اندیشہ ہائے دُور دراز
گزشتہ دس سالوں میں چونگی امر سدھو اور جنرل اسپتال کے رہائش پذیر لوگوں کو اوور ہیڈ پلوں کی عادت ڈالنے کے لیے کام ہوا۔
دو بار اس سے قبل بھی میرے اس دوست نے لاہور کی فیروز پور روڈ کا ذکر کیا تھا۔یہ لاہور سے بھارتی شہر فیروز پور کو ملاتی ہے ، اسے لاہور قصور روڈ بھی کہا جاتا ہے لیکن میرے لیے اس میں خاص نوٹس لینے والی کوئی بات نہیں تھی، اس لیے وہ بات مجھے زیادہ یاد نہ رہی تھی لیکن چند روز قبل اس نے تیسری بار اسی سڑک کے حوالے سے بات کی۔اس سے مجھے ایک شعر یاد آ گیا ہے
تو اور آرائشِ خم کا کُل
میں اور اندیشہ ہائے دُور دراز
یاد آیا کہ پہلی بار اس دوست نے آٹھ نو سال قبل شام کی چائے میرے ہاں پیتے ہوئے بتایا تھا کہ لاہور قصور روڈ پر دو جانب تجاوزات کی وجہ سے اور مرمت نہ ہونے کے سبب اتنی خستہ حال ہے کہ وہ اس روز چار گھنٹے تک ٹریفک جام میں پھنسا رہا ۔بقول اس کے دو کلو میٹر فاصلہ طے کرتے ہوئے اسے دوپہر سے شام ہو گئی اور وہ میرا مکان لاہور میں نزدیک ترین پا کر واش روم میں جانے اور چائے پینے کے لیے رک گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سڑک پر پیدل، بائیسکل، کار، موٹر بائیک، رکشہ، کھوتی ریڑھی، ویگن، بس، ٹرک، کنٹینر کو اس نے اس روز پہلی بار بیک وقت اکٹھے دیکھا اور بھگتا۔پھر اس نے کہا کہ باتھ روم کی اہمیت کا بھی اسے اسی روز ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے صحیح احساس ہوا۔
دوسری بار اس دوست نے دو تین سال قبل لاہور سے قصور جا کر واپسی پر فیروز پور روڈ کی تعمیر پر دعا دیتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا ذکر کیا جن کے دور حکومت میں سڑک پر سے بیشتر تجاوزات ہٹانے کے ساتھ اسے دو رویہ کر کے دیرینہ مشکل اور مسئلے کو حل کر دیا گیا تھا۔ اس سڑک کو کشادہ کرنے پر خطیر رقم خرچ ہوئی تھی اور کرپشن کے الزامات بھی لگے تھے۔ انکوائری بھی ہوئی لیکن نتیجہ کسی کو معلوم نہیں ہوا۔
اب اسی دوست تیسری بار مجھ سے فیروز پور روڈ کی بابت ذکر کیا اور بتایا کہ گزشتہ دس سالوں میں چونگی امر سدھو اور جنرل اسپتال کے علاقے میں رہائش پذیر لوگوں کو تین بار اوور ہیڈ پلوں کے استعمال کی عادت ڈالنے کے لیے کام ہوا۔سڑک کو تین بار لوہے کے سریوں سے بند کر کے وہاں پر Devider لگائے گئے لیکن ہم عوام بھی کمال ہیں، پہلی کوشش کو لوگوں نے ایک سال کے اندر لوہے کے سریئے اکھاڑ کر ناکام بنا دیا، دوسری بارسGAP والے ڈیوائیڈروں کی دیوار بناکر لوگوں کو Educate کرنے کی کوشش کی گئی جس پر مقامی لوگوں نے قہقہ لگا کر کہا
دشت تو دشت تھے سریے بھی نہ چھوڑے ہم نے
اورپھر ویلڈ کیے ہوئے چار سریوں کے ستون بھی سڑک پار جانے آنے والوں نے مال غنیمت کے طور پر اکھاڑنے شروع کر دیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس کے اوپر باربڈ وائر بچھادی گئی لیکن لوگ اسے بھی خاطر میں نہ لائے اور اسے ہٹا کر سریوں کی دیوار اپنی مدد آپ کے اصول پر پھلانگ جاتے۔اس سے عوام کے شعور کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت فیروز پور روڈ پر کثرت سے سفر کرنے والے میرے دوست کو مجھ سے اس سڑک کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ وہ عوام کے اس اعلیٰ شعور کی نشاندہی کرسکے ۔اس کا کہنا ہے کہ لاہور کئی ترقیاتی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ یہ منصوبے مکمل بھی ہوجائیں گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر آیندہ انتخابات کے بعد موجودہ حکمران اقتدار میں نہ رہے تو خدانخواستہ فیروز پور روڈ کی طرف والے زیر تعمیر منصوبے مسمار کر کے ان کو پرانی Duel Carrigeway میں تو تبدیل نہیں کر دیا جائے گا۔
وہ خود چونکہ لاہور جنرل اسپتال سے جانب قصور کسی جگہ رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ والٹن روڈ موڑ جو قینچی کے نام سے مشہور ہے اس سے آگے جنرل اسپتال کراسنگ کے بعد بڑی روہی یعنی گندے نالے تک کے سات کلو میٹر کے درمیانی علاقوں میں چھوٹی آبادیوں میں رہائش پذیر اگر سڑک کے دوسری طرف جانا چاہیں تو انھیں کہیں پانچ کسی جگہ آٹھ اور کہیں دس کلو میٹر فاصلے تک اضافی سفر کرنا پڑے گا۔ ہر دو جانب اس ایریا میں چھوٹی بڑی فیکٹریاں ہیں جن میں کام کرنے والے پیدل، سائیکلوں پر یا موٹر سائیکل سے کام پر آتے جاتے ہیں۔ ان کم حیثیت افراد میں شدید بے چینی اور پریشانی پائی جاتی ہے۔
اگر انھیں اس سات کلو میٹر کے فاصلے میں دو تین جگہوں پر سڑک کراس کرنے کی سہولت نہ ملی تو نیکی برباد گناہ لازم والی مثال ہو گی۔ موٹر کاروں ویگنوں رکشوں اور بسوں میں سفر کر کے سڑک پار جانے والوں کو بڑی روہی سے یوٹرن ملے گا یہ مسافروں اور موٹر مالکان پر اضافی مالی بوجھ ہو گا۔ وقت کا ضیاع اس کے علاوہ ہو گا۔میرے اس دوست کا کہنا تھا کہ یہاں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہے ۔ان علاقوں کو کہیں سے آر پار جانے کا راستہ مل جائے تو پھر اس منصوبے کی افادیت کئی گنا مزید بڑھ جائے گی۔