کشمیر تیرا ایک دبنگ بیٹا نہ رہا

آزادیٔ کشمیر کے صفحۂ اول کے رہنما امان اللہ خان گزشتہ منگل کو انتقال کر گئے


عثمان دموہی May 05, 2016
[email protected]

CARACAS: آزادیٔ کشمیر کے صفحۂ اول کے رہنما امان اللہ خان گزشتہ منگل کو انتقال کر گئے۔ آپ کی وفات کشمیریوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام حریت پسند عوام کے لیے ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف سمیت تمام پاکستانی رہنماؤں نے گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے تمام حریت پسند رہنماؤں نے آپ کی وفات کو کشمیریوں کی آزادی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب کشمیریوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ آزادی کی تحریک کو مزید مؤثر بنائیں گے۔

امان اللہ خان کشمیریوں کے ایک دبنگ اور سچے رہنما تھے جن کی پوری زندگی کشمیریوں کی آزادی کے لیے وقف تھی۔ انھیں اس راہ میں بڑی مشکلات اٹھانا پڑیں۔ پاکستان کے علاوہ دیار غیر میں بھی قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ عام کشمیری رہنماؤں کے مقابلے میں آپ کے نظریات گو کہ کچھ مختلف تھے مگر آپ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک مخلص اور فعال رہنما تھے۔

آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی ایک آزاد خودمختار ملک کی حیثیت ہونا چاہیے۔ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ اور نہ ہی بھارت کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔ لیکن پاکستان کے لیے ان کا یہ نظریہ قابل قبول نہیں تھا کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا ہے البتہ پاکستان کا ان سے کشمیر کو آزاد کرانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ضرور اتفاق تھا۔

آپ نے اپنی طالب علم کے زمانے میں ہی مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا تھا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے آپ کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جانے لگے اس وقت تک آپ سری نگر میں میٹرک پاس کر چکے تھے چنانچہ آپ مزید تعلیم کے لیے 1952ء میں پاکستان آ گئے۔ یہاں آپ کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا چنانچہ چھ ماہ تک کراچی کی فٹ پاتھوں پر سوتے رہے تاہم اس کسمپرسی کی حالت میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی کے ایس ایم کالج سے بی اے پاس کر کے لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔

طالب علمی کے دوران بھی ایک رسالہ وائس آف کشمیر جاری کیا۔ معاشی حالات کے سدھرنے کے ساتھ ہی آپ نے غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے غریب علاقوں میں دو اسکول قائم کیے۔ جب آپ کی مالی حالت بہتر ہو گئی تو آپ نے اس رقم کو آزادیٔ کشمیر پر صرف کرنا شروع کر دیا۔ آپ نے 1963ء میں آزاد کشمیر اسٹیٹ کونسل کے رکن جی ایم لون کی مدد سے کشمیر انڈی پینڈنس کمیٹی تشکیل دی۔

1965ء میں نامورکشمیری لیڈر مقبول بٹ کے ساتھ مل کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد ڈالی۔ آپ دونوں رہنما 1965ء میں ہی مقبوضہ کشمیر گئے اور وہاں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ کشمیریوں نے آپ دونوں رہنماؤں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تحریک آزادی کو مزید تیزکر کے بھارتی قابض فوجیوں پر حملے شروع کر دیے۔ بھارتی حکومت خوف زدہ ہو گئی، چنانچہ آپ دونوں کو گرفتارکرنے کے لیے چھاپے مارے جانے لگے بالآخر مقبول بٹ کوگرفتار کر کے دہلی کی تہاڑ جیل منتقل کر دیا گیا مگر وہ جیل سے فرار ہو کر پاکستان پہنچ گئے بدقسمتی سے حکومت نے آزادی کشمیر کے اس اہم ستون کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔

مقبول بٹ پھر دوبارہ تحریک آزادی کو منظم کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر گئے مگر وہاں گرفتار ہو گئے اور بعد میں اس وقت تختہ دار پر چڑھا دیے گئے جب لندن میں امان اللہ خان کے مبینہ اشارے پر ان کے ساتھیوں نے یرغمال بنائے گئے بھارتی سفارت کار کو ہلاک کر دیا۔ امان اللہ خان نے برطانیہ کا یہ دورہ وہاں کی پارلیمنٹ کے ممبران کو مسئلہ کشمیر سے روشناس کرانے کی غرض سے کیا تھا۔ بھارتی سفارت کار کے قتل کے بعد آپ کو قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران آپ کے سر میں کینسر زدہ رسولی کا انکشاف ہوا جسپر آپریشن کیا گیا جو کامیاب رہا اور آپ تندرست ہو گئے۔

اس کے ساتھ ہی آپ کو رہا کر دیا گیا۔ 1993ء میں یورپی یونین پارلیمنٹ کی کشمیرکمیٹی کی جانب سے آپ کو کشمیری رہنماؤں کی ایک گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے برسلز مدعو کیا گیا۔ اس کانفرنس میں بھارت سے فاروق عبداللہ نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے منعقد کرانے میں امان اللہ خان کا بھی اہم کردار تھا۔ بھارت اس کانفرنس کے انعقاد کے سخت خلاف تھا، وہ امان اللہ خان کو گرفتار کر کے اس کانفرنس کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے آپ کوگرفتار کرانے کے لیے انٹرپول سے ریڈ وارنٹ جاری کرائے تھے۔

آپ کو گرفتار تو کر لیا گیا مگر بھارت کی انھیں اس کے حوالے کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اس وقت کی جنرل ضیا الحق کی حکومت نے بلجیئم کی حکومت کو امان اللہ خان کے ایک پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے انھیں بھارت کے حوالے کرنے سے باز رکھا۔ آپ نے نیویارک میں اقوام متحدہ میں منعقدہ سربراہی اجلاسوں کے دوران مین بلڈنگ کے سامنے کشمیریوں کی آزادی کے سلسلے میں کئی مرتبہ بڑے مظاہرے کرائے۔ آپ نے وہاں متعدد پریس کانفرنسیں کر کے بھارت کے جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کے لیے رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کی۔ آپ کو پاکستان کے علاوہ دیار غیر میں بھی پابند سلاسل کیا گیا۔ آپ برطانیہ میں 16 ماہ برسلز میں ڈھائی ماہ اور اقوام متحدہ کے لاک اپ میں ایک دن حراست میں رہے۔ 1989ء میں مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی تاریخی مسلح جدوجہد کو شروع کرانے میں بھی آپ کا اہم کردار تھا۔

یہ تحریک ایک طوفان کی شکل اختیار کر گئی تھی، پورا مقبوضہ کشمیر اس کی زد میں تھا۔ اس میں ہزاروں بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت اس قدر بوکھلا گئی تھی کہ امریکا اور یورپی ممالک کی مدد سے پاکستان پر دباؤ ڈلوا کر اس کی حدت میں کمی کروائی گئی۔ اگر اس وقت امریکا اور یورپی ممالک بھارت کی مدد نہ کرتے توکشمیری یقینا آزادی حاصل کر لیتے تاہم بھارت نے مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کی شرط پر کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو تسلیم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر افسوس کہ یہ کشمیریوں کے ساتھ دھوکا تھا۔ امان اللہ خان کو اس سے سخت تکلیف پہنچی تھی مگر وہ ہمت ہارنے والے انسان نہیں تھے۔ آپ نے تین مرتبہ 1991ء اور 1992ء میں لائن آف کنٹرول کو عبورکرنے کی جرأت مندانہ کوشش کی مگر آپ اور آپ کے ساتھیوں کو تینوں مرتبہ حکومت پاکستان نے ایل او سی عبورکرنے سے قبل ہی حراست میں لے لیا تھا۔

آپ نے آزادیٔ کشمیر پر تین کتابیں تصنیف کی تھیں۔ یہ کتابیں پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی فروخت ہوئیں اور لوگوں نے انھیں بہت پسند کیا۔ ان کتابوں میں ''جہد مسلسل'' نامی کتاب بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آپ نے آزادی کے موضوع پر سیکڑوں کتابچے بھی تصنیف کیے تھے۔ آپ مقبوضہ، آزاد اور چینی کشمیر کو ملا کر ایک علیحدہ ملک بنانے کے حامی تھے چونکہ آپ کا یہ نظریہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے اور کشمیری بہر صورت پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں چنانچہ ان کے نظریے کو کشمیریوں کے نزدیک پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ تاہم آزادی کے لیے آپ کی دلیرانہ اور سنجیدہ خدمات کی وجہ سے آپ ہمیشہ کشمیریوں میں مقبول رہے اور اسی وجہ سے اب وفات کے بعد آپ ہمیشہ کشمیریوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں