی آلودگی بھی صحت مند کچھوؤں کی موت کا سبب بن رہی ہے۔ بالخصوص ساحلوں پر پلاسٹک کی تھیلیوں کی موجودگی اس معدومیت کی ایک وجہ ہے، کیوں کہ کچھوے ان تھیلیوں کو جیلی فش سمجھ کر اپنی خوراک بنالیتے ہیں اور موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

٭چیتا (Tiger)

بین الااقوامی تنظیم برائے تحفظ قدرتی حیات اور قدرتی وسائل (ICUN) کے مطابق خوںخواری کی علامت چیتے کی چار نسلیں کیسپین، جاوین، بالینیس اور جنوبی چینی نسل تو دنیا سے ختم ہی ہو چکی ہے، جب کہ باقی ماندہ پانچ نسلیں، جن میں سائبرین ٹائیگر، بنگال ٹائیگر، انڈونیشین ٹائیگر، ملائیشین ٹائیگر اور سماٹرین ٹائیگر شامل ہیں خطرناک حد تک معدومیت کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ماضی میں براعظم ایشیا کے مختلف جنگلوں میں کثیر تعداد میں پائی جانے والی یہ نسلیں درختوں کی کٹائی اور غیرقانونی شکار کے باعث محض تین ہزار تک محدود ہوگئی ہیں۔ واضح رہے کہ چین اور ویتنام میں چیتے کے جسم کے مختلف اعضا روایتی دواؤں کے بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق مکمل بالغ چیتا پچاس ہزار ڈالر تک فروخت کیا جاتا ہے، جب کہ شیرخوار چیتا بیس ہزار ڈالر میں فروخت ہوتا ہے، جو کہ چین اور ویتنام جیسے ملکوں میں بہت بڑی رقم سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان خطوں سے چیتوں کی نسل تقریباً ناپید ہوتی جارہی ہے اور شاید ہماری آنے والی نسلیں اپنے خطے کے اس خوب صورت جانور کو تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھیں۔

٭چائینز جائنٹ سالمندر( Chinese Giant Salamander)



وسطی، جنوب مغربی او ر شمالی چین کے بارانی چٹانی جنگلات کی پہاڑیوں پر پایا جانے والا جائنٹ سالمندر چھے فٹ تک طویل ہوتا ہے۔ یہ جانور بہ یک وقت خشکی اور تری میں رہنے والے جان داروں کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے جان داروں کو ''جل تھلیہ'' کہا جاتا ہے۔ چائینز جائنٹ سالمندر کے حوالے سے ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ بعض مواقع پر یہ بالکل انسانی بچوں کی طرح آواز نکال کر چیختے ہیں اور سننے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دور سے کوئی بچہ چیخ کر اسے آواز دے رہا ہے۔ چائنیز جائنٹ سالمندر کی مادہ زیرآب بہ یک وقت پانچ سو انڈے دیتی ہے، جن میں سے سورج کی گرمی سے بچے نکل آتے ہیں۔ تاہم مقامی باشندوں کی جانب سے سالمندر اور اس کے انڈوں کو خوراک کا حصہ بنانے، موسمی حالات میں تبدیلیاں، جنگلات کی کٹائی اور روایتی چینی ادویات میں شامل کرنے کے باعث سالمندر کی چائنیز جائنٹ نسل تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔

٭لٹل ڈوڈو برڈ (The Little Dodo Bird)



چار سو سال قبل چار فٹ کی قامت والا بھاری بھرکم ' ڈوڈو'' نسل کا پرندہ پایا جاتا تھا، جو اب معدوم ہوچکا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی نسل سے تعلق رکھنے والا ''لٹل برڈ ڈوڈو'' محض ایک فٹ کی جسامت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے اسے ''لٹل ڈوڈوبرڈ'' کہا جاتا ہے۔ بحرالکاہل کے جنوب میں واقع آزاد جزیرے سامووا کے جنگلات میں پایا جانے والا یہ پرندہ سلطنت سامووا کا قومی پرندہ بھی ہے۔ بدقسمتی سے شکار اور جنگلات کی کمی کے باعث لٹل ڈوڈو برڈ اپنے کزن '' ڈوڈو'' کی مانند معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ بنیادی طور پر کبوتروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اس پرندے کی نسل کشی کی بنیادی وجہ جزیرے پر بڑی تعداد میں آنے والے سمندری طوفان ہیں جن کی تیز ہوائیں پرندوں کے گھونسلوں کو تباہ و برباد کردیتی ہیں، جس کے باعث گھونسلوں میں رکھے ہوئے انڈے ٹوٹ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ماہرین کو گذشتہ چار سال سے اس خطے میں لٹل ڈوڈوبرڈ کا کوئی بچہ نہیں ملا اور خیال کیا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں آنے والے سائیکلون اس پرندے کی مکمل نسل کشی کا باعث بن جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں