شاعر جاں نثار اختر کے امر گیت
یوں تو ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں کئی باصلاحیت فلمسازوہدایتکار آئے
یوں تو ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں کئی باصلاحیت فلمسازوہدایتکار آئے اور انھوں نے بہت سی سپرہٹ فلمیں تخلیق کی مگر میں یہاں دو ایسے نامور اور ذہین فلمسازوں و ہدایتکاروں کا تذکرہ کروں گا جنھوں نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں ایک تاریخ رقم کی ہے اور چند ایسی فلمیں تخلیق کی ہیں جن پر انڈین فلم انڈسٹری ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ یہ دو فلم ساز اور ہدایتکار تھے کے آصف اور کمال امروہوی۔ کے آصف نے ایک مغل شہنشاہ کی زندگی پر مبنی فلم ''مغل اعظم'' بنا کر ہندوستان کی فلمی دنیا کا سربلندکیا تھا اور دوسرے کمال امروہوی جنھوں نے فلم ''پاکیزہ'' اور ایک سوشل فلم ''رضیہ سلطان'' بنا کر ایک عظیم روایت قائم کی تھی۔ میرے آج کے کالم کی شخصیت کمال امروہوی کی بے مثال فلم ''رضیہ سلطان'' کے شاعر جاں نثار اختر ہیں جن کی شاعری نے فلم کے ذریعے رضیہ سلطان کو ایک نئی زندگی دی تھی اور رضیہ سلطان کو پھر سے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ کردیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب کمال امروہوی مسلم سوشل فلم رضیہ سلطان بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور انھوں نے مذکورہ فلم کے لیے بمبئی فلم انڈسٹری کے انتہائی باصلاحیت فنکاروں کو یکجا کیا تھا فلم کی موسیقی کے لیے منجھے ہوئے موسیقار خیام کو منتخب کیا تھا اور فلم کے گیت لکھنے کے لیے نامور شاعر جاں نثار اختر کو دعوت دی تھی اور چیدہ چیدہ تیکنیک کاروں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ رضیہ سلطان ایک خاتون مسلم فرماں روا کی زندگی پر مبنی فلم تھی۔ رضیہ سلطان ہندوستان میں 1236 سے 1240 تک ایک حکمراں کے طور پر ہندوستان کے تخت پر قابض رہی تھی اور یہ بھی کیا حسن اتفاق تھا کہ ایک حسین و جمیل خاتون حکمراں اپنے ہی محل کے ایک ملازم غلام جمال الدین کے عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔ فلم میں رضیہ سلطان کا کردار ہیما مالنی نے اور غلام عاشق کا کردار دھرمیندر نے ادا کیا تھا۔
جاں نثار اختر اور موسیقار خیام کو ہدایت کار کمال امروہوی نے یکجا کرکے انھیں اس بات کی آزادی دی تھی کہ وہ اب اپنے حساب سے گیتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ تیار کریں جن کی سریلی خوشبو ہر دل کو مسحور کردے اور پھر ایسا ہی ہوا جب فلم کا پہلا گیت تیار کرکے کمال امروہوی کو سنایا گیا تو وہ اس گیت اور اس کی موسیقی پر فدا ہوگئے تھے۔ مذکورہ گیت کی موسیقی میں جب کہ بہت کم ساز استعمال کیے گئے تھے اور بعض جگہ تو صرف طبلے کی تھاپ ہی سے کام لیا گیا تھا اس گیت کو لتا منگیشکر کی حسین آواز نے اور بھی اس کے حسن کو دوبالا کردیا تھا اور یہ فلم کا ہائی لائٹ سانگ تھا۔ اس کا کچھ حصہ قارئین کی نذر ہے جو اس گیت کے سحر میں کھو جائیں گے اور ایک ایک مصرعہ دل میں اترتا چلا جائے گا۔
اے دل ناداں' اے دل ناداں
آرزوکیا ہے' جستجوکیا ہے
ہم بھٹکتے ہیں' کیوں بھٹکتے ہیں' دشت و صحرا میں
ایسا لگتا ہے موج جاتی ہے اپنے دریا میں
کیسی الجھن ہے کیوں یہ الجھن ہے
ایک سایا سا روبروکیا ہے
یہ گیت فلم میں ہیما مالنی پر ایک لق ودق ریت کے صحرا میں عکس بند کیا گیا تھا۔ گیت کا ایک ایک لفظ زندگی کے خوابوں اور سرابوں کی عکاسی کرتا تھا اور ایک ایک مصرعہ ادب کی چاشنی میں گھلا ہوا تھا۔ سُر، منظر اور پس منظر میں اپنا جادو گھول رہے تھے۔ موسیقار خیام نے اس گیت کے ذریعے دلوں کو مسحورکر لیا تھا اور پھر ہیما مالنی کی اداکاری نے اس گیت کو ایک طلسماتی گیت کا روپ دے دیا تھا۔ فلم کی فوٹو گرافی عام فلموں سے بہت ہٹ کر تھی اور بہت کم فلموں میں ایسی دلکش فوٹوگرافی دیکھنے میں آئی ہوگی۔ کمال امروہوی نے اس گیت کے ایک ایک شاٹ پر بڑا کمال دکھایا تھا۔
یہ فلم اپنی شاعری، موسیقی، فوٹو گرافی کا اعلیٰ نمونہ تھی اور اس فلم کی بدقسمتی یہ تھی کہ جاں نثار اختر نے فلم کے ابھی صرف دو ہی گیت لکھے تھے کہ اس فلم کی تکمیل کے دوران ہی جاں نثاراختر بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے اور اس طرح انڈین فلم انڈسٹری ایک بے مثال شاعر سے محروم ہوگئی تھی۔
جاں نثار اختر نے فلم ''رضیہ سلطان'' سے پہلے بھی جتنی فلموں کے لیے گیت لکھے انھیں انمول گیتوں کا درجہ دیا جاتا ہے اور اکثر ان کے وہ گیت آج بھی سننے کو مل جاتے ہیں تو دلوں کو گرما دیتے ہیں فلم ''انارکلی'' بحیثیت شاعر جاں نثار اخترکی ابتدائی فلم تھی مگر وہ ایک تلخ تجربہ ثابت ہوئی تھی اس کا تذکرہ آگے آئے گا لیکن جس فلم کے گیتوں نے جاں نثار اختر کی ادب کی دنیا سے فلم کی دنیا تک جو دھوم مچائی تھی وہ فلم ہدایت کار اے ۔آر۔کاردار کی فلم ''یاسمین'' تھی جو خالص ایک میوزیکل اور گیتوں بھری فلم تھی جس کے تمام گیت زبان زد خاص و عام ہوئے تھے اور ہر گیت ایک سے بڑھ کر ایک تھا، ذیل میں اس فلم کے چند مشہور گیتوں کے مکھڑے حاضر ہیں جو آپ کو سُر اور شاعری کی ایک حسین دنیا میں لے جائیں گے:
دل ان کو ڈھونڈتا ہے ہم دل کو ڈھونڈتے ہیں
بچھڑے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
تم اپنی یاد بھی دل سے بھلا جاتے تو اچھا تھا
یہ دوآنسو لگی دل کی بجھا جاتے تو اچھا تھا
٭بے چین نظر بے تاب جگر' یہ دل ہے کسی کا دیوانہ ہائے دیوانہ
٭بھر بھر کے جام پلا دے ساقی' بنا دے متوالا
٭ہنس ہنس کے حسینوں سے نظر چار کیے جا' جو بھی کرے پیار اسے پیار کیے جا
ان گیتوں کے علاوہ ایک گیت تنویر نقوی کا بھی بہت خوب تھا۔ جس کے بول تھے ''مجھ پہ الزام بے وفائی ہے' اے محبت تری دہائی ہے'' ۔
اب میں آتا ہوں اس قصے کی طرف جو فلمساز نندلال جسونت لال کی فلم ''انارکلی'' سے جڑا ہوا ہے۔ جب ابتدا میں فلم انارکلی میں گیت لکھنے کا موقع ملا تو جاں نثار اختر کے ساتھ ایک نئے موسیقار بسنت پرکاش کو لیا گیا تھا ابھی فلم کا ایک ہی گیت جاں نثار اختر نے لکھا تھا جس کے بول تھے:
وفا کی لاج رہ جائے گی' آجا تیرے آنے سے
محبت کی نظر نیچی نہ ہوجائے زمانے سے
کہ پتہ چلا کہ فلمساز و ہدایت کار نئے موسیقار بسنت پرکاش سے مطمئن نہ تھے یا پھر فلمی گروپ بندی تھی جس کی وجہ سے نئے موسیقار کو فلم انارکلی سے علیحدہ کردیا گیا اور ایک مشہور موسیقار سی رام چندرا کو لے لیا گیا اور اس طرح جاں نثار اختر کا گیت بھی فلم ''انارکلی'' میں شامل نہ کیا جاسکا اور پھر سی رام چندرا نے جاں نثار اختر کی جگہ شیلندر سے ایک گیت لکھوالیا جس کے بول تھے ''میری قسمت کے خریدار اب تو آجا'' جو کافی مقبول ہوا تھا مگر جب فلمساز اے آر کاردار نے موسیقار سی رام چندرا کے ساتھ فلم ''یاسمین'' میں جاں نثار اختر کو لیا تو جاں نثار اختر نے جتنے بھی گیت لکھے انھوں نے مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا اور پھر جاں نثار اختر ایک ہاٹ کیک نغمہ نگار بن گئے تھے اور ان کے پاس فلموں کی لائن لگ گئی تھی۔
اس دور کی ان کی چند مشہور فلموں کے نام تھے قیدی، نیا زمانہ، استاد، بلیک کیٹ، باپ رے باپ، مسٹر لمبو، کنارے کنارے، پریم پربت اور خاص طور پر ایک فلم ''چھومنتر'' کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس کے ایک گیت نے فلم بینوں کے دلوں میں ہلچل مچا دی تھی اور لاکھوں محبت کرنیوالے اس گیت پر نثار ہو رہے تھے اس کے بول تھے:
غریب جان کے ہم کو نہ تم بھلا دینا
تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا
اس فلم کے موسیقار اوپی نیئر تھے، یہ گیت محمد رفیع اور گیتا دت نے گایا تھا۔ یہ گیت اس زمانے میں گلی کوچوں میں گایا جاتا تھا۔ جاں نثار اختر 18 فروری 1914 میں گوالیار کے ایک ادنیٰ گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد مضطر خیرآبادی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے اور ان کے دادا فضل خیرآبادی ایک مشہور مذہبی اسکالر تھے مگر جاں نثار اختر شعور سنبھالتے ہی شعر و ادب کی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے اور ایک دور میں ترقی پسند ادبی تحریک کے ہر اول دستے میں شامل تھے اور انھیں بحیثیت شاعر روس کی طرف سے لینن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا کیونکہ نظریاتی طور پر یہ بھی کمیونسٹ سوچ کے حامل تھے جاں نثار اختر کو نہرو ادبی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا یہ خوبصورت اور امرگیتوں کے خالق صرف 62سال زندہ رہے مگر ان کے گیت ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔