نظام فوجداری انصاف

کہیے مگر کس سے کہیے، خون دل میں انگلیاں ڈبو کے نوشتہ دیوار لکھیے تو کس دیوار پر لکھیے؟


جاوید قاضی May 07, 2016
[email protected]

کہیے مگر کس سے کہیے، خون دل میں انگلیاں ڈبو کے نوشتہ دیوار لکھیے تو کس دیوار پر لکھیے؟ ہم نے مانا تھا کہ یہی ہونا ہوگا جس کو چاہیں پکڑیں گولی سے مار دیں یا زیر حراست وہ دم توڑ دے۔جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا۔کون کافر کہے گا کہ کراچی میں امن واپس نہیں آیا اور کون کافر نہ کہے گا اس کارخیر میں یہ سب سیاسی جماعتیں تھیں جن کو اس شہر میں سیاست کے لیے مسلح جتھوں کی بھی اشد ضرورت تھی۔

کہیں بھتہ تھا، بوری میں بند لاشیں تھیں، چلتے ہوئے آدمی پر گولیاں تھیں، مگر یہ کہاں تھا کہ ان کو اسی انداز سے کچلو، مارو اور غائب کردو، جس طرح سے وہ کیا کرتے تھے ارے بھائی آپ ریاست ہیں، آپ آئین پاکستان ہیں آپ انصاف ہیں، آپ پر لازم ہے کہ آپ پابند رہیں ان قوانین کے جو لوگوں نے بنائے ہیں اور آپ کو عزت دی ہے، رتبہ دیا ہے، مقام دیا ہے۔ کسے کافر، کسے غدار، کسے چور ڈاکو نہ کہیے اور بیلٹ باکس پر قدغن نہ لگائیے۔ ماورائے عدالت حکم صادر نہ کریں، عدالت میں ثابت کریں اور اگر نہ کرسکو تو بری کرو، کہ کہیں کل کوئی معصوم بھی نہ مارا جائے۔

کوئی بھٹو کی طرح پھانسی نہ چڑھے۔ پہلے وہ انسداد دہشت گردی کا قانون لائے، فوجی عدالتوں کو لائے تو سپریم کورٹ نے کہا یہ آئین کے خلاف ہے ہاں لیکن انسداد دہشت گردی غیر معمولی قانون ہونا چاہیے۔ پھر وہ تحفظ پاکستان کا قانون لائے مگر یہ سب تب ہی ممکن تھا کہ جب خود آئین میں ترمیم ہو۔ تو بالآخر 21 ویں ترمیم آئی اور اس طرح سے فوجی عدالتیں بھی آئیں اور پھر 21 ویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی کہ وہ ترمیم جو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے تصادم میں ہو وہ ترمیم خود آئین کی روح کے منافی ہے اور پارلیمنٹ سپریم نہیں بلکہ آئین پاکستان سب سے اعلیٰ ہے۔ کورٹ نے یہ مانا کہ آئین پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ہاں مگر یہ بھی کہا کہ اکیسویں ترمیم مختصر مدت کے لیے ہے اور فوجی عدالتیں سپریم کورٹ کے تابع ہیں۔

برسوں سے لوگ جیلوں میں بغیر سزا صادر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ جو انسداد دہشتگردی میں نہیں آتے ان کو بھی اس عدالت کے دائرے میں رہنا پڑتا ہے۔ اور اس طرح وہ جو عام ملزم کے حقوق ہیں وہ ان حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں، فقط اس لیے کہ پولیس نے یہ دفعہ ان پر چالان پیش کرتے ہوئے لگادی تھی۔حال ہی میں حیدرآباد میں ایک بچے نے جیل کے اندر خودکشی کرلی تھی۔ وہ بچہ جس کو بچوں کے لیے خاص جیل میں رہنا چاہیے تھا، اس پر بچوں کے لیے خاص قانون کے تحت بنائی ہوئی عدالتی پیشی ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوا، اور اب کون کرے تحقیق کہ کیا وجہ بنی؟ اس بچے نے کیوں خودکشی کی؟ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بچوں کے ساتھ اکثر جیلوں میں کیا ہوتا ہے۔

اس پر آسمان بھی روتا ہوگا۔نظام فوجداری انصاف میں سب سے پہلا حملہ جنرل ضیا الحق نے کیا۔ عورتوں کی دو شاہد یا مردوں کے ایک شاہد کے برابر، جس کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے تو وہ خود چار چشم دید گواہ بھی لے آئے اور پھر دنیا میں مانے ہوئے DNA کی شہادت کو مولانا شیرانی نے شریعت کے خلاف قرار دے دیا۔ اور اب کیا ہے؟ پاکستان دنیا میں تیسرا بدترین ملک ہے عورتوں کے لیے، پاکستان دنیا میں چوتھا بدترین ملک ہے صحافیوں کے لیے یہاں یہ بدترینوں کی فہرست نہیں پیش کروں گا جو نظام فوجداری انصاف سے براہ راست تعلق ہی نہیں۔نہ بچوں کے لیے بنائے ہوئے قانون پر عمل ہوتا ہے، نہ عورتوں کو دیا ہوا آئین میں تحفظ ملتا ہے، نہ ملزم کے حقوق، جو آئین میں ہیں وہ ملتے ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ جج اس وقت تک اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے، اگر وہ کسی مذہبی دہشت گرد کے خلاف فیصلہ سناتے تھے۔ کراچی میں 90 کے زمانے کے آپریشن میں جو پولیس افسر ڈیوٹی پر تھے ان میں سے بہت سے مارے گئے۔ 12 مئی کو کیا ہوا؟ کئی ماؤں کے ''آفتاب احمد'' مارے گئے۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن جب ریاست اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے گی تو پھر ریاست کمزور ہوگی۔

سندھ کے اندر نظام فوجداری انصاف کی اس تیزی سے بدتر صورتحال ایک نئے انداز سے احساس محرومی کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال جس طرح بلوچستان میں بنی ہوئی ہے، وہ اب کی بار سندھ میں بن رہی ہے۔دو تین دن پہلے متحدہ کا کارکن رینجرز کی تحویل کے دوران وفات پاگیا اور اس کے جسم سے جو شواہدات ملے ہیں جس سے یہ تاثر جڑتا ہے کہ اس پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا۔ سندھی قوم پرستوں کو اٹھانا اور ان کی بعد میں لاشیں ملنا اب عام ہوچکا ہے۔ یہ صورتحال تب زیادہ خراب ہوئی جب نوشہرو فیروز کے قریب اس تنظیم کے رہنما کبیر انصاری وکیل کو اٹھایا گیا۔

جس کی رہائی کے لیے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا گیا، وہاں سے کوئی فوجی کاررواں گزر رہا تھا، راستہ بند تھا، ضلعی پولیس و انتظامیہ نے یہ کہا کہ بائی پاس بند ہے دھرنے کی وجہ سے، اس لیے آپ شہر کے اندر سے گزر جاؤ، لیکن یہ بات نہیں مانی گئی اور دھرنا زبردستی ختم کرواتے ہوئے تناؤ پیدا ہوا اور بالآخر یک طرفہ سیدھی گولیاں چلائی گئیں اور اس میں ارشاد چنہ نامی جئے سندھ کا کارکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا، جب کہ اور بہت سے زخمی بھی ہوئے۔چلو یہ تو بہتر ہوا کہ کراچی میں رینجرز کی تحویل میں مارے جانے والے متحدہ کے کارکن کے لیے جنرل راحیل نے ایک کمیشن تشکیل بھی دیا، تو ان کو برطرف بھی کیا جو اس واقعے میں ملوث تھے۔

اس سے خود ایک اور محرومی نوشہرو فیروز کے حوالے سے ہوئی کہ کیوں کہ شہری سندھ کو میڈیا اچھی طرح سے دکھاتا ہے اور ان کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے مگر دیہی سندھ کی آواز نہیں پہنچتی۔ ان کے پاس احتجاج کرنے کا پھر ذریعہ یہی ہے کہ وہ شاہراہ بند کریں اور اس طرح اپنا احتجاج بھرپور انداز میں رقم کروائیں۔ مگر ان پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔اس سارے منظر میں سندھ کا آئی جی، سندھ کا وزیراعلیٰ، سندھ کے اندر نظام فوجداری انصاف کی بدحالی کھل کر سامنے آگئی کہ اس سارے واقعے کی تفتیش کرائی جائے۔

سول انتظامیہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔جب ریاست اس بربریت پر اتر آئے گی تو پھر سب اتر آئیں گے۔ آج کل پھر جرگوں کا دور دورا ہے،ایبٹ آباد کا واقعہ دیکھیے، کاری کرکے عورتوں کو مارنے کی رسم روا ہے، ہر ایک نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے، اور اگر اس طرح کراچی میں امن برپا کرنا ہے تو یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ امن دیرپا نہیں ہوگا۔ زبردستی سے، ظلم سے جو خاموشی ہوتی ہے اسے امن نہیں کہا جاسکتا، بلکہ ایسے شوہر سے جو اپنی بیوی کو بہت مارتے ہیں تو وہ عورتیں پھر ان شوہروں سے جان چھڑا لیتی ہیں۔ یہ وفاق ہے، اسے وفاق ہی رہنے دیجیے، پاکستان اور کچھ بھی نہیں 1973 کی آئین کی شکل ہے اور اگر ہم اس کو اس طرح تسلیم نہیں کریں گے تو پھر خواص سے ایک سنگین بحران پیدا ہوگا۔جو مسلح جدوجہد سے پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی عدالت میں لانا ہوگا، نہ کہ ماورائے عدالت قتل کرنا ہوگا۔ یہ وقت ہے سر جوڑ کر بیٹھنے کا۔

کسی طرح نظام فوجداری انصاف کو آئین کی روح کے عکاس کریں۔ جاتے جاتے اس جرگے کا بھی ذکر کردوں جس نے فیصلہ سنایا بھی، صادر بھی کیا کہ 16 سالہ عنبرین کو زندہ جلا دیا جائے کہ اس نے مدد فراہم کی تھی ایک لڑکی کو فرار ہونے کے لیے، اس نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ ایبٹ آباد کے نواح میں واقعہ پیش آیا۔

عمرکوٹ میں ایک لڑکی کی عزت لوٹی گئی تو جرگے نے فیصلہ سنایا کہ اس کا معاوضہ دو گندم کی بوریاں ہیں اور کچھ دن پہلے قائم علی شاہ صاحب کے شہر میں ایک عورت کو شوہر نے اس لیے مار مار کر تیزاب سے جلادیا کہ اس کو بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔یہ سب ہمارے نظام فوجداری انصاف کے زمرے سے باہر ہیں اور اگر یہ سب اسی طرح ہی چلتا رہا تو ریاست کو کوئی باہر سے تو کچھ نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں مگر ہم کو اندر سے انصاف کی نافراہمی کھوکھلا کرسکتی ہے۔ نظام فوجداری انصاف کو یعنی Administration of Criminal Justice کو آئین کے اندر دیے ہوئے انسانی حقوق کے تابع کرنا ہوگا اور ایک مہذب ریاست بننا ہی ہمارا مستقبل ہے، نہ کہ سیکیورٹی ریاست۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں