آزاد تو پاگل تھا

آزاد بیس برس پاگل خانے رہ کر تین چار ماہ پہلے گھر لوٹا تھا۔گھر کیا ہے


[email protected]

آزاد بیس برس پاگل خانے رہ کر تین چار ماہ پہلے گھر لوٹا تھا۔گھر کیا ہے شہر کی ایک کچی آبادی میں چھوٹا سا کمرہ۔ بیمار ہونے سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں ایف اے کا طالبعلم تھا۔ والد ہجرت کر کے مدراس انڈیا سے پاکستان آئے تھے۔ وہاں ان کا معمولی سا کاروبار تھا۔ وہ بیٹے کو تلقین کرتے تھے کہ تھوڑا کھا لینا لیکن رزق حلال کھانا۔1947ء میں انھوں نے صرف پاکستان کا نام سنا تھا اور سوچے بغیر لاہور آ گیا۔ یقین تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں ہر طرف انصاف ہو گا۔کوئی کسی کے ساتھ ظلم نہیں کر پائے گا۔ مدراس میں اس کا چھوٹا سا گھر بھی تھا۔

آزاد کے والد کو پاکستان کا اندازہ سب سے پہلے اس وقت ہوا جب اسے اپنے آبائی گھر کے عوض مکان لینے کے لیے سیٹلمنٹ کے دفتر جانا پڑا۔کمرے کے اندر ایک بابو نے کہا کہ اگر اسے گھر چاہیے تو دو ہزار روپے بطور رشوت دینے پڑیں گے۔ دو ہزار تو کیا اس کے پاس دو روپے تک نہیں تھے۔ آزاد کے والد نے یہ بھی دیکھا کہ جعلی کاغذات بنانے کے ماہرین دفتر کے باہر بیٹھے تھے۔آپ کا آزادی سے پہلے اگر"پودینے کا باغ" بھی تھا تو یہاں وہ"آم کا باغ" الاٹ کرا دیں گے۔ مگر وہ رشوت کے سخت خلاف تھا۔ پہچان نہیں پایا کہ ملک کس طرح کے بابوؤں افسروں اور قائدین کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ اس نے جعلی کلیم داخل نہ کرایا اور اسے کبھی گھر نہ مل سکا۔

مدراس میں اس کا ایک واقف پٹواری لاہور آتے ہی جعلی کلیموں کی بدولت لکھ پتی ہو گیا۔ پانچ چھ بڑے بڑے گھر، زرعی زمین اور ایک سینما۔ جو شخص اس نظام سے لڑنے کی تھوڑی سی کوشش کرتا رہا، آزادی کے دو سال بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔آزاد اس وقت دس سال کا بچہ تھا۔ والد کو لے کر سرکاری اسپتال میں گیا تو ڈاکٹر نے اسے باہر سے دوائیاں لانے کے لیے نسخہ تھما دیا۔ اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔آزاد نے اپنے والد کو خون تھوکتے ہوئے دیکھا اور اس کے بعد آنکھیں بند ہو گئیں۔ آخری سانس تک اس کا والد اپنا جائز حق یعنی مکان حاصل نہ کر سکا۔

اب آزاد اکیلا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر قلی بن گیا۔ والد کے فرمودات اسے اَزبر تھے۔ اگر کوئی قلی سامان ڈھونے کے چار آنے لیتا تھا تو آزاد یہی کام دو آنے میں کر دیتا تھا۔ ایک دن ایک سیٹھ کا سامان لے جا رہا تھا تو سیٹھ کی بیوی کے گلے کا ہار زمین پر گر گیا۔ اس نے خاموشی سے ہار اُٹھایا اور بیگم صاحبہ کو واپس کر دیا۔ اسے شاباش ملی۔ جب اور قلیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے بیوقوف کہہ کر اسٹیشن سے نکال دیا۔

اس کے پاس چند سو روپے جمع ہو چکے تھے۔ اس نے پڑھنا شروع کر دیا۔ میٹرک اور پھر کالج۔ آزاد ایک بات سے بہت پریشان ہوتا تھا کہ جو کچھ کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے اس کا عملی زندگی میں کوئی وجود نہیں ہے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ آزاد نے سوچنا شروع کر دیا اور خاموش سا ہو گیا۔ رشتہ کے ماموں نے حالت دیکھی تو اسپتال لے گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ہر طرف ناانصافی دیکھ دیکھ کر ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔

لاہور کے مینٹل اسپتال میں داخل کرادیاگیا۔والدین تو فوت ہو چکے تھے ۔ کس نے آنا تھا۔ آزاد دماغی امراض کے اسپتال جا کر حیران رہ گیا۔ کوئی پاگل دوسرے کے کمرے اور بیڈ پر قبضہ نہیں کرتا تھا۔کوئی کسی کی دوائی چوری نہیں کرتا تھا۔ اگر کوئی اپنی میز پر ایک روپیہ بھی رکھ کر بھول جاتا تو کئی کئی دن وہیں پڑا رہتا تھا۔ پاگل خانے میں مثالی انصاف تھا۔

وہاں ایک شخص جج کے اختیار رکھتا تھا۔ ہر وقت دیکھتا رہتا تھا کہ کوئی بھی مریض کسی دوسرے کے ساتھ بدتمیزی یا زیادتی تو نہیں کر ر ہا۔آزاد کو بتایا گیا کہ یہاں اتنا انصاف ہے کہ سالہا سال سے جج صاحب کے پاس کوئی مقدمہ آیا ہی نہیں تھا۔آزاد کی ایک عجیب عادت تھی۔ وہ دن میں چھ گھنٹے پنکھے سے رسی ڈال کر اُلٹا لٹکا رہتا تھا۔ ڈاکٹر اس سے پوچھتے تھے تو بتاتا تھا کہ اگر آپ نے اس عظیم ملک کے اصل حالات کو دیکھنا ہے تو آپ کو اُلٹا لٹکنا چاہیے کیونکہ اس سے آپکو ہر چیز سیدھی نظر آتی ہے۔ بیس برس بعد جب وہ پاگل خانے سے باہر آیا تو شہر بدل چکا تھا۔

آزاد نے لنڈے بازار سے ایک کوٹ پینٹ خریدا۔ اب اکثر اسی سوٹ میں ملبوس رہتا تھا۔ حلیے سے ایک انتہائی مہذب اور دانا انسان لگتا تھا۔ ایک دن گھر سے باہر نکلا تو پتہ چلا کہ محلے میں ایک وزیر صاحب کھلی کچہری لگا رہے ہیں۔ اس میں لوگوں کے مسائل سن کر وہیں فیصلے کر دیے جائیں گے۔کھلی کچہری میں سامنے والی قطار میں سوٹ پہن کر بیٹھ گیا۔ وزیر صاحب نے انصاف میرٹ اور کرپشن کے خلاف بھرپور تقریر کی اور لوگوں کے مسائل سننے شروع کر دیے۔ ایک شخص نے مطالبہ کیا محلے میں پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

اس پر وزیر صاحب نے متعلقہ محکمہ کو خوب لتاڑا اور حکم دیا کہ ایک مہینے میں پانی کا انتظام ہونا چاہیے۔ محکمہ کے ہیڈ منشی نے جواب دیا کہ فنڈز کی کمی ہے لہذا اگلے دو سال تک پینے کا پانی نہیں آ سکتا کیونکہ شہر کی پوش آبادیوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ وزیر صاحب یہ سننے کے بعد خاموش ہو گئے۔ آزاد نے وزیر کو خاموش دیکھ کر ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ وزیر صاحب آپ ان لوگوں کو پاگل خانے بھیج دیجیے وہاں صاف پانی کثرت سے موجود ہے کیونکہ مریضوں نے میٹھے پانی کا کنواں کھود رکھا ہے۔

ایک اور شخص اٹھا کہ جناب وزیر صاحب آپکے انصاف کے تو ہر جگہ چرچے ہیں، ہر کام میرٹ پر کرتے ہیں، آپ کے محکمہ میں ہر کرپٹ کا احتساب ہو رہا ہے۔ ہمیں تو آپ سے کچھ بھی نہیں چاہیے کیونکہ آپ جیسے ذہین بلند کردار اور شفاف قائد کی موجودگی ہی باعث فخر اور باعث برکت ہے۔ آزاد نے کہا کہ وزیر صاحب یہ شخص ہمارے محلہ کا نہیں۔ میں نے اسے آپ کے عملے سے ایک ہزار روپیہ وصول کرتے دیکھا ہے۔ وزیر صاحب نے آزاد سے پوچھا کہ کیا تمہارا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ تم یہاں کیسے آئے ہو، یہ میرے اور میری سیاسی جماعت کے خلاف سازش ہے۔

اب ایک اور شخص کھلی کچہری میں فریاد کرنے لگا کہ آبادی کے نزدیک بچوں کا ہائی اسکول ہے، استاد کبھی کبھی آتے ہیں اکثر اوقات بچے ایک دوسرے کی کلاس کو پڑھانا شروع کر دیتے ہیں، اسکول کی چار دیواری ٹوٹ چکی ہے، کھڑکیاں، دروازے لوگ نکال کر لے جا چکے ہیں، پنکھے چوری ہو چکے ہیں اسکول میں اکثر اوقات لوگ اپنی گائیں بھینسیں باندھ کر چلے جاتے ہیں۔ یہ سن کر وزیر صاحب غصے میں آگئے ۔کہنے لگے اتنی زیادتی بچوں کا اسکول ہے مگر عملہ غائب، ان کی حکومت یہ کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ جب تقریر ختم ہوئی تو ساتھ بیٹھے شخص نے آزاد کو بتایا کہ اسکول کا ہیڈ ماسٹر تو وزیر موصوف کا انتہائی قریبی عزیز ہے لہذا یہ سب کچھ لفاظی اور جھوٹ ہے۔ آزاد نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اور وزیر موصوف کو کہنے لگا کہ یہ ہیڈ ماسٹر تو آپکے گھر کے سارے کام کرتا ہے، آپ کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے، اب تو وزیر موصوف کا پارہ چڑھ گیا، اسے یقین ہو گیا کہ آزاد دراصل اپوزیشن کا کارندہ ہے۔ تھانیدار کو حکم دیا کہ آزاد کو حوالات میں بند کر دیا جائے۔ آزاد کھلی کچہری سے سیدھا تھانے پہنچ گیا۔

حوالات میں جاتے ہی اسے اندازہ ہوا کہ یہاں تو نوے فیصد لوگ جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کیسے پہنچا ہے، وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور بتانے لگا کہ اس کی دو ایکڑ زرعی زمین ایک ہاؤسنگ کالونی کے نزدیک تھی اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا تھا مگر انھوں نے عملے سے ملکر جعلی کاغذات بنوائے، اس کے بعد اس پر پرچہ درج کرادیا گیا ، اب پولیس اسکو روز جوتے مارتی ہے کہ تم خالی کاغذ پر دستخط کرو کہ اس زمین سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ وہ روز انکار کرتا ہے۔

آزاد نے تھانیدار کو کہا کہ یہ شخص بے قصور ہے، تھانیدار کو غصہ آیا اور اس نے آزاد کو اُلٹا لٹکا دیا جائے اس کے علم میں نہیں تھا کہ آزاد تو گھنٹوں الٹا لٹک سکتا ہے تھانیدار کا حکم سنکر آزاد اچھے بچوں کی طرح خود ہی پنکھے سے الٹا لٹک گیا پولیس کے عملہ کو کہا کہ اب اسے تھانہ بالکل ٹھیک نظر آ رہا ہے کیونکہ یہاں ہر طرف قانون کی عملداری ہے، یہاں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی، ہر طرف انصاف ہی انصاف ہے، تھانیدار سمجھ گیا کہ آزاد ذہنی مریض ہے لہذا اسے واپس پاگل خانے بھجوا دیا گیا۔

جیسے ہی پاگل خانے کا مین گیٹ کھلا آزاد نے تیز دوڑنا شروع کر دیا۔ زور زور سے نعرے لگا رہا تھا۔ انصاف، صاف پانی، تعلیم، میرٹ اور احتساب۔ اُن الفاظ کے بعد زور زور سے قہقہے لگاتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ سب کچھ باہر کی دنیا میں نہیں مگر اس کی دنیا میں ہے جسے لوگ پاگل خانہ کہتے ہیں!

یہ ایک فرضی سی کہانی ہے۔ ہمارے ملک کے اصل حالات سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں۔ آپ اسے پڑھ کر اپنا قیمتی وقت ضایع نہ کریں۔ ہمارے عظیم ملک میں تو ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر مسلسل پانی پی رہے ہیں۔ آزاد تو پاگل تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں