کاکڑ ماڈل
اگر وہ اپنی حمایت میں عام لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے تو اس سے ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا
میاں نواز شریف کی تعریف کی جانی چاہیے کہ انھوں نے شہباز شریف کے برعکس اپنی فیملی کو کس طرح سیاسی منظر سے باہر رکھا اور اس طرح وہ عوام کے ذہن سے بھی باہر رہی۔ بیگم کلثوم نواز نے بڑے پر جوش انداز سے نواز شریف کی آزادی کے لیے تحریک چلائی جب جنرل مشرف نے انھیں معزول کر دیا تھا تاہم جب میاں نواز شریف سیاسی جلاوطنی میں چلے گئے تو بیگم صاحبہ دوبارہ گھریلو خاتون بن گئیں جب کہ ان کی صاحبزادی جسے وہ اپنی سیاسی جانشین کے طور پر پروان چڑھا رہے تھے حالیہ عرصے میں عوامی تنقید کی زد میں آگئی۔
وزیراعظم کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ اپنے منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ میں اپنے سرکاری فیصلوں پر اپنے ذاتی مفادات کو ہر گز اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دونگا بلکہ ریاست کے مفادات کو ہر قیمت پر مقدم رکھا جائے گا۔ اب چونکہ ان کی حب الوطنی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے لیکن ان کی فیملی کے ارکان کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں کہ اس معاملے کو محض وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے لیکن غیر جانبداری سے تحقیقات بہر حال کرانی پڑیں گی۔
اگر وہ اپنی حمایت میں عام لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کریں گے تو اس سے ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا جس پر قابو پانا ممکن ہے ان کے بس میں نہ رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عوام کا پر تشدد احتجاج سڑکوں پر شروع ہو جائے ادھر اگرچہ پہاڑی علاقوں میں آرمی نے دہشتگردی کے خلاف بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن شہری علاقوں میں اب بھی دہشتگرد حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں ان کو سیاسی طور پر خسارے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز کی طرف سے نگاہیں پھیر لی ہیں جب کہ تحریک انصاف وزیراعظم کے استعفے پر مصر ہے لیکن جن جماعتوں کے سیاسی مفادات میاں نواز شریف سے وابستہ ہیں وہ چاہتی ہیں کہ نواز شریف بدستور وزیراعظم رہیں' ان میں جے یو آئی (ف) اور اے این پی وغیرہ شامل ہیں۔
اپوزیشن کی 9پارٹیوں نے شریف فیملی کے بارے میں جو ٹی او آرز مرتب کیے ہیں جن کے لیے 90 دن کا وقت مقرر گیا ہے لیکن حکومت نے فوری طور پر ایک ایک کر کے یہ تمام ٹی او آر مسترد کر دیے ہیں گو کہ میاں نواز شریف نے پہلے کہا تھا کہ وہ ٹی او آرز میں ترمیم کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان پر چھوڑتے ہیں اس طرح ممکن ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کی کوئی راہ نکل آئے۔
لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر کیا ہو گا؟ حکومت نے اب جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تحقیقات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دینا چاہتی۔ پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس حکومت کے اقتدار میں ہوتے ہوئے کوئی غیرجانبدارانہ تحقیقات مکن ہو سکتی ہے؟ جب کہ انتظامیہ کا کنٹرول میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے سرکاری اور نجی فنڈز کی کوئی کمی بھی نہیں۔
پاکستان کی سیاست اور صورت حال کا کوئی تجزیہ سول ملٹری تعلقات کو مدنظر رکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ میاں نواز شریف کو 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے سیاست کے میدان میں اتارا تھا لیکن 1992 میں وزیراعظم بننے کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والے تمام چیف آف آرمی اسٹاف سے ان کے تعلقات خراب ہی رہے۔
1998 میں انھوں نے جنرل جہانگیر کرامت کا آئینی چیف کی حیثیت سے ان کا استعفیٰ لے لیا اور ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا حالانکہ اس کے لیے انھیں دو غیرمعمولی پیشہ ور سولجرز کو بائی پاس کرنا پڑا جن میں لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان اور خالد نواز شامل تھے لیکن بالآخر میاں نواز شریف کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نواز شریف کی اپنے نئے آرمی چیف کے ساتھ بھی اختلافات شروع ہو گئے جنہوں نے تعلقات کو خراب کر دیا۔ مشرف نے کارگل کی مہم شروع کی تو نواز شریف نے مشرف کو برطرف کر دیا لیکن 12اکتوبر1999 کو مشرف کے قریبی ساتھیوں، جن میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود عزیر وغیرہ نے نواز شریف کو برطرف کر دیا۔
اگرچہ فوجی مداخلت کسی مسئلے کا آخری اقدام ہوتا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو مارشل لاء کسی مسئلے کا حتمی حل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ 1958ء' 1969ء' 1977ء اور 1999ء میں کیا گیا لیکن یہ تمام ناکامی سے دوچار ہوئے اقتدار میں آنے والوں کے ارادے بظاہر بہت نیک تھے لیکن وہ جلد ہی حرص و طمع کا شکار ہو گئے اور خود بھی اس مسئلے کا حصہ بن گئے جس کو سلجھانے کے لیے وہ آئے تھے۔ اگرچہ فوجی حکمرانوں کا آغاز خوشدلانہ طور پر کیا گیا لیکن ان کی حکمرانی تباہ کن حالات میں انجام کو پہنچی۔
آخر 1993ء کے مارشل لاء کو ''مارشل لا'' کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا حالانکہ یہ بھی مارشل لاء ہی تھا لیکن اس کا نام مارشل لاء نہیں تھا۔ اس حوالے سے ہمیں فوجی مداخلت اور مارشل لاء کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔ 1993 کی فوجی مداخلت کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پیچھے جنرل وحید کاکڑ کا ہاتھ تھا جو ملک و قوم کے ساتھ اسقدر مخلص تھے کہ انھوں نے ذاتی امنگوں کو حاوی نہ ہونے دیا۔ ان کا یہ نعرہ کہ ''سب سے پہلے پاکستان'' صرف نعرہ ہی نہیں بلکہ حقیقت تھا۔
جنرل کاکڑ ایک غیر معمولی سولجر تھے جو حادثاتی طور پر چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے کیونکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ بدقسمتی سے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھوں نے جنرل جنجوعہ کی طرف سے آرمی میں جو مثبت تبدیلیاں کی گئی تھیں انھیں جاری رکھا۔ جنرل کاکڑ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے حتی کہ انھوں نے دو لیفٹیننٹ جنرلوں کو راتوں رات گھر بھیج دیا۔
1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین جو تنازعہ شروع ہوا وہ مارشل لا لگانے کا بڑا مناسب موقع تھا لیکن انھوں نے مارشل لا کا اعلان کرنے یا سول بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے بجائے نگران حکومت قائم کر دی۔ مدافعت اس وقت زیادہ کامیاب ہوتی ہے جب تلوار نکال کے دکھا تو دی جائے لیکن استعمال نہ کی جائے اور جب اس کی ضرورت نہ رہے تو اس کو واپس میان میں ڈال دی جائے اور آئینی نظام کو بحال کر دیا جائے۔
جب وزیراعظم بے نظیر نے 1995ء میں اپنے عہدے میں توسیع پر اصرار کیا تب جنرل کاکڑ نے اپنے کور کمانڈروں اور قریبی معتمدوں سے مشورہ کیا۔ صرف لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان کور کمانڈر کراچی اور میجر جنرل (جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بن گئے) علی قلی خان جو ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل تھے نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ ریٹائرڈ ہو جائیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جنرل کاکڑ نے اقلیتی فیصلہ قبول کر لیا اور خاموشی سے ریٹائرڈ ہو گئے جس نے ان کی ساکھ میں اضافہ کیا اور وہ پاک فوج کے سابقہ کمانڈروں میں سب سے زیادہ عزت و تکریم حاصل کرنیوالے شخص ثابت ہوئے۔
جنرل راحیل شریف کو فوج میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے جب کہ قوم کی نظریں بھی ان پر ہی لگی ہیں کیونکہ ان کی شخصیت میں استحکام اور عزم فروزاں ہے۔ جنرل کاکڑ کی طرح انھوں نے بھی صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع نہیں چاہتے اور نہ ہی کوئی سیاسی عزائم رکھتے ہیں۔
دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کامیاب آپریشن نے پاک فوج کی شان میں اضافہ کر دیا ہے جو کہ عوام کی نظروں میں حکومت سے زیادہ مقبول ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں تو انھوں نے کہا کہ اس کا جواب خواجہ سعد رفیق دیں گے جو عام حالات میں بڑی پرجوش خطابت کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ انھوں نے اس سوال کا جواب گول کر دیا اور کہا کہ مارشل لا سے جمہوریت پٹڑی سے اتر جاتی ہے لہٰذا احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ کاکڑ ماڈل بہت محدود وقفے کے لیے نافذ کیا جانا چاہیے اور اسے مارشل لا نہیں کہا جانا چاہیے۔