بدلتی رتوں کے سفیر ’’ مہاجر پرندے‘‘

ہر سال 4.5 ارب پرندے یورپ ، ایشیا اور افریقہ کے درمیان دوطرفہ سفر کرتے ہیں


مساکن کی تنزلی کے باعث دنیا بھر میں مہاجر پرندوں کی نسلوں میں 40 فیصد کمی ۔ فوٹو : فائل

''ہجرت'' انسان اور چرند و پرند کی وہ مشترکہ قدر ہے جس کے محرکات دونوں میں تقریبًا یکساں ہیں۔ جان کی حفاظت اور خوراک کے حصول جیسی بنیادی وجوہات ہی انسان اور جانوروں کو نقل مکانی کرواتی ہیں۔ انسان اپنی مرضی سے اپنی ہجرتی منزل کا انتخاب کرتا ہے جبکہ جانوروں خصوصاً پرندوں کی ہجرت میں منزل کے انتخاب اور راستے کے تعین میں قدرت اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔

ہزاروںسال سے پرندوں کی یہ ہجرت قدرت کے ایک نفیس اور اعلیٰ حکمت عملی کی غماز ہے جس کے تحت قدرتی نظام کو متوازن رکھنے کے لئے کہیں کے پرندے بدلتی رُتوں کے ساتھ ساتھ کہیں سے کہیں پہنچتے ہیں اور اپنے مہمان علاقوں کے ماحولیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور پھر اپنے آبائی علاقوں کے ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنے کے لئے واپسی کا سفر کرتے ہیں۔ قدرت انھیں ایسا کرنے کے لئے حشرات الارض اور پودوں پر مشتمل وافر خوراک جبکہ جان کے تحفظ کے لئے موسم کی سختی سے بچنے کی کشش کے ذریعے مہاجر بناتی ہے۔

پرندے خصوصاً مہاجر کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام کے وہ متحرک کارکن ہیں جن کے دم سے نظامِ قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے۔ لیکن انسان اپنے پاؤںپر خود ہی کلہاڑی مارنے کی جس روش پر گامزن ہے اُس کا نتیجہ پرندوں کی روز بروز کم ہوتی تعداد کی صورت میں بھی سامنے آرہا ہے۔ خصوصاً مہاجر پرندے تو بری طرح مالِ مفت دلِ بے رحم کی نذر ہو رہے ہیں۔ پرندوں پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں مہاجر پرندوں کی 40 فیصد سے زائد اقسام کی کمی واقع ہو چکی ہے۔

گزشتہ 30 برس کے دوران مہاجر پرندوںکی آبادی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اور ان میں سے تو بہت سے پرندے اب معدومی کا شکار ہیں۔ مزید براں دنیا کے 90 فیصد سے زائد مہاجر پرندے انسانی سرگرمیوں کے باعث غیر محفوظ صورتحال اور اپنی بقاء کی مربوط کو ششوں کی کمی کا شکار ہیں۔ مہاجر پرندوں کی تعداد میں کمی، ان کے قدرتی مسکن کی تنزلی، ہجرت کے لئے استعمال ہونے والے فضائی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور مہمان علاقوں میں درپیش خطرات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لئے2006 سے ہر سال 10 مئی کو مہاجر پرندوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اِمسال یہ دن مہاجر پرندوں کے غیر قانونی شکار، کاروبار اور اُن کو قید رکھنے سے روکا جائے کے عنوان کے تحت منا یا جا رہا ہے ، تاکہ کرہ ارض کے ایک اہم حیاتیاتی عنصر کی بقاء کو درپیش خطرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔

پرندوں کی ہجرت کرنے کے پس منظر میں موجود وجوہات قدرے پیچیدہ ہیں اور آج تک انھیں مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔ دن کی لمبائی، کم درجہ حرارت، خوراک کی فراہمی میں کمی اور جینیاتی عوامل کچھ بھی کار فرما ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد اس بات کی یقیناً تصدیق کریں گے جنہوں نے مہاجر پرندوں کو پنجرہ میں رکھا ہوا ہے کہ وہ ہر سال موسم بہار اور موسم خزاں میں ایک بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں اور متواتر پنجرے کے ایک جانب سے دوسری جانب چکر لگاتے رہتے ہیں۔ رویوں پر کام کرنے والے جرمن سائنسدانوں نے اس کیفیت کو zugunruhe کا نام دیا ہے ۔

جس کا مطلب ہجرتی بے چینی ہے۔ مہاجر پرندے سالانہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور ہر سال تقریباً اُسی راستے کو اختیار کرتے ہیں جو اُنھوں نے پچھلے برس کیا ہوتا ہے ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ یہ سب کچھ دراصل ان کی سمت کے تعین کی حیرت انگیز صلاحیتوںکی بدولت ہوتا ہے۔ اور یہ مکمل طور پر سمجھی نہیں جا سکتی کیونکہ پرندے حواس کی کئی ایک اقسام کو اکٹھا کر کے سمت کا تعین کرتے ہیں۔ پرندے قطب نمائی کی معلومات سورج، ستاروں اور زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرکے حاصل کرتے ہیں۔ یہ ڈوبتے سورج کی پوزیشن اوردن کی روشنی میں نشانیوں کو دیکھ کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔

کئی ہزار میل پر مشتمل دو طرفہ سفر ایک خطرناک اور مشکل کوشش ہے۔ یہ وہ کوشش ہے جوکہ پرندے کی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ جس کی کچھ مثالیں یوں ہیں کہ راج ہنس ایسا پرندہ ہے جو زیادہ سے زیادہ بلندی پر جاتا ہے اور عام طور پر یہ سطح سمندر سے ساڑھے پانچ میل بلند ہمالیہ کے اوپر سے پرواز کرتا ہے۔ 1975 میں وسطی افریقہ کی گدھ (Ruppel's griffon vulture) 37 ہزار فٹ کی بلندی جوکہ سات میل ہے پر پرواز کرتی پائی گئی اور ایک جہاز کے جیٹ انجن کا شکار ہوئی۔

قطب شمالی کا پرندہ TERN ہر سال 49700 میل کا فاصلہ طے کرتا ہے اور اپنی 30 سالہ زندگی میں یہ جتنا فاصلہ طے کرتا ہے وہ چاند اور زمین کے درمیان تین بار چکر لگانے کے برابر ہے۔ سب سے تیزی سے پرواز کرنے والا مہاجر پرندہ شمال مغربی روس کا great snipe ہے جو 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 4200 میل پرواز کرتا ہے۔ کوئی دوسرا پرندہ ایسے طویل فاصلے تک اس رفتار سے سفر نہیں کر سکتا۔ قطب جنوبی کے ساحلوں پر رہنے والا bar-tailed godwit بغیر رکے 7000 میل کا فاصلہ طے کرسکتا ہے ۔ 8 دن کی مسلسل پرواز کے دوران وہ آرام اور خوراک کے لئے کہیں نہیں رکتا۔

پرندے کم وسائل یا محدود ہوتے وسائل کے حامل علاقوں سے زیادہ یا بڑھتے ہوئے وسائل کے حامل علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ پرندوں کی ہجرت کو عموماً فاصلوں اور بدلتے موسموں کے تناظر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مختصر فاصلے کی ہجرت پہاڑوں کی بلندی سے اترائی کی جانب کی جاتی ہے۔ درمیانے فاصلے کی ہجرت ایک علاقے (State ) سے دوسرے علاقے (State) تک محیط ہوتی ہے۔

جبکہ طویل فاصلے کی ہجرت بین الاقوامی سرحدوں سے مبرا ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ پرندے موسمِ سرما میں شمال میں موجود اپنی افزائش نسل کے علاقوں سے جنوب کے گرم میدانوں کا رخ کرتے ہیں ۔ کچھ موسمِ گرما میں شمال کے پہاڑی علاقوں سے ہجرت کرکے دریائے سندھ کے میدانوں اور جنوب کے گرم میدانوں کی طرف جاتے ہیں۔ جبکہ موسم خزاں میں سائبیریا ، روس اور ملحقہ علاقوں سے ہجرت کرکے وسطی مشرقی ممالک کا جن میں پاکستان بھی شامل ہے رخ کرتے ہیں۔ برصغیر میں مون سون کے موسم کے بعد حشرات اور نباتات کی کثرت پر مبنی خوراک کی اعلیٰ دستیابی کی صورتحال (Palearctic ) ریجن کے مہمان پرندوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔



انسانوں کی غیر قانونی سرگرمیاں نہ صرف پرندوں کی آبادی کو متاثر کر رہی ہیں بلکہ وسیع تناظر میں معاشرے پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں۔بقاء ، زراعت اور سیاحت اس کے منفی اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔قانونی شکار بھی غیر قانونی سرگرمیوں سے متا ثر ہو تا ہے۔لیکن دنیا میں وسیع پیمانے پر ان غیر قانونی سرگرمیوں کو سماجی طور پر قبول کیا جاتا ہے اس لئے یہ موجود ہیں۔دنیا میں اس وقت پرندوں کی 10 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور ہر ملک میں اوسطً 400 سے زائد اقسام کے پرندے ہیں۔جبکہ دنیا بھر میں 2274 اقسام کے مہاجر پرندے موجود ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق ہر سال شمال سے جنوب کی طرف 4.5 ارب پرندے یورپ، ایشیاء اور افریقہ کے درمیان دو طرفہ سفر کرتے ہیں۔

اور جو فضائی راستہ مہاجر پرندے اپنی زندگی کے سالانہ محور (Cycle ) کے دوران اپنے افزائش نسل اور غیر افزائش نسل کے علاقوں کو ملانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ان راستوں کو Flyways کہا جاتا ہے۔ The International Wader Study Group نے دنیا بھر میں ایسے 8 فضائی راستوں کی نشاندہی کی ہے جو مہاجر پرندے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے تین فضائی راستے امریکاز میں ہیں جن میں پیسیفک امریکاز فضائی راستہ، وسطی امریکاز اور ایٹلانٹیک امریکاز کا فضائی راستے شامل ہیں جو قطب شمالی کو امریکہ کے انتہائی جنوبی سرے سے ملاتے ہے۔

اس کے علاوہ تین ہی فضائی ر استے (Palaearctic-African flyways) پر مشتمل ہیں۔ جن میں مشرقی بحر اوقیا نوس کا فضائی راستہ، بحرہ روم / بحیرہ اسود کا فضائی راستہ اور مشرقی ایشیاء/مشرقی افریقہ کے فضائی راستے شامل ہیں۔ یہ فضائی راستے دنیا میں مہاجر پرندوں کے سب سے بڑے سسٹم پر مشتمل ہیں اور ہرسال 2 ارب مہاجر پرندے ان فضائی راستوں سے یورپ، وسطی اور مغربی ایشیاء میں اپنی افزائش نسل کے علاقوں سے سردیاں بسر کرنے افریقہ کے گرم علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں وسطی ایشیائی راستہ دنیا کا سب سے مختصر فضائی راستہ ہے۔جو کہ مکمل طور پر شمالی نصف کرہ کے اندر کے حصہ پر مشتمل ہے۔جو شمالی افریقہ، یورپ، عرب کا شمالی حصہ، ایشیاء، ہمالیہ کا شمالی حصہ، جاپان اور آئس لینڈ پر مشتمل ایکو زون (Palaearctic) کو برصغیر سے ملاتا ہے۔اس راستے کو کم پرندے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس راستے میں تبت اور ہمالیہ کے بلند پہاڑ ایک خوفناک رکاوٹ کی صورت میں موجود ہیں۔ آٹھواں مشرقی ایشیا / آسٹریلیا کا فضائی راستہ ہے۔ جو روسی قطب شمالی سے شمالی امریکہ اور نیوزی لینڈ تک وسیع ہے اور اس کو 5 کروڑ آبی پرندے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان آنے والے مہاجر پرندے جس فضائی راستے کواختیار کرتے ہیں اُسے انڈس فلائی وے، گرین روٹ کہا جاتا ہے۔ اسے انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4 بھی کہتے ہیں۔ مہاجر پرندے پاکستان کے طول و عرض میں موجود چھوٹی بڑی آب گاہوں(Wetlands) اور صحراؤں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ جو ہمالیہ سے لے کر ساحل سمندر پر موجود تیمر (mangroves)کے جنگلات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ملک میں وسطی ایشیاء ، مغربی یورپ ، مشرقی سائبیریا اور روس سے مہاجر پرندے آتے ہیں۔ جن کی آمد اب زیادہ تر نومبر میں شروع ہوتی ہے اور مارچ میں واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔

پہلے یہ آمد اکتوبر میں شروع ہو جاتی تھی لیکن کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پرندوں کی ہجرت کے رجحانات میں بھی تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہاجر پرندوں کے قیام کے دورانیہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں پرندوں پر کام کرنے والی سب سے مستند شخصیت ٹی ،جے رابرٹ کے مطابق پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام پائی جاتی ہیں ۔ جبکہ جامعہ پنجاب کے شعبہ زوالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مطابق ملک میں مہاجر پرندوں کی 380 اقسام آتی ہیں۔ جن میں نمایاں تلور،عقاب، مختلف طرح کی چھوٹی بڑی مرغابیاںاور بطخیں، کونج ، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔ پاکستان سے گزر کر بعض اقسام کے مہاجر پرندے انڈیا اور سری لنکا تک جاتے ہیں۔

سری لنکا ان پرندوںکے پڑاؤ کا آخری مقام ہے۔ پاکستان آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے دور سے آنے والے پرندے کا نام Wilson`s Petrel ہے جو اپنے افزائش نسل کے علاقے قطب جنوبی سے سفر کرتا ہوا کراچی کوسٹ پر موسم گرما اور مون سون کے دوران دیکھا گیا۔ یوں اس نے 12900 سے 14500 کلو میٹر یعنی 8 سے 9 ہزار میل کا فاصلہ طے کیا۔ پاکستان میں زیادہ تر آبی مہاجر پرندے آتے ہیں جو ملک بھر میں موجود چھوٹی بڑی آب گاہوں اور دریاؤں سے ملحقہ علاقوں میں قیام کرتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ڈیٹا بیس کے مطابق اس وقت ملک بھر میں اہم آب گاہوں کی تعداد 240 سے زائد ہے۔ جن میں سے 19 آب گاہیں رامسر سائٹس(Ramsar Sites) قرار دی جاچکی ہیں۔

ان رامسر سائٹس میں 2 خیبر پختونخوا میں، 3 پنجاب میں اور 9 سندھ میں موجود ہیں جبکہ 5 سائٹس بلوچستان میں پائی جاتی ہیں ۔ پاکستان آنے والے مہاجر پرندوں کی زیادہ تر تعداد سندھ میں پڑاؤ ڈالتی ہے۔ جہاں کینجھرجھیل، ہالیجی جھیل، انڈس ڈیلٹا اور رن آف کچھ نمایاں مقامات ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں اوربہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں مہاجر پرندے بسیرا کرتے ہیں ان میں ٹانڈا ڈیم ، چشمہ، تونسہ، گڈو بیراج، زنگی ناوڑ، حب ڈیم، اوچھالی جھیل، منگلا جھیل، بند خوشدل خان، راول جھیل وغیرہ نمایاں ہیں۔ سالٹ رینج کی اوچھالی جھیل سفید سر والی مرغابی کے لئے اہم ہے یہ قسم معدومی کے خطرے کا شکار ہے۔ بلوچستان کی زنگی ناوڑ جھیل چٹ پتھری بطخ کا اہم ٹھکانہ ہے۔ جبکہ پہاڑی آب گاہیں مرغابیوں اور انڈس ڈیلٹا، دریائے ژوب سائبیریا سے آنے والی کو نجوں کے پڑاؤ کے اہم مقامات ہیں۔ سندھ کی ہالیجی جھیل آبی پرندوں کی اہم آماجگاہ ہے۔

1967 انقرہ ترکی میں آب گاہوں پر ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں انڈس کو مہاجر پرندوں کے لئے دنیا کا چوتھا بڑا اور اہم فضائی راستہ قرار دیا گیا۔ پانچ سال بعد 1971 میں ایران میںمنعقدہ رامسر آب گاہوں کی کانفرنس میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا گیا کہ انڈس کی آب گاہیں سردیوں کے مہاجر پرندوں کے لئے بہت اہم ہیں۔ اپنی اس تمام تر اہمیت کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔

جامعہ پنجاب شعبہ زوالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے منیجر ریسرچ اینڈ کنزرویشن ایم جمشید اقبال چوھدری دونوںاس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان آنے والے مہاجر پرندوں کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ایک روایتی مہاجر پرندہ اپنی افزائش نسل،آرام اور خوراک کے سالانہ چکر (Cycle ) کے دوران مختلف اقسام کے بہت سے مقامات پر انحصار کرتا ہے۔ اور اگر ہم ان کے افزائش نسل کے علاقوں کو محفوظ کر لیں اور یہ خیال کریں کہ ہم نے انھیں محفوظ کر لیا تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔

کیونکہ انھیں خطرہ ان کی ہجرت کی راہوں کے درمیان یا ٹھکانوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر چیز کو محفوظ بنانا ہوگا۔ڈاکٹر ذوالفقار علی اس پس منظر میں آب گاہوں کو خشک ہونے سے بچانے، انھیں آلودگی سے محفوظ رکھنے اور غیر قانونی شکار پر پابندی جیسے عوامل پر موثر طور پر عملدرآمدکی ضرورت پر زور دیتے ہیں جبکہ ا یم جمشید اقبال چوھدری پاکستان میں مہاجر پرندوں کی مانیٹرنگ کے مضبوط میکنیزم کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ تاکہ مستند اعدادوشمار حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیق کے عمل کو مضبوط کیا جاسکے اور ہر ادارے کی کار کردگی کو جانچا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں