حضرات جنازہ تیار ہے

ایک عام آدمی گالم گلوچ تو دور غصے سے بھی بول لے اور کوئی صاحب بہادر سن لے تو ہتک عزت کا دعویٰ تو کہیں گیا ہی نہیں۔


شاہد کاظمی May 04, 2016
اخلاقی پستی ہی کیوں ہمارے رہنماؤں کا ہتھیار بن چکا ہے۔ عام آدمی کہے تو جرم، آپ کہیں تو سیاسی مہم، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

DI KHAN: اعلان سے ہرگز پریشان نہ ہوں، یا پھر شاید ہمیں پریشانی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہونا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی کا جنازہ دیکھ کر افسوس کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اعلان جنازہ کسی شخصیت کا نہیں بلکہ یہ اخلاقیات کے جنازے کا اعلان ہے جو آج کل پاکستان میں گلی محلوں میں اُٹھایا جارہا ہے۔ بغیر کسی شرم کے، بغیر کسی حیاء کے رہنمائے سیاست اس جنازے کو کندھا بھی دے رہے ہیں۔ آخر کیوں نہ کندھا دیں اخلاقیات کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

پاکستانی رہنماؤں، نہیں پاکستانی سیاستدانوں یا پھر جو بھی آپ کا من کرے پکار لیں۔ کیوںکہ میں خود الجھن کا شکار ہوگیا ہوں کہ ایسے لوگوں کو کیا کہہ کر پکاروں جو زبان تک کا مناسب استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ حواس باختہ اقتداریے؟ یہ شاید مناسب لفظ ہوگا۔ پاکستان میں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اقتدار کو دوام دینے کے لئے اخلاق کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں اور جو اقتدار سے باہر ہیں وہ اقتدار کا ہما اپنے سر پر بٹھانے کے لئے اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔

وسائل کے اعتبار سے امیر اور انتظامی امور کے حوالے سے غریب بلوچستان میں کبھی رئیسانی صاحب ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے'' کہتے تھے، تو شور مچ جاتا تھا۔ آج اسی صوبے کے وزیر اعلیٰ ببانگ دہل بیان داغتے ہیں کہ
''کتے بھونکتے رہتے ہیں قافلے گزر جاتے ہیں''،

تو کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔ آدمی کی جگہ انہوں نے قافلہ استعمال کیا کہ مباداً وزیراعظم اکیلے ہی نہ گزر جائیں۔



خان صاحب ملکی سیاست میں عجب غضب کی تبدیلی لائے ہیں۔ وہ جلسوں میں ایسے ایسے لفظ استعمال کرجاتے ہیں کہ ان کے سامعین بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
''خواجہ آصف کو چوہا کہتے ہوئے فرمایا، وہ چوں چوں کرتے ہیں۔ اخلاقی پستی میں انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ چوں چوں تو چوزے کرتے ہیں''۔



وزیراعظم نے بنوں میں خطاب کے دوران جب ''منہ اور مسور کی دال'' اور ''گیدڑ بھبھکیاں'' کے محاوروں کا بے تکا استعمال کیا تو وہ وزیراعظم سے زیادہ کسی یونین کونسل کے کونسلر محسوس ہوئے۔


بنوں میں ان بے محل محاوروں کا حق مولانا صاحب نے خوب ادا کیا کہ،
''چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیروں سے مقابلہ کرتے ہیں''۔



مولانا صاحب بنوں گفٹ کا شکریہ ادا کرنے میں زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ یاد رہے کہ آپ منتخب خیبر پختونخواہ سے ہوئے ہیں، پنجاب سے نہیں۔ اپنے طلال کا جلال ملاحظہ فرمائیں، کہتے ہیں کہ
''بلو رانی کب سے بلو عمرانی ہوگئی؟''۔



الاماں یہ بھی بھول گئے کہ ساتھ مریم اورنگزیب نام کی ایک خاتون بھی کھڑی ہیں۔ لیکن وہ بھولے نہیں تھے کیوں کہ یہ خاتون بھی تو سیاستدان ہی ہیں جو ایک پروگرام میں فرماتی ہیں کہ،
''جہانگیر ترین و علیم خان کو اے ٹی ایم کہہ دیا تو کیا برا کیا؟ ''۔

اپنے چھوٹے میاں کی راجدھانی کے ترجمان تو حد سے ہی گزر گئے۔ فرماتے ہیں،
''عمران خان رائے ونڈ آئے تو ٹانگیں توڑ دوں گا''۔

کوئی پوچھے حضور آپ ترجمان ہیں یا ''ڈانگ مار'' جو ٹانگیں توڑ دیں گے؟ اور اگر جوابی وار پڑگیا اور آپ کی ٹانگ پہ خراش بھی آگئی تو یقیناً یہ جمہوریت پر حملہ تصور ہوگا۔


اپنے زرداری صاحب تو عقل کے کائیاں آدمی نکلے، بے تکا بولے اور بے وطن ہوگئے کیوں کہ زیادہ ہی بول گئے۔ آکسفورڈ لہجے میں سندھ کی حکمران جماعت کے بابو صاب تو آدھی اردو آدھی انگلش میں پنجاب کی طرف انگلی کرکے ایسے غراتے ہیں کہ ''دامن اخلاقیات'' خود کہتا پھرتا ہے بھیا میں تار تار ہی بھلا۔

معاملات اس نہج تک آگئے ہیں اور ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات جناب محترم پرویز رشید کی معصومیت پر غور تو کیجیے کہ ان کو اب بھی اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اگر انہوں نے یہ بتادیا کہ عمران خان کا سسرال انگلستان میں کس علاقے میں رہتا ہے تو اُن کا 'وضو' ہی ٹوٹ جائے گا۔

ایک عام آدمی گالم گلوچ تو دور غصے سے بھی بول لے اور کوئی صاحب بہادر سن لے تو ہتک عزت کا دعویٰ تو کہیں گیا ہی نہیں۔ کوئی کسی کام چور کو تو چار صلواتیں سنا دے تو میڈیا کی زینت بن کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک معاملات جا پہنچتے ہیں۔ وزیر مشیر دلاسے دینے پہنچتے ہیں کہ اخلاق سے عاری اس حرکت کا ازالہ کیا جائے گا۔ ہم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ دلائل سے مقابلہ کرسکیں، اخلاقی پستی ہی کیوں ہمارے رہنماؤں کا ہتھیار بن چکا ہے۔ عام آدمی کہے تو جرم، آپ کہیں تو سیاسی مہم، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

[poll id="1097"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں