خدارا خیبر پختون خوا پر رحم کیجیے
ترقیاتی منصوبے جس طرح پایہ تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں ان پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں،
جمعہ کو وزیر اعظم نواز شریف دھوم دھڑکے سے سکھر پہنچے اور شاید سی پیک پر بات کم ہی کی مگر عمران خان کو کوستے زیادہ رہے۔بعض دوستوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو ان کی ٹیم درست انداز میں راہ نمائی نہیں کرتی اور جو درجنوں مشیر انھوں نے پال رکھے ہیں وہ مشاورت سے زیادہ اپنے کھابوں میں مصروف ہیں لیکن جب یہ معاملہ ہم مسلم لیگ ن کے بااثر دوستوں کے سامنے رکھتے ہیں تو ان کا مؤقف اس سے یکسر مختلف ہوتا ہے اور جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میاں نواز شریف کسی کی سنتے ہی نہیں وہی کرتے ہیں جو ان کا من بھاتا ہے۔
پاناما لیکس پر جو سونامی پاکستان میں آیا ہے اسے انتہائی تدبر کے ساتھ باہمی مشاورت اور جمہوری انداز میں اپنی روایات اور اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے کسی حد تک حل ضرور کیا جا سکتا تھا۔مگر نجانے میاں نواز شریف اور ان کے وزراء کو کیا ہوا انھوں نے پہلے دو بار قوم سے خطاب کر ڈالا پھر ہنگامی دورے شروع کر دیے، ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کر دیے۔اب یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
شاید اس لیے وہ یہ سب کچھ جلد بازی میں کر رہے ہیں۔اب اگر خیبر پختون خوا کے شہری اپنے محترم وزیر اعظم سے یہ سوال پوچھیں کہ ہمیں عمران خان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر تین سال بعد ہماری یاد آئی تو ان کے پاس کیا جواب ہو گا۔اگر پشاور کے شہری یہ پوچھیں کہ جناب وزیر اعظم آپ کی لڑائی تو عمران خان سے تھی یہ فرمائیے کہ آپ نے تین سال میں پشاور کا کتنی بار دورہ کیا ؟اگر آپ پانامہ لیکس میں مصروف تھے تو آپ کے چہیتے وزراء کی فوج ظفر موج کتنی بار پشاور آئی۔ یہ تو ثابت ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کم از کم اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔
اب رہ گئے پشاور اور خیبر پختون خوا کے شہری تو انھیں وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ دہشت گردی ہو یا دھرنے دونوں ملکی ترقی کا راستہ روکتے ہیں!خود تین سال تک انھیں پشاور اور خیبر پختون خوا پر توجہ دینے کی توفیق نہیں ہوئی، ایک صاحب کو گورنر بنایا وہ چیئرمین سینیٹ بننے کے لیے گورنری چھوڑ کر اسلام آباد چلے گئے۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں لیکن ان کا تذکرہ بعد میں ہو گا، اب دوسرے صاحب کو گورنر بنایا تو اس حوالے سے تفصیل بھی اگلے کالموں میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا،وزراء آتے نہیں البتہ ایک لیڈر امیر مقام اس صوبے کے لیے درد رکھتے ہیں، انھیں وزیر اعظم صاحب نے دو سال سے بغیر محکمہ مشیر بنا رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس صوبے کے لیے کوئی کام نہ کر سکیں۔
اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر امیر مقام نے پاکستان مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے لیے جو کچھ کیا اس کا صلہ کیا ملتا اب امیر مقام خود حسرت و یاس کی تصویر بنے پھرتے ہیں ۔یہ کہانی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی خیبر پختون خوا کے حوالے سے ،کس قدر چاہت ہے دہشت گردی کا شکار رہنے والے اس صوبے سے ان کی ؟وزیر اعظم کی سکھر میں تقریر کے حوالے سے شہری یہ تو پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ دہشت گردی تھی تو آپ نے اس صوبے کے لیے کیا کیا؟ اور دھرنے تھے تب بھی آپ کے پاس موقع تھا کہ اس صوبے کے باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھتے اب رہ گئے جناب عمران خان تو جئیں یا مریں بحالت مجبوری ان پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا حالانکہ بیورو کریسی میں شدید جنگ ہے،وزراء بے بس اور یتیم و مسکین بنے ہوئے ہیں۔
ترقیاتی منصوبے جس طرح پایہ تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں ان پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، کئی بل پاس کرنے کے بعد تواتر سے ان میں ترامیم نے حکومتی مشینری کی سوچ و سمجھ اور تیاریوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے، ایک افسر خود کو عمران خان کے ساتھ جوڑ کر اس صوبے میں جو کچھ کر رہا ہے اس کا سب کو پتہ ہے۔ بعض بیورو کریٹ چیف سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات کی خبریں عام کرکے اسے چیف سیکریٹری بنانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔بینک آف خیبر سکینڈل میں بھی اس کا نام لیا جا رہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ صاحب بھی خاموش ہیں وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کو ناراض نہیں کر سکتے۔
اسی طرح عمران خان سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن پرویز خٹک کو ناراض نہیں کر سکتے۔اب ایک ارب پودے لگانے کا قصہ سامنے آئے گا، سیاحتی میلے لگانے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی باتیں ہوں گی،شعبہ صحت میں قصے کہانیاں سامنے آئیں گی ،تعلیم کے شعبے میں ہونے والے اقدامات کے پس منظر میں حقائق سامنے آئیں گے ،ثقافت کے نام پر کروڑوں روپے لٹانے کی باتیں ہوں گی ایسا لگتا ہے کہ پانامہ پیپرز کسی کو نقصان پہنچائیں یا نہیں خیبر پختون خوا اور اس کے عوام کو ضرور لے ڈوبیں گے۔
مجھے تو اس پر حیرت ہے کہ جب میاں نواز شریف کی سکھر میں تقریر کے بعد عمران خان نے بنی گالا میں جوابی تقریر فرمائی اور اپنی تقریر میں لیڈی ریڈنگ اسپتال کا ذکر کر ڈالا انھوں نے مقامی صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ ان کے ہمراہ اسپتال کا دورہ کریں ،کاش اس کالم میں تصاویر شایع کرنے کی اجازت ہوتی تو شاید صحافیوں کو پشاور آنے کی زحمت گوارا نہ کرنا پڑتی کہ پشاور پیرس تو نہیں بن سکا اسپتالوں کا شہر بن گیا ہے یہاں اسپتال ہی اسپتال ہیںاور مریضوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں جا پہنچی ہے مگر حکومت کے زیر سایہ تین بڑے اسپتالوں کی حالت نہیں بدل سکی اس کا تذکرہ آیندہ کالم میں ہو گا تاکہ وزیر اعظم صاحب اور ان کے وزراء پڑھیں اوراگر اپنی تقریروں میں صرف انھی مسائل کا ذکر کریں تو انھیں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کسی ثبوت کی ضرورت نہ پڑے لیکن خدا کے لیے دونوں اس صوبے پر رحم کریں۔