’’ہماری جان چھوڑو‘‘

ناروے کی حکومت پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے بھاری رقم دینے لگی


غ۔ع May 03, 2016
ناروے کی حکومت پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے بھاری رقم دینے لگی ۔ فوٹو : فائل

بیرون ملک رہائش اختیار کرنے کے خواہش مندوں کے لیے ناروے کئی اعتبار سے پسندیدہ ملک ہے۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک فلاحی مملکت ہے جہاں شہریوں کو تمام سہولتیں دستیاب ہیں۔ انسانی ترقی و خوش حالی کے لحاظ سے مرتب کردہ فہرست میں ناروے سب سے اوپر ہے۔

بہ الفاظ دیگر ناروے کے شہری دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باون لاکھ آبادی کے حامل ملک میں تارکین وطن کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں ساڑھے 6 لاکھ کے لگ بھگ تارکین وطن اور باقی ان کے بچے ہیں جو باقاعدہ ناروے کے شہری ہیں۔ شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد دیگر مغربی ممالک کی طرح ناروے میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ مگر اب ناروے کی حکومت نے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں اور پناہ گزینوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوگئی ہے۔ یہاں مستقل قیام کے خواہش مندوں سے جان چھڑانے کے لیے حکومت نے ایک اسکیم شروع کی ہے جس کے تحت رضاکارانہ طور پر ناروے کو خیرباد کہنے والوں کو اضافی 10000 کرونا بہ طور انعام دیے جائیں گے۔ نارویجن ڈائریکٹوریٹ آف امیگریشن کی جانب سے گذشتہ پیر کو اعلان کیا گیا ہے کہ رضاکارانہ طور پر اپنے آبائی ممالک کو لوٹنے والے پانچ سو پناہ گزینوں کو دس ہزار کرونا دیے جائیں گے۔

ناروے کی وزیربرائے مہاجرین سلوی لستھوگ کہتی ہیں کہ پناہ گزینوں کی آبائی وطن کو واپسی کا عمل تیز کرنے کے لیے انھیں اضافی رقم دینے کی اسکیم شروع کی گئی ہے۔ سلوی کے مطابق حکومت پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود رکھنا چاہتی ہے تاکہ معیشت پر غیرضروری دباؤ نہ پڑے۔ زاد راہ کے طور پر بھاری رقم دینے کے حوالے سے وزیر کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کے مستقل قیام کی صورت میں ان پر ہونے والے اخراجات اس رقم سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس لیے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ رقم دی جارہی ہے کہ وہ جلد اپنے آبائی وطن لوٹ جائیں۔

واضح رہے کہ پناہ گزینوں کو زاد راہ کی مد میں پہلے ہی انفرادی طور پر 20000 کرونا دیے جارہے ہیں۔ میاں، بیوی اور دو بچوں پر مشتمل پناہ گزین خاندان کو مجموعی طور پر 80000 کرونا دیے جاتے ہیں۔ امریکی ڈالر میں یہ رقم 9300 یعنی نو لاکھ پاکستانی روپے سے زائد بنتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں