سوپٹ کا شہزادہ
ایک نوجوان میرے سامنے بیٹھا ہے،مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند سال قبل بھی اسے کہیں دیکھا تھا
KARACHI:
ایک نوجوان میرے سامنے بیٹھا ہے،مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند سال قبل بھی اسے کہیں دیکھا تھا،گھنگریالے بال ،آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک، پہلے مجھے یہ مزدور لگا پھر ایک دیہاتی دکھائی دیا ۔نوجوان سے ابتدائی گفتگو حال احوال جاننے سے متعلق ہو رہی تھی، میں بظاہر اس سے بات چیت میں مصروف لیکن ماضی کے دریچوں میں اس کا تعارف تلاش کرنے میں محو تھا۔
مجھے لگا نوجوان میری پریشانی بھانپ گیا ہے خود ہی گویا ہوا، میرا نام عبدالستار خان ہے اور میں رکن صوبائی اسمبلی ہوں۔میں نے مزدوری بھی کی ہے اپنے ہاتھوں سے کئی سو میٹر بلند پہاڑ کاٹتا رہا ہوںتاکہ اس میں چھپا قیمتی پتھر تلاش کر سکوںکہ یہی میرے خاندان اور قوم کا ذریعہ معاش تھا۔شاید وہ میرے ذہن میں گردش کرنے والے سوالات اچک لے گیا تھا ۔میں چونکا اور پھر بے اختیار اسے گلے لگا لیاکہ آٹھ سال پہلے والا عبدالستار خان پہلے والی مسکراہٹ کے ساتھ کسی حد تک سنجیدہ ہو گیا تھا وہی مسکراہٹ جو میں نے 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ اسمبلی ہال میں داخل ہوتے اس کے چہرے پر دیکھی تھی۔
اس نے کمال کر دیا تھا عام انتخابات میں اس کا مقابلہ اپنے سے کہیں طاقتورآزاد امیدوار احمد شاہ سے تھا ۔صوبائی اسمبلی کے اس حلقے سے مزید دس امیدوار بھی مقابلے میں تھے ۔اسے قطعی یقین نہ تھا کہ وہ ضلع کوہستان کے غریب، پس ماندہ مگر محب وطن کوہستانیوں کا صوبائی اسمبلی میں نمایندہ منتخب ہو جائے گا ،جب نتیجہ آیا تو عبدالستارخان 6 ہزار182 ووٹ لے کر جیت گیاتھا اس جیت نے عبدالستار کو بدل کر رکھ دیا اس نے کوہستان کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کا عزم لے کر پہلی بار صوبائی دارالحکومت میں قدم رکھا ۔پانچ سال تک اس نے دن رات کی پرواکیے بغیر اپنے حلقے کے عوام کے لیے کام کیا اور بدلے میں عوام نے بھی اسے مایوس نہیں کیا بلکہ 2013 ء کے عام انتخابات میں اس سمیت32 امیدوار مقابلے میں تھے مگر وہ 2 ہزار244 ووٹ لے کر دوسری مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گیا۔
اس کی کامیابی کی کہانی بڑی دل چسپ اور ایوانوں میں عوام کی نمایندگی کرنے والوں کے لیے ایک سبق سے کم نہیں۔عبدالستار خان کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک دن وہ صوبائی اسمبلی کا رکن بن کر اپنی جنت نظیر وادی کوہستان کا مقدمہ اسمبلی میں پیش کرے گا۔پھر وہ دن بھی آ ہی گیا جب دبلا پتلا عبدالستار خان اسمبلی فلور پر اس قدر خوب صورتی سے بولا کہ شاید پہلی بار اراکین اسمبلی کو پتہ چلا کہ ان کے صوبے کا ضلع کوہستان بھی جنت بے نظیر ہے ۔
رفتہ رفتہ اس نوجوان نے حکومتی سرپرستی کے بغیر ہی اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنے کی ٹھانی اور سب سے پہلے کوہستان کے بارے میں معلومات فراہم کیں کہ یہ ضلع 7 ہزار492 مربع کلومیٹر پر محیط ہے ،گویا صوبائی دارالحکومت پشاور جیسے سات شہر اس ضلع میں آباد ہو سکتے ہیں(پشاور کا کل رقبہ ایک ہزار257 مربع کلومیٹر ہے) اس کی آبادی لگ بھگ پانچ لاکھ ہے،یہ کشمیر اور گلگت بلتستان سے ملتا ہے،اس کے شمال میں سوات اور شانگلہ جب کہ مغرب میں مانسہرہ اور بٹ گرام کے اضلاع ہیں،داسو، کاندیا ،پٹن، اور پالاس کوہستان کے شہر ہیں۔عبدالستار خان کی تقریر کے بعد یہ بھی پتہ چلا کہ کوہستان کوہ ہندوکش ، قراقرم اور ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ساتھ واقع ہے۔
عبدالستار خان نے کوہستان میں کئی ہزار فٹ کی بلندی پر واقع جھیلوں کو اپنی فیس بک کے ذریعے متعارف کرایا ،سونے پہ سہاگہ یہ کہ کوہستان کی سوپٹ وادی میں ایک ایسا پھول نکلا جو دنیا میں بہت کم پایا جاتا ہے اور اسے سوئٹزرلینڈ کا قومی پھول بھی قرار دیا گیا ہے۔ ایڈل وائس پھول کی موجودگی نے اس وادی کو دنیا بھر میں ایک اور انفردایت سے نوازا۔یہ پھول یورپ کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔اس پھول کے رنگ بھی انتہائی دیدہ زیب ہیں اور کہاجاتا ہے کہ بھوک لگی ہو تو پھول کی پتیاں کھانے سے بھوک ختم ہو جاتی ہے۔
یہیں بس نہیں بلکہ رکن اسمبلی ہوتے ہوئے اس نوجوان نے ناران کے ٹھنڈے پانیوں سے ٹراؤٹ مچھلیاں پکڑیں انھیں اپنے کاندھے پر لاد کر سوپٹ پہنچایا ،کئی کلومیٹر پیدل فاصلہ طے کیا، کئی مچھلیاں مر گئیں جو بچ گئیں انھیں سوپٹ جھیل میں چھوڑ دیا یہ جھیل اپنے حسن میں کوئی ثانی نہیں رکھتی، اسے دیکھنے والے جھیل کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ان مچھلیوں کو ستار بے بیز کہا جاتا ہے، سارے کوہستان میں ٹراؤٹ مچھلیاں جو عبدالستار خان نے جھیلوں میں چھوڑیں ستار بے بیز کے نام سے مشہور ہیں۔
اس حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا کہ ایک برفانی ریچھ مچھلیاں کھانے سوپٹ جھیل میں اتر گیا اسے معلوم نہ تھا کہ یہاں کے رہنے والے ان مچھلیوں کا شکار نہیں بلکہ ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں جب مقامی لوگون کو پتہ چلا تو انھوں نے اس برفانی ریچھ کو مار دیا کیوںکہ وہ ستار بے بیز کو زندہ رکھنا اور ان کی نسل بڑھانے میں دل چسپی رکھتے تھے تب سے کسی نے ٹراؤٹ مچھلیوں کا شکار کرنے کا سوچا نہیں۔اس ضلع کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اگر حکومت پاکستان سارے ملک کے سارے ڈیموں کو چھوڑ دے اور صرف ضلع کوہستان میں ڈیموں پر توجہ دے تو سالانہ24 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو صرف خیبر پختون خوا نہیں بلکہ سارے ملک کی ضرورت پورا کر سکتی ہے۔
اس ضلع کو واٹر وژن کے طور پر متعارف کروانے میں بھی اس نوجوان نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اور کسی کے بلانے کی بجائے خود ہی سارے ملک میں عبدالستار خان نے یہ پیغام دیا کہ یہ ضلع پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے انتہائی موزوں ہے، یہاں داسو ڈیم، بھاشا ڈیم، پٹن ڈیم،تنگیا پاور پراجیکٹ، کیال پاور پراجیکٹ، لوئر سوپٹ ،لوئر پالس ، دبیر پاور پراجیکٹ سمیت کئی ڈیم بن سکتے ہیں کیوں کہ قدرت نے بہتے پانی کے ساتھ پیالے نما پہاڑوں کے بیچ قدرتی ڈیم بنا دیے ہیں، صرف حکومت کی توجہ درکار ہے،ایک اور اہم انکشاف اب عبدالستار خان نے کیا ہے ،وہ سوپٹ میں دو سو کلومیٹر کا ہموار علاقہ ہے جو سیاحت کے لیے قابل رشک ہے اتنا زیادہ رقبہ پہاڑوں کے دامن میں دریافت ہونا وطن عزیز میں سیاحت کے فروغ کا باعث بنے گا اور اگر یہاں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شروع ہوتے ہیں تو یہ خطہ بین الاقوامی سیاحوں کو بھی یہاں کھینچ لائے گا۔
ایسی صورت میں مناسب منصوبہ بندی کر کے مقامی معیشت کے استحکام کے لیے خاصا کام کیا جا سکتا ہے۔عبدالستار خان کی ایک تقریر مجھے آج بھی یاد ہے جب انھوں نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ان کی بیمار خواتین، بچے، بوڑھے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں،دور دراز اور بلند و بالا پہاڑی علاقوں میں سڑکیں نہیں ہیں۔
کئی کئی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے ،حکومتی اداروں کے ملازمین ڈیوٹی پر حاضر ہی نہیں ہوتے، اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے،مقامی نوجوانوں کو نوکریاں نہیں ملتیں اور ایسی بہت سی شکایات بھی تھیں آج تقریباً دس برس ہونے کو ہیں،کوہستان کے حالات کسی حد تک ضرور بدلے ہیں مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جو سوپٹ کے شہزادے عبدالستار خان ہی نہیں بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمے داری ہے، اللہ کرے کہ کوہستان کی تقدیر بدل جائے اور یہ ضلع بجلی پیدا کر کے ملک کی تقدیر بدل دے۔