ا یبٹ آباد آپریشن کیا ڈراما تھا

پاکستان کے ساتھ دھوکے بازی کرنا امریکی حکمران طبقے کا شیوہ رہا ہے۔


عالم اسلام،پاکستان اور پاک فوج کی کردار کشی میں سرگرم  سازشی مغربی میڈیا کے لگائے گئے  الزامات سچ کی کسوٹی پر بے سروپا نکلے…چشم کشا داستان ۔ فوٹو : فائل

سچ کبھی کبھی سات پردوں کے پیچھے مستور ہوجاتا ہے۔ یہ قول ''واقعہ 9/11'' اور''ابیٹ آباد آپریشن'' پرصادق آتا ہے۔ انسانی تاریخ کے یہ دونوں انقلاب انگیز واقعات عجیب و غریب معمّے بن چکے۔ حتی کہ اب بھی وقتاً فوقتاًان معمّوں کے متعلق مغربی خصوصاً امریکی میڈیا دھماکا خیز خبریں دیتا رہتا ہے۔ضروری ہے کہ پاکستانی ان خبروں سے آگاہ رہیں۔عموماً یہ عیاں کرتی ہیں کہ مغربی میڈیا اسلامی ممالک کے خلاف کس منظم اور شاطرانہ انداز میں پروپیگنڈہ کرتا اور خبروں میں جھوٹ کی آمیزش کر دیتا ہے۔ ان خبروں سے آگاہی پا کر اسلامی ممالک کے خصوصاً عام لوگ سّکے کے دوسرے رخ سے آشنا ہوتے ہیںجو پہلے سے مختلف ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر پچھلے دنوں امریکی میڈیا سعودی عرب کے خلاف سرگرم عمل رہا۔امریکی میڈیا نے سعودی شاہی خاندان پر الزام لگایا کہ اس کے بعض ارکان القاعدہ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ چناںچہ انہی کی فراہم کردہ رقم سے القاعدہ اس قابل ہوئی کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا جامع منصوبہ تیار کر سکے۔امریکی میڈیا کے الزامات کی بنیاد امریکی کانگریس کی ایک انکوائری رپورٹ ہے جو دسمبر 2002ء میں مکمل ہوئی۔ تب کے صدر بش نے اس رپورٹ کے 28 صفحات مہر بند کرا دیئے تھے۔ تبھی سے یہ صفحات خواص و عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اوباما حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ 28 صفحات آشکارا کر دیئے جائیں۔جب یہ خبر عام ہوئی تو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اگر 28 صفحات منظر عام پر آئے' تو وہ ا مریکی ڈالر میں محفوظ اپنے اثاثے فروخت کر دیں گے۔ ان اثاثہ جات کی مالیت 750 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔سعودی حکومت کی دھمکی سے عیاں ہے کہ اب سعودیہ امریکا کے دائرہ اثر سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔تاہم مغربی میڈیا اس بیان پہ یہ دھائی دینے لگا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے بعض ارکان القاعدہ سے ہمدری رکھتے تھے اور ممکن ہے ،انہوں نے اسے رقم بھی دی۔ لیکن عالم اسلام میں فلاحی و سماجی تنظیموں کو چندہ دینا عام بات ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ان شہزادے شہزادیوں نے القاعدہ کو فلاحی تنظیم کی حیثیت سے رقم دی ہو گی۔مزید براں بیس پچیس برس قبل کے حالات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہیں جب القاعدہ ظہور پذیر ہوئی۔

تب مقبوضہ کشمیر، فلسطین ،فلپائن اور چیچنیا میں مسلمان بدستور سپرپاورز یا ان کی حمایت یافتہ قوتوں کے ظلم کا شکار تھے۔ بوسنیا و ہرگزوینیا میں سربیا اور روس کی عسکری حمایت سے سرب فوجی مسلمانوں پر قیامت خیز مظالم ڈھا رہے تھے جبکہ پورا مغرب تماشائی بنا ہوا تھا۔ لہٰذا جب افغانستان میں مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست فاش دی' تو القاعدہ سے منسلک مجاہدوں نے فیصلہ کیا کہ دیگر استعماری طاقتوں کے خلاف بھی محاذ کھولا جائے۔ ممکن ہے کہ مغربی استعمار کے خلاف جنگ میں القاعدہ کو سعودی شاہی خاندان کے بعض افراد کی حمایت حاصل ہو گئی۔ آخر یہ مغربی استعمار ہی ہے جس نے ڈیڑھ صدی تک کئی اسلامی ممالک پر قبضہ کیے رکھا اور اب بھی عالم اسلام کو اپنا محکوم بنانے کی خاطر سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔

نیا تنازع
امریکی میڈیا واقعہ 9/11کے سلسلے میں سعودی حکومت کی کردار کشی کر رہا تھا کہ اس معاملے میں پاکستان کو بھی لپیٹ لیا گیا۔مشہور امریکی صحافی 'سیمورہرش نے ایک انٹرویو میں سعودی حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے 2006ء میں پاکستان کو خطیر رقم فراہم کی تھی ۔ مدعا یہ تھا کہ القاعدہ رہنما' اسامہ بن لادن کو نظر بند کر دیا جائے جنھیں بقول سیمورہرش حال ہی میں پاک فوج نے گرفتار کیا تھا۔ یوں واقعہ 9/11 کی تفتیش نے ایک نیا ڈرامائی موڑ اختیار کر لیا۔یاد رہے، برطانوی صحافی،کارلوٹا گال نے سب سے پہلے اپنے مضمون ''What Pakistan Knew About Bin Laden''میں یہ دعوی کیا کہ پاک فوج نے اسامہ کو پکڑ لیا تھا۔یہ مارچ 2014ء میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔سیمورہرش نے اس معاملے کو لے کر پوری کتاب لکھ ماری۔

79 سالہ سیمورہرش متنازع انویسٹی گیٹو امریکی صحافی ہے۔ اب تک دس کتب تحریر کر چکا ۔ عام طور پر اپنی تحقیق کے ذریعے حکومتوں خصوصاً امریکی حکومت کے خفیہ منصوبے ' سرگرمیاں اور معاہدے طشت از بام کرتاہے۔ 1969ء میں ہرش ہی نے ''مائی لائی قتل عام'' کا واقعہ طشت از بام کیا جب ویت نام میں امریکی فوجیوں نے بیسیوں شہری مار ڈالے تھے۔سیمور ہرش کا دعوی ہے کہ وہ سچائی سامنے لاتا ہے۔ مگر اس کے مخالفین اسے شہرت کا بھوکا اور لالچی قرار دیتے ہیں۔ ناقدوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کی بنیاد ''نامعلوم ذرائع '' پر استوار کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہرش کی تحقیق کو ٹھوس قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مزید براں وہ اپنی کتب کی فروخت بڑھانے اور مشہور ہونے کے لیے اپنی تحریر میں مرچ مسالا بھی لگاتا ہے تاکہ نئے اسکینڈل جنم لے سکیں۔

سیمور ہرش یہودی ہے۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے یہ امر بھی ہرش کو مشکوک بنا ڈالتا ہے۔ وجہ یہ کہ بظاہر غیر جانب دار مستشرقین بھی بعض اوقات دین اسلام سے تعصب برتتے اور سچائی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ چناںچہ ممکن ہے کہ مرچ مسالا لگانے کا شوقین ہرش اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب اور پاکستان کے خلاف لکھتے ہوئے اپنی تحریر میں رنگ آمیزی کر دیتا ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیمور ہرش نے بعض مواقع پر امریکی حکومت کے پول کھولے ۔ مثلاً مارچ 2002ء میں ہرش نے انکشاف کیا کہ امریکی ''عقاب'' یعنی ڈک چینی' ڈونالڈ رمز فیلڈ' پال ولفٹز وغیرہ طویل عرصے سے عراق پر حملے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی طرح 1991ء میں ہرش نے یہ امر افشا کیا کہ برطانیہ میں اخبارات و رسائل کا سب سے بڑا ناشر' رابرٹ میکسویل اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ایجنٹ ہے۔ وہ برطانیہ میں اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دیتا تھا۔ لیکن ہرش نے جب اسلامی ممالک کی بابت لکھا' تو اس کے الزامات انتہائی سنگین اور غیر معمولی ہونے کی وجہ سے بچکانہ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پہ وہ پاک افواج کو بدنام کرنے کی خاطر گھٹیا ہتھکنڈے برتنے سے نہیں کتراتا۔

اب ہرش کا یہی الزام دیکھیے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو سرمایہ اور تیل فراہم کیا تاکہ پاک فوج اسامہ بن لادن کو قید میں رکھ سکے۔ سوال یہ ہے کہ بالفرض پاک فوج نے اسامہ کو گرفتار کر بھی لیا' تو سعودی حکومت انہیں زندہ رکھنے پر کیوں مُصر تھی؟ سعودی حکومت اور اسامہ میں تو اینٹ اورکتے کا سا بیر تھا۔

پہلی خلیجی جنگ (1991ء) میں جب امریکی فوج سرزمین عرب پر اتری ' تو اسی وقت اسامہ بن لادن سعودی حکومت کے شدید مخالف بن گئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے سعودی شاہی خاندان کو ''کافر'' اور ''غدار'' قرار دے ڈالا ۔ وجہ یہ بنی کہ بقول اسامہ انہوں نے غیر مسلموں کو گہوارہ اسلام میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ جواب میں سعودی حکومت نے اسامہ کی شہریت ختم کر ڈالی اور ان کے اثاثہ جات بھی ضبط کر لیے۔

1996ء میں اسامہ بن لادن نے ا مریکیوں کے خلاف اپنا پہلا فتوی جاری کیا۔ اس میں انہوں نے سعودی حکومت کو ''امریکی۔ اسرائیلی اتحاد'' کا آلہ کار قرار دیا۔ اسامہ نے یہ بھی لکھا کہ عراقی بچوں کا قتل سعودی خاندان کی گردن پر ہے۔ غرض اسامہ نے عالم اسلام میں سعودی حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہرش کے دعویٰ کی رو سے پاک فوج نے بالفرض اسامہ کو گرفتار بھی کر لیا' تو سعودی خاندان انہیں زندہ کیوں رکھتا؟ الٹا اسے پاک فوج سے اصرار کرنا چاہیے تھا کہ اسامہ کو مار دیا جائے تاکہ سعودی خاندان کا اہم دشمن صفحہ ہستی سے مٹ سکے۔اسامہ زندہ رہتے' تو تلوار بن کر سعودی خاندان کے سروں پر لٹکتے رہتے۔

ہیرو سے متنازع بننے تک
اسامہ بن لادن کاتعلق امیر کبیر یمنی نژاد سعودی خاندان سے تھا۔ جب افغانستان میں افغان روسیوں کے خلاف سرگرم عمل ہوئے' تو وہ ان کی مدد کرنے پاکستان چلے آئے۔انھوں نے پھر اپنے سرمائے کے بل بوتے پر پاکستان و افغانستان میں افغانوں کی فلاح و بہبود کے کام کیے۔ جب افغان جہاد ختم ہوا' تو وہ اس جہادی نظریے سے متاثر ہوئے کہ مسلمانوں نے جہاں جہاں آزادی کی تحریکیں چلا رکھی ہیں' انہیں عسکری و مالی مدد فراہم کی جائے۔ اس نظریے کی حمایت کرنے پر اسامہ کا امریکی استعمار سے ٹکراؤ ہو گیا جو جہادی تنظیموں کی بڑھتی طاقت سے خائف تھا۔

اس دوران عراقی آمر صدام حسین کویت پر چڑھ دوڑا اور سعودی حکومت کو دھمکیاں دینے لگا ۔ سعودی حکومت نے دفاع کی خاطر امریکی فوج بلوا لی ۔ اس اقدام کو اسامہ بن لادن نے پسند نہ کیا اور وہ سعودی حکومت کے بھی مخالف بن بیٹھے۔ اسامہ کی تنظیم' القاعدہ پھر امریکا اور سعودی عرب کی تنصیبات پر حملے کرنے لگی۔ سعودیہ کے حامی اسلامی ممالک نے ان حملوں کی مذمت کی' تو القاعدہ کے نزدیک وہ بھی دشمن قرار پائے۔ انہیں مغرب و امریکا کا پٹھو کہا جانے لگا۔ تاہم اسلامی ممالک کے عوام نے سپر پاورز سے نبرد آزما ہونے پر اسامہ کو بالعموم خراج تحسین پیش کیا اور وہ ان کے ہیرو بن گئے۔

حالات میں انقلابی تبدیلی واقعہ 9/11کے بعد آئی جب مشہور روایت کے مطابق القاعدہ نے امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کر کے تین ہزار شہری مار ڈالے۔ اس سے قبل بھی 1998ء میں القاعدہ ا مریکی سفارت خانوں میں بم مار کر شہریوں کی جانیں لے چکی تھی۔

غیر مسلم شہریوں پر حملے اسلامی جنگی ا صولوں کی خلاف ورزی تھی۔ اس امر نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو کچھ متنازع بنا ڈالا ۔کئی ماہرین کا دعوی ہے کہ واقعہ 9/11 میں امریکی اور اسرائیلی حکومتیں بھی ملوث تھیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس واقعے سے زیادہ نقصان کسے پہنچا؟ ہوا یہ کہ بدلے کی آگ میں جلتا امریکا افغانستان اور پھر عراق پر چڑھ دوڑا۔ رفتہ رفتہ اسلامی جنگجو تنظیموں اور امریکا کے مابین لڑائی اتنی پھیل گئی کہ عالم اسلام کا بڑا حصہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ آج بھی افغانستان' یمن' شام'عراق،مالی،نائجیریا،صومالیہ، لیبیا' مصر' پاکستان وغیرہ اسی لڑائی کے بھیانک نتائج بھگت رہے ہیں۔ اسی لیے بعض اسلامی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اسامہ بن لادن امریکی۔ ا سرائیلی ٹولے کے ایجنٹ تھے جنہوں نے اپنی جنگجویانہ پالیسیوں سے عالم اسلام کو آگ و خون میں نہلا دیا۔

واقعہ 9/11کے بطن سے دو نئے عوامل نے جنم لیا۔ اول یہ کہ جن خطوں میں مسلمان غاصبوں سے آزادی کی جنگیں لڑ رہے تھے' وہ دفعتاً''دہشت گرد'' قرار پائے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر' فلسطین اور فلپائن کے مسلمان! غاصب قوتیں اب کھلے عام انہیں شہید کرنے لگیں اور عالمی رائے عامہ خاموش رہتی ۔ گویا ان مسلمانوں کے ساتھ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والا معاملہ پیش آنے لگا۔ اس عمل سے مسلمانوں کی تحاریک آزادی کو بہت ضعف پہنچا۔دوم عمل نے اول اول مصر میں جنم لیا تھا' مگر وہ افغانستان، پاکستان اور عراق میں پروان چڑھا۔وہ یہ کہ القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیمیں اسلامی ممالک کی حکومتوں اور پھر مخالف شہریوں کو بھی نشانہ بنانے لگیں۔

اس عمل نے ا نہیں جدید دور کے خارجیوں میں بدل ڈالا۔ یوں القاعدہ ،دیگر جہادی تنظیمیں اور ان کے قائدین عالم اسلام میں مزید متنازع ہو گئے۔جب واقعہ 9/11 پیش آیا تب اسامہ افغانستان میں مقیم تھے۔ انتقام کی آگ میں جلتا امریکی حکمران طبقہ سرزمین افغاناں پر چڑھ دوڑا۔ اس کے بعد اسامہ کی داستان حیات معّمہ بن جاتی ہے۔ بعض کا دعویٰ ہے وہ 2002ء میں مرضِ گردہ کا شکار ہو کر چل بسے تھے۔ بعض ان کے انتقال کا سال 2006ء بتاتے ہیں ۔جبکہ عام خیال یہ ہے کہ 2 مئی 2012ء کو ایبٹ آباد آپریشن کے ذریعے وہ مار ڈالے گئے۔

سیمور ہرش کے الزامات
پچھلے سال ماہ مئی میں لندن کے ایک جریدے'' لندن ریویو آف بکس'' میں سیمور ہرش کا طویل مضمون شائع ہوا۔ اس میں ہرش نے حیرت انگیز انکشافات کیے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
یہ اگست 2010ء کی بات ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا ایک اعلیٰ افسر(کرنل) ا مریکی سفارت خانے، اسلام آباد میں داخل ہوا۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی ' سی آئی اے کے مقامی چیف' جوناتھن بینک سے ملنا چاہتا تھا۔ دوران ملاقات اس افسر نے یہ انکشاف کیا کہ اسامہ بن لادن 2006ء سے پاک فوج کی قید میں ہیں اور یہ کہ اسامہ کو ایبٹ آباد کے قریب ایک مقام پر رکھا گیا ہے۔

اس انکشاف کے بعد امریکی حکومت پاک فوج پر دباؤ ڈالنے لگی کہ اسامہ کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر پاک فوج اسامہ کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کو اپنے کنٹرول میں رکھناچاہتی تھی۔ اس لیے وہ انکار کرتی رہی۔ تب امریکا نے دباؤ ڈالنے کے لیے پاکستان کی مالی امداد کم کر دی۔ یہ حیلہ کارگر ثابت ہوا اور پاک فوج کے جرنیلوں' جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سربراہ آئی ایس آئی' جنرل احمد شجاع پاشا نے اسامہ کو امریکا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

منصوبہ یہ تھا کہ دو ہیلی کاپٹروں میں سوار امریکی کمانڈوز افغانستان سے چل کر ایبٹ آباد پہنچیں ۔ راستے میں کوئی پاکستانی طیارہ ان کی راہ نہیں روکے گا۔ امریکی کمانڈوز اسامہ کو مار یا گرفتار کر کے واپس روانہ ہو جائیں گے۔سات دن بعد اوباما حکومت اعلان کرے گی کہ امریکی ڈرون نے ہندوکش کے پہاڑوں میں اسامہ بن لادن کو میزائیل مار کے ہلاک کر دیا۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو یقین دہانی کرائی گئی کہ منصوبے میں پاکستانی مدد کا کوئی چرچا نہیں ہو گا۔ وجہ یہ کہ پاکستانی عوام میں اسامہ خاصے مقبول تھے۔ لہٰذا ان کی ہلاکت میں پاکستانی کرد ار سامنے آ تا' تو پاکستان میں پُرتشدد مظاہرے جنم لے سکتے تھے۔



بعد ازاں امریکا اور پاک فو ج کے مابین یہ طے پایا کہ اسامہ کو زندہ رکھنا فائدے مند نہیں' چناں چہ انہیں ''قتل'' کر دیا جائے۔ یوں 2مئی 2011ء کی ایک رات امریکی کمانڈوز ایبٹ آباد پہنچے اور انہوں نے بوڑھے اور غیر مسلح اسامہ کو آسانی سے مار ڈالا۔منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ کی کوتاہی سے گر گیا ،اس لیے امریکی کمانڈوز کو مزید بیس منٹ وہاں رکنا پڑا۔ انہوں نے اسامہ کے کمپاؤنڈ سے کچھ کتابیں اور کاغذات لیے اور دوسرا ہیلی کاپٹر آنے پر واپس روانہ ہو گئے۔ یوں یہ منصوبہ خیر و خوبی سے انجام پایا۔

پاکستانی جرنیلوں نے اپنے تمام وعدے پورے کر دیئے تھے۔لیکن اوباما حکومت اپنے وعدے سے پھر گئی۔ ایک ہفتہ انتظار کرنے کے بجائے صدر اوباما نے فوراً میڈیا و عوام کے سامنے اسامہ کی موت کا اعلان کر دیا۔ یہ تقریر جھوٹ کا پلندہ تھی۔ اسامہ کو ''دریافت'' کرنے پر سی آئی اے تعریف و ستائش کی مستحق ٹھہری۔ حملہ کرنے والے امریکی کمانڈوز ہیرو بن گئے۔صدر اوباما نے دوران تقریر یہ بھی کہا ''یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ (اسامہ کو ڈھونڈنے کی) ہماری کوششوں میں ہمیں پاکستان کا بھرپور ساتھ حاصل رہا۔ تبھی ہم اسامہ کی رہائش گاہ تک پہنچ پائے۔'' یوں پاکستان کا ذکر کر کے انہوںنے پاکستانی جرنیلوں کو مشکلات میں ڈال دیا۔ صدر اوباما نے انہیں ڈبل کراس کا نشانہ بنایا۔''

غرض سیمور ہرش نے اپنے مضمون میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے امریکی حکومت والے ورژن کی دھجیاں اڑا دیں ۔ امریکا اور پاکستان' دونوں ممالک کی حکومت نے مضمون کو الزامات کا پلندہ قرار دیا۔ تاہم مضمون دنیا بھر میں ہلچل مچانے میں کامیاب رہا۔درج بالا مضمون کی بنیاد پر سیمور ہرش نے '' The Killing of Osama Bin Laden''نامی کتاب بھی تحریر کی جو کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی ہے۔ ہرش اپنے بیان پر اڑا ہوا ہے کہ اسامہ بن لادن پاک فوج کی قید میں تھا اور یہ کہ امریکا نے پاکستانیوں کی معاونت سے اسے بہ آسانی قتل کر ڈالا۔

ہرش کے نظریات کا تنقیدی جائزہ
امریکی و برطانوی صحافیوں کے اس انوکھے الزام کا تنقیدی جائزہ پیش خدمت ہے کہ پاک فوج نے 2006ء میں اسامہ بن لادن کو گرفتار کرلیا تھا۔ کرلوٹا گال، سیمور ہرش اور بقیہ مغربی صحافیوں نے اس الزام کی بنیاد امریکی اور پاکستانی ''سینئر ریٹائرڈ انٹیلی جنس آفیسروں'' کے بیانات پر رکھی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ کسی مغربی صحافی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں تھی کہ ایک بھی ''سینئر ریٹائرڈ انٹیلی جنس آفیسر'' کا نام لکھ سکتا۔ چناںچہ نامعلوم ذرائع سے اخذکردہ معلومات پہلے قدم پہ ہی ان کے الزامات کو مشکوک بنا ڈالتی ہیں۔ ان کی تحریروں کو شاید الف لیلوی داستان کہنا مناسب ہوگا۔

2006ء تک القاعدہ اور اس سے وابستہ سبھی جنگجو تنظیمیں مملکت پاکستان کے خلاف نبردآزما ہوچکی تھیں۔ وہ سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے لگیں۔ مخالف مسلمان شہری بھی ان تنظیموں کے بم اور خودکش حملوں کا شکار ہونے لگے۔اس گھمبیر صورت حال میں پاک فوج اگر اسامہ بن لادن کو گرفتار کرلیتی، تب یہ تو بہت بڑی کامیابی ہوتی۔

اب پاک فوج القاعدہ اور دیگر جنگجو تنظیموں کو مجبور کرسکتی تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ اسامہ بن لادن کی ذات ایسی شمع کے مانند تھی جس کے گرد سبھی پروانے گھوم رہے تھے۔ وہ جدید دور میں مغربی استعمار کے خلاف جہاد کے بانی ہیں اور ان کا سبھی جنگجو تنظیموں میں بہت زیادہ اثرورسوخ تھا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حیران کن طور پر 2006ء سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور القاعدہ و جنگجو تنظیموں کی کارروائیوں میں بے انتہا شدت آگئی۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ بالفرض پاک فوج نے اسامہ بن لادن کو گرفتار کربھی لیا، تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا بلکہ جنگجو بڑھ چڑھ کر پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے لگے۔

2010ء سے اب تک امریکی حکومت وقتاً فوقتاً وہ دستاویزات افشا کرچکی جو ایبٹ آباد میں اسامہ کے گھر سے ملی تھیں۔ ان دستاویزات نے انکشاف کیا ہے کہ اسامہ تا دم مرگ دنیا بھر میں پھیلے القاعدہ رہنماؤں کو ہدایات دیتے رہے۔ گویا ان کا القاعدہ اور دیگر جنگجو تنظیموں کے قائدین سے مسلسل رابطہ تھا۔ اگر وہ پاک فوج کے قبضے میں ہوتے، تو کیا ایسا ہونا ممکن تھا؟ یہ بات تو ظاہر کرتی ہے کہ پاک فوج نے قیدی اسامہ کو اجازت دے دی کہ وہ پاکستان اور دیگر اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں بم حملوں اور خودکش دھماکوں کے منصوبے آزادانہ طور پر بناتے رہیں۔ یہ امر تو پاک فوج کو خدانخواستہ ملک و قوم کا غدار بنا ڈالتا ہے۔



حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن پاک فوج کی قید میں نہیں تھے۔ اگر وہ قیدی ہوتے، تو پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے بڑھنے پر لازماً انہیں ہلاک کردیا جاتا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اسامہ بن لادن کی موت سے یقیناً القاعدہ اور جنگجو تنظیموں کو سخت دھچکا پہنچتا اور پاکستان میں ان کی سرگرمیاں مانند پڑجاتیں۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ 2006ء سے تو پاکستانی سکیورٹی فورسز جنگجوؤں کا خاص نشانہ بن گئیں۔تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں ناکامی پاکستانی انٹیلی جنس مشینری کی کوتاہی ہے۔ مگر اس ناکامی نے کئی عوامل کے باعث جنم لیا۔ ان عوامل کے سامنے اکلوتی سپر پاور بھی بے بس ہوگئی، پاکستان تو پھر خصوصاً سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی پذیر ملک ہے۔

پہلا اہم ترین عمل یہ تھاکہ 2010ء تک پاکستان میں اسامہ کے ہزاروں لاکھوں چاہنے والے موجود تھے۔ یہ پاکستانی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی مدد سے ہی اسامہ کے لیے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونا آسان ہوگیا۔ ذہین و فطین اسامہ نے اپنے قیام کی جگہیں بھی نہایت ہوشیاری سے منتخب کیں۔کس کے وہم و گمان میں آسکتا تھا کہ ارب پتی القاعدہ رہنما فوجی علاقے میں ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں مقیم ہیں؟ ظاہر ہے، انہیں تو کسی دور افتادہ اور غیر معروف جگہ پر مقیم ہونا چاہیے تھا۔

دوسرا اہم عمل یہ کہ 2003ء سے لے کر تاحال القاعدہ اور دیگر جنگجو تنظیموں نے پے در پے حملے کرنے سے پاکستان کا معاشرتی، سیاسی، عسکری اور معاشی ڈھانچا اچھا خاصا ہلا ڈالا۔ ان کی شکل میں پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو ان دیکھے دشمن کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے دوران مقابلہ کئی مشکلات درپیش رہیں۔ ان مشکلات کے باعث پاکستانی سکیورٹی فورسز اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے میں سرگرم رہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت تھا اور نہ توانائی کہ وہ اسامہ بن لادن کی کھوج میں سرگرداں ہوتیں جو نہایت ذہانت سے اپنی چالیں چلتے تھے۔ گو پاکستانی سکیورٹی فورسز القاعدہ کے اہم رہنما ضرور گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئیں ۔

تیسرا اہم عمل یہ کہ اکلوتی سپرپاور، امریکا کے سیٹلائٹ چوبیس گھنٹے زمین پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کی مدد سے امریکا کسی بھی فراری تک پہنچ سکتا ہے۔ جب جاسوسی کا جدید ترین نظام ہوتے ہوئے اکلوتی سپر پاور کئی سال اسامہ تک نہیں پہنچ سکی تو پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کیوں الزام لگایا جاتا ہے جو امریکیوں کے مانند جدید ترین ٹیکنالوجی نہیں رکھتیں؟ بھارتی خفیہ ایجنسیاں کئی برس سے داؤد ابراہیم کے پیچھے پڑی ہوئی ہیںمگر وہ اس کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکیں۔ اسی طرح میکسیکو کا مشہور منشیات فروش، گزمان تو کئی بار ایسی جیلوں سے فرار ہوچکا جہاں سخت ترین پہرا تھا۔ غرض اسامہ کو گرفتار کرنے میں ناکامی نے کئی اہم عوامل کے بطن سے جنم لیا۔

امریکا کی دھوکے بازی
حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے کی دھوکے بازی اور عیاری چھپانے کے لیے مغربی میڈیا پاک فوج اور پاکستانی جرنیلوں پر حملہ آور ہوا۔ مدعا یہ ہے کہ اپنا جرم اور گناہ چھپا کر پاک فوج کو معتوب کیا جائے جس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔سچ یہ ہے کہ امریکی اسامہ بن لادن کے پیغام بروں کے ذریعے ہی ان تک پہنچے۔ تاہم امریکیوں نے یہ خبر پاکستانی حکومت سے چھپائی اور خفیہ طور پر اسامہ کے گھر کی نگرانی کرنے لگے۔ انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے اسامہ کی جاسوسی کرائی۔ جب یقین ہوگیا کہ اس گھر میں اسامہ ہی مقیم ہیں تو انہیں زندہ یا مردہ لانے کا خفیہ منصوبہ تیار ہوگیا۔

گزشتہ چند برس سے افغانستان سے امریکی ہیلی کاپٹر و طیارے پاکستان آجارہے تھے۔ یہ اڑن پرندے افغان طالبان ، القاعدہ رہنماؤں اور کارکنوں کی تلاش میں ہوتے۔ ان کی پرواز معمول کی بات تھی۔ حکومت پاکستان نے تو امریکیوں کو اپنی سرزمین سے ڈرون اڑانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہ پڑھ کر قدرتاً بحیثیت پاکستانی صدمہ پہنچتا ہے۔ مگر اب یہ جان کر صدمے کی شدت خاصی کم ہوجاتی ہے کہ امریکی ڈرون و ہیلی کاپٹر بالعموم ان لوگوں کو نشانہ بناتے جو اپنی سمت کھو بیٹھے تھے۔ مغربی استعمار کا مقابلہ کرنے کے بجائے اب وہ اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو خاک و خون میں نہلا رہے تھے۔

چناںچہ اواخر جون 2011ء میں افغانستان سے پاکستانی حکومت کو یہ پیغام موصول ہوا کہ چند امریکی ہیلی کاپٹر یکم مئی کی رات اپنے ''ٹارگٹ'' کی تلاش میں پاکستانی سرزمین میں داخل ہوں گے۔ یہ پیغام حسب معمول پاک افواج کو بھجوایا دیا گیا تاکہ ملکی ریڈار پر مامور عملہ امریکی ہیلی کاپٹروں کی آمد سے باخبر رہے۔



یکم مئی کو ویسے بھی قومی تعطیل تھی اور پاک افواج سمیت سبھی پاکستانیوں نے آرام یا تفریح کرتے چھٹی گزاری۔ اب رات کو سبھی بے فکری کے عالم میں تھے۔یہ تھے وہ حالات جب رات ایک بجے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس امریکی ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد پہنچے اور صرف پون گھنٹے میں بڑے آرام سے اپنا کام کرگئے۔ اگر وہ پاکستانی ریڈاروں پر آئے بھی، تو ان کی آمد سے باخبر پاکستانی عملے نے انہیں گھاس تک نہ ڈالی۔ یہ ساری کارروائی بہت آسانی سے انجام پائی کیونکہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ امریکی حکومت انہیں اتنا بڑا دھوکا دے گی۔

بوڑھے اسامہ بن لادن کو بہت کم مزاحمت کے بعد مار دیا گیا۔ مگر امریکی حکومت نے اس آپریشن کو نہایت عظیم الشان، دشوار گزار اور کٹھن بناکر پیش کیا۔ آپریشن میں شریک امریکی کمانڈو ''سپرمین'' قرار پائے جنہوں نے کئی مشکلات برداشت کرکے ناقابل یقین کارنامہ انجام دیا۔امریکی میڈیا آپریشن میں شریک شخصیات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگا۔امریکی صدر نے قوم کے نام خطاب میں ''آپریشن نیپچون سٹار'' کو اپنی حکومت کا لازوال کارنامہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ پاکستان کے تعاون سے انجام پایا۔ بات یہیں تک رہتی، تو مناسب تھا۔ مگر جلد ہی مغربی میڈیا پاکستان اور پاک فوج کے پیچھے پڑگیا۔ پاکستان کو ''دہشت گردوں کا مسکن'' کہا جانے لگا جن کی پاک فوج حمایت کرتی ہے۔ غرض ایسے بے سروپا الزامات کا طومار بندھ گیا کہ خدا کی پناہ!

پاکستان کے ساتھ دھوکے بازی کرنا امریکی حکمران طبقے کا شیوہ رہا ہے۔ جنگ ستمبر میں اس نے ہماری عسکری امداد روک دی تھی۔ جنگ 1971ء میں ہم امریکی بیڑے کی آمد کا انتظار کرتے کرتے رہ گئے۔ اب حال ہی میں ایف۔16 دینے سے انکار کرکے اس نے ہماری پیٹھ میں نیا چھرا گھونپ دیا۔ امریکی حکمران طبقے کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں شامل ہوکر پاکستان کو کیا ملا؟... ہزارہا فوجیوں اور شہری شہدا کی لاشیں، کھربوں روپے کا نقصان اور یہ تہمت کہ پاکستان دہشت گردوں کا مسکن بن چکا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں