اقوام متحدہ کا آیندہ سیکریٹری جنرل

سیکریٹری جنرل کا عہدہ جتنا بڑا اور اہم ہے اتنا ہی کٹھن اور آزمائش طلب بھی ہے۔


Shakeel Farooqi May 03, 2016
[email protected]

KARACHI: رواں سال اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس کے اختتام پر اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل بان کی مون کی دوسری مدت بھی ختم ہوجائے گی۔ جنرل اسمبلی آیندہ سیکریٹری جنرل کا تقررکرے گی، جس کے لیے اسے سلامتی کونسل کی سفارش درکار ہوگی۔ اقوام متحدہ کے منشورکے الفاظ میں سیکریٹری جنرل کو عالمی ادارے کا ''چیف ایڈمنسٹریٹر''کہا جاتا ہے، جس کے ذمے جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل اوراکنامک و سوشل کونسل کی جانب سے سونپے گئے دیگر فرائض بھی ہوتے ہیں۔

سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیکریٹری جنرل کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی معاملے کی جانب سلامتی کونسل کی فوری توجہ مبذول کراسکتا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی امن وسلامتی کے لیے کوئی خطرہ لاحق ہو۔ گزشتہ برسوں کا مشاہدہ یہی ہے کہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی شخصیت کی علامت ہوتا ہے، اس کا کردار، طرز عمل اور اس کا پیرایہ اظہار اقوام متحدہ کے امیج اوراس پرکیے جانے والے اعتماد کی براہ راست ترجمانی اور عکاسی کرتا ہے۔ سیکریٹری جنرل سے یہ توقع وابستہ ہوتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے منشورکے عظیم الشان اصولوں اور مقاصد کی پاسداری اور ممکنہ حد تک تحفظ کرے گا۔اس لحاظ سے اسے ''سیکولر پوپ'' کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔

سیکریٹری جنرل کا عہدہ جتنا بڑا اور اہم ہے اتنا ہی کٹھن اور آزمائش طلب بھی ہے۔ درحقیقت یہ پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے جس پر بیٹھنا جان جوکھوں کا کام ہے یہ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے کیوں کہ ہر آن بدلتی ہوئی دنیا میں حالات لمحہ بہ لمحہ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی نے اقوام متحدہ اور اس کے سیکریٹری جنرل کے کام کو مزید مشکلات سے دو چارکر رکھا ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کی ہولناکی، تباہی کا مزہ چکھنے کے باوجود یہ رسہ کشی کم ہونے کے بجائے نئی نئی صورتیں اختیار کرتے ہوئے مسلسل بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا نے دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے ابھرکر من مانی شروع کردی، جس سے طاقت کے عدم توازن کے بحران نے جنم لیا اور اور بہت سے نئے اور انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا کردیے۔افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی کچھ کم باعث تشویش نہیں ہے جب کہ ایران اور سعودی عرب کے باہمی کشمکش بھی انتہائی پریشانی کا سبب ہے ان حالات میں نئے سیکریٹری جنرل کا تقرر غیر معمولی اہمیت اختیارکرگیا ہے۔

اقوام متحدہ کے غیر مستقل ممبران کو عرصہ دراز سے یہ شکایت ہے کہ سیکریٹری جنرل کے تقرر میں انھیں زیادہ گھاس نہیں ڈالی جاتی اور انھیں عملاً نظر اندازکردیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ غیر رسمی صلاح و مشورے کے بعد سلامتی کونسل کسی ایک امیدوارکے نام پر متفق ہوجاتی ہے اور پھر اس کے تقررکی سفارش جنرل اسمبلی کو پیش کردی جاتی ہے جس کے پاس منظوری دینے کے علاوہ اورکوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ سلامتی کونسل کا یہ صلاح ومشورہ اس کے پانچوں ممبران کے مابین بندکمرے کے اجلاس میں کیا جاتا ہے۔ جس میں ہر ممبرکو امیدوار کو ویٹو کر دینے کا حق حاصل ہوتا ہے، پھر جس امیدوار پر اتفاق رائے ہوجاتا ہے اس کا تقرر عمل میں آجاتا ہے۔ 2006 میں ایشیائی ممالک نے باہمی اتفاق سے چاہا تھا کہ یہ عہدہ ان کے امیدوار کو حاصل ہوجائے، اصولی طور پر یہ بات سب نے تسلیم بھی کرلی تھی، لیکن امریکا اپنی ضد پر اڑگیا اور انھوں نے یہ بات نہیں مانی۔

قصہ یہ تھا کہ ایک ظہرانے کے موقعے پر امریکی سفیر جان بولٹن نے اپنے چینی ہم منصب سے دریافت کیا کہ چین کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے ایشیا کا کون سا امیدوار قابل قبول ہے۔ چینی سفیر نے جواب دیا کہ پانچوں ایشیائی ممالک میں سے چین کسی بھی ملک کے امیدوارکو قبول کرسکتا ہے۔اس پر بولٹن نے ترکی بہ ترکی یہ جواب دیا کہ امریکا بان کی مون کے علاوہ ہر امیدوارکو ویٹوکردے گا۔ اس طرح اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل بان کی مون امریکی آشیرواد سے منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔اگر وہ اپنے سرپرستوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو اس میں حیرت یا پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ انسان جس کا کھائے گا اسی کی گائے گا۔فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ His Master's Voice اسی کو کہتے ہیں۔

بد قسمتی سے اقوام متحدہ کی بیشتر پالیسیاں مغربی ممالک کے مفادات کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا انسانی حقوق کا یا موسم کی تبدیلی کا ایشو ہو اقوام متحدہ کا جھکاؤ مغربی ممالک کی سوچ کی طرف ہی نظر آتا ہے اور ہمیشہ مغرب کا پلڑہ ہی بھاری دکھائی دیتا ہے۔ عرب اسرائیل تنازعہ اور مسلم ممالک میں بیرونی مداخلت کے معاملے میں یہی رویہ ہے۔ UNO میںUS کاYes اور باقی سب NO ہے۔ تمام امور میں امریکا یا پھر اس کے حواریوں کی ہی چلتی ہے۔ اقوام متحدہ کے بیشتر بڑے بڑے اداروں کی سربراہی بھی مغربی طاقتوں کے نمایندوں ہی کے قبضے میں ہے۔ ان حالات نے ''سیکولر پوپ'' کو ''اصلی پوپ'' بنادیا ہے یہ پوپ باتیں توکچلے ہوؤں کے حقوق کی کرتا ہے لیکن چلتا ہے طاقتوروں کے کہنے کے مطابق یعنی ''ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورکھانے کے اور۔''

ایک دیرینہ مطالبہ سیکریٹری جنرل کے عہدے کے معاملے میں شفافیت بھرتی جائے۔ چنانچہ طے یہ پایا ہے کہ اس سال اس عہدے کے امیدوارکا انٹرویو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہوگا، لیکن یہ محض دنیا کو دکھانے کی ایک چال ہے جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کی صورت میں بر آمد ہوگا۔ بلکہ سلامتی کونسل پھر وہی ایک مبہم تجویزکرے گی جسے رد کرنا جنرل اسمبلی کے بس سے باہر ہوگا۔

البتہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے انتخاب میں اس مرتبہ یہ تبدیلی ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ مشرقی یورپ والوں نے بھی اس عہدے کا دعویٰ کیا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے کئی امیدوار میدان میں اترآئے ہیں جن میں سلووینیا کے ایک سابق صدر اور بلغاریہ کی دو خواتین امیدوار بھی شامل ہیں۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی وجہ سے روس اپنا امیدوارکھڑا نہیں کرسکتا جب کہ بیلاروس اوریوکرین قابل قبول نہیں ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے بھی اس امیدوارکو پذیرائی حاصل ہوگی جو مغربی یورپ کے زیر اثر ہوگا۔

اب چونکہ مشرق بھی مغرب بن گیا ہے، اس وجہ سے بہت سے مغربی یورپ کے امیدوار بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں، جن میں سابق پرتگالی وزیراعظم بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم ہیلن کلارک بھی امیدواروں کی اس صف میں شامل ہیں۔ لاطینی امریکا میں بھی کئی لوگ اس دوڑ میں شامل ہونے کے پر تول رہے ہیں، جن میں ارجنٹینا کے نئے وزیرخارجہ ، چلی کے وزیر خارجہ حتیٰ کہ چلی کے موجودہ صدرکے نام بھی لیے جارہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں یہ سوچ بھی ابھر رہی ہے کہ اس مرتبہ سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے کسی خاتون کو منتخب کیا جائے تاکہ کوئی نمایاں تبدیلی رونما ہوسکے۔کاش ! ایسا ہوجائے مگر ایسا ہونے کے امکانات بہت روشن نہیں کہے جاسکتے،کیونکہ سارا کھیل اب بھی ان ہی پرانی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہے جو پتلی تماشے کی ماہر ہیں۔ بقول شاعر:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں