اِن ہاؤس تبدیلی کا امکان ہےنہ ہی مارشل لاء آئے گا عارف نظامی

ترقیاتی منصوبوں کی باگ ڈور سے کچھ فائدہ نہیں،فوج سے اختلافات بات چیت سے طے کرنا ہوں گے


نظریۂ پاکستان ٹرسٹ مہنگی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے ہے، ممتاز صحافی،تجزیہ کار اور کالم نویس عارف نظامی سے مکالمہ فوٹو : فائل

شعبۂ صحافت جہاں ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، وہیں اسے لوگوں کی ذہنی تربیت کا امتیاز بھی حاصل ہے اور اسی نسبت سے صحافی معاشرے کا موثر طبقہ شمار ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ اپنے پیشے کے تقدس کو برقرار رکھیں۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو یہاں کبھی حاکم وقت اورکبھی خود صحافی نے صحافت کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری طرف اس شعبہ کی خوش بختی یہ رہی کہ اسے ہردورمیں مشنری جذبہ سے سرشار کچھ ایسے لوگ میسر رہے، جنہوں نے صحافت پر ہونے والے ہر وار کو اپنے سینے پر سہا، لیکن اسے حکمرانوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔

ان لوگوں نے صحافت کے وقار کو قائم و دائم ہی نہیں رکھا بلکہ اس شعبہ کی ترقی کے لئے جدید رجحانات بھی متعارف کرائے، ایسے ہی لوگوں میں سے ایک نام معروف صحافی عارف نظامی کا بھی ہے، جنہوں نے شعبہ صحافت میں ہمیشہ جرات مندی اور سچائی کا علم اٹھائے رکھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے رفیق اور پاکستان میں شعبہ صحافت کے بانیان میں شامل مرحوم حمید نظامی کے فرزند عارف نظامی کئی عشرے 'دی نیشن'کے ایڈیٹر رہے تاہم چچا مجید نظامی سے اختلافات پر مستعفی ہوئے تو 'پاکستان ٹوڈے'کے نام سے اپنا انگریزی اخبار نکال لیا۔ شعبہ صحافت میں ایک اتھارٹی سمجھے جانے والے سینئر صحافی کی صلاحیتوں کے سبھی معترف ہیں۔

ان کا شمار ان گنے چنے صحافیوں میں بھی ہوتا ہے، جو حکومتی عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت سے قبل بننے والی عبوری حکومت میں وہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات تھے۔ ''ایکسپریس'' نے صحافتی اور سیاسی حوالے سے سینئر صحافی، معروف تجزیہ کار و کالم نویس عارف نظامی سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس:آپ صحافت کی تقریبا سبھی اصناف کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ ہمارے قارئین کو اختصار کے ساتھ اپنے صحافتی سفر کے بارے میں بتائیے؟
عارف نظامی :میںنے 1972ء میں اپنے باقاعدہ صحافتی کرئیر کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے نوائے وقت کے پریس میں کام کرتارہا۔نوائے وقت میں بطور رپورٹر بھرتی ہوا تھا۔لاہور کارپوریشن،سٹی اور پنجاب اسمبلی میری بیٹ ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد میںنوائے وقت کا ڈپٹی ایڈیٹر اورپھرایگزیکٹو ایڈیٹر بنا۔ میرے والد صاحب حمید نظامی مرحوم جو نوائے وقت کے بانی ہیں، ان کی خواہش تھی کہ انگریزی اخبار بھی نکالا جائے۔

اس کے لیے انہوں نے پریس بھی لگایا اور ضروری سامان بھی منگوایا لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ 1962ء میں ان کے انتقال کے بعد نوائے وقت شدید قسم کے مالی بحران کاشکار ہو گیاتھا جس کی وجہ سے انگریزی اخبار نکالنے کا پروگرام مؤخر کرنا پڑا۔اس وقت پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس کی موجودگی میں ڈیکلریشن کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ پھر بہت بعد میں جونیجودور میں ، میں نے ڈیکلیریشن کے لیے درخواست دی۔ اس وقت نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے ریکمنڈ کر کے میری درخواست آگے بھیج دی تھی۔

میں اس سلسلے میں حامد ناصر چٹھہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ اتنے معمولی کام کے لیے آئے ہیںاور ڈیکلیریشن جاری کر دیا۔یہ اکتوبر1986ء کی بات ہے۔ 'دی نیشن' لاہور کا پہلا انگریزی اخبار تھا۔اس کا پورا کانسیپٹ ، اس کی لے آؤٹ سب کچھ میری ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ میں نے اپنی ٹیم بھی خود بنائی ۔میرے ما س کمیونیکیشن کے استاد احمد عزیز ضیاء صاحب ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔ اس زمانے میں انگریزی اخباروں میں ایڈیٹوریل کا صرف ایک صفحہ ہوتا تھا۔ایڈیٹوریل کارٹون نہیں ہوتا تھا۔ ایڈیٹوریل پیج کے سامنے والا صفحہ بھی میں نے شروع کیا۔ پھر نوائے وقت چھوڑنے کے بعد میں نے پاکستان ٹوڈے شروع کیا اور اب اس کا ایڈیٹر ہوں۔

ایکسپریس:انگریزی اخبار کا تجربہ کیسا رہا اوراردو اور انگریزی صحافت میں اثر پذیری(Impact) کے اعتبار سے کسے آگے دیکھتے ہیں؟
عارف نظامی :میں نے جب انگریزی اخبار نکالا تو مجھے احساس ہوا کہ بہت سارے لوگ اس میں لکھنے کے لیے مشتاق ہیں۔آج کے کئی بڑے بڑے ناموں نے یہیں سے لکھناشروع کیا۔اکرام سہگل صاحب لکھاری نہیں تھے، میںانہیں لکھنے لکھانے کی جانب لایا۔نسیم زہرہ نے میرے اخبار سے لکھنا شروع کیا ۔ اس طرح کے درجنوں نام میں گنوا سکتا ہوں۔ جب میں نے اخبار نکالا تو اس وقت لاہور میں صرف ایک انگریزی ا خبارپاکستان ٹائمز تھا۔ دوسرے یہ کہ نوائے وقت کی پالیسی مکمل طورپر دائیں بازوسے منسلک تھی۔ انگریزی اخبار کا مزاج یہ ہے کہ وہ قدرے لبرل زبان اور پالیسی سے چلتا ہے۔ اس زمانے کے نمایاں لبرل صحافی نوائے وقت گروپ کی وجہ سے شروع میں اس میں لکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

جہاں تک سرکولیشن کی بات ہے تو ظاہر ہے اردو اخبار اشاعت میں آگے ہیں اور رائے عامہ میں بھی وہی زیادہ مؤثر ہیں۔ انگریزی اخبارات کی پالیسی لبرل ہے اور سرکولیشن محدود ہے لیکن چونکہ ان کی رسائی عالمی سطح تک ہوتی ہے اور اب ویب سائٹس کی وجہ سے یہ دائرہ مزید وسعت اختیار کر گیا ہے۔ انگریزی اخبارکا اثر ایک اور انداز سے سامنے آتا ہے۔ فیصلہ ساز حلقے اور بزنس لیڈرز انگریزی اخبار پڑھتے ہیں۔ اردواخباروں میں سرکولیشن اشتہارات لینے کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے جبکہ انگریزی اخباروں میں سرکولیشن کے علاوہ بھی کئی چیزیں اہم ہوتی ہیں۔

ایکسپریس:جب آپ 'دی نیشن 'کے ایڈیٹر تھے تو واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ دونوں کے مواد اور مزاج میں واضح فرق ہے۔ یہ پالیسی کا اختلاف تھا یا پھر چچا اور بھتیجے کی فکر کا؟
عارف نظامی :اس کی کئی وجوہات ہیں اور اس لبرل پالیسی کی وجہ سے میں بعد میں بہت سی مشکلات کا شکار بھی ہوا۔ میں نے ورکنگ پیر لکھا تھاکہ انگریزی اخبار لبرل ہونا چاہئے۔ اس وقت خالد احمد میرے اخبار کے جائنٹ ایڈیٹر تھے۔ محمد مالک بھی میرے پاس رپورٹر رہے ہیں۔ انجم ابراہیم جو آج کل اسلام آباد میں شاید بزنس ریکارڈر کی ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں، وہ بھی ہمارے ساتھ کام کرتیں تھیں۔اخبار کی پالیسی کا ایک حد تک تعلق میرے میلان طبع سے بھی تھا کیونکہ میں نسبتاً ایک لبرل آدمی ہوں۔نوائے وقت میں مجھ پر یہ لیبل لگایا جاتا تھا کہ میں پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہوں اور میں لیفٹسٹ ہوں۔
مجید نظامی صاحب ایک بڑے ہی جغادری قسم کے بزنس مین تھے۔

انہوں نے نظریے کو بھی ایک بزنس بنایا ہوا تھا( اب یہ معلوم نہیں بنایا ہوا تھا یا بن گیا تھا) حتٰی کہ 'جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے' بھی ان کا ایک سیلنگ پوائنٹ تھا۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے دائیں بازو کی لیڈر شپ کو قابو کیا۔اگر ہم' دی نیشن' کو قدامت پسند اخبار بناتے تو وہ بالکل پٹ جاتا۔ یہی بات جو آپ نے مجھے کہی ،یہ بات جب لوگ مجید نظامی صاحب کو کہتے تو وہ بہت چڑ جاتے تھے۔

انہوں نے کئی بار اس پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی اورکہا کہ ایڈیٹوریل پہلے مجھے دکھایا کریں ۔ وہ اخبار کے بعض لکھنے والوں پر بھی اعتراض کرتے تھے۔ایک بزنس مین ہونے کے علاوہ ان کا مثبت پہلو یہ تھا کہ وہ پروفیشنلی صحافی تو تھے ہی ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کاروباری نقطہء نظر سے اخبار کے لیے ٹھیک ہے، لیکن بعد میں میرے لیے حالات ایسے ہوئے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ کیا کروں۔اس زمانے میں بہت سی خبریںمیں نے بریک کیں مثلاً بے نظیر کی حکومت ٹوٹنے کی خبرسب سے پہلے میں نے دی تھی۔

ایکسپریس:عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے اپنی کتاب'فرزند پاکستان' میں لکھا کہ مجید نظامی کے شریف فیملی کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات تھے لیکن آپ کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ آپ کی شریف فیملی سے نہیں بنتی، آپ پیپلز پارٹی کے زیادہ قریب ہیں۔ آپ کا اپنا خیال کیا ہے؟
عارف نظامی :میں تو ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو نہیں جانتا تھا۔ جب بھٹو اُبھر رہے تھے اس زمانے میں ، میں میدان صحافت میں نوارد تھا۔1967ء میں ڈاکٹر مبشر کے گھر پیپلز پارٹی بنی تو میں وہاں ایک طالبعلم کی حیثیت سے موجود تھا لیکن میں پیپلز پارٹی کا ممبر قطعی طور پر نہیں تھا۔ یقینا مجھے بھٹو صاحب کی شخصیت نے متاثر کیا لیکن میرے والد صاحب کے افکار کی روشنی میں مجھے جو صحافتی تربیت ملی وہ یہ تھی کہ صحافت کو کسی جماعت یا گروہ کا فریق نہیں ہونا چاہئے۔ آج کل تو یہ عام سی بات بن چکی ہے۔

بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی میرا ''نوائے وقت'' سے اختلاف رائے تھااگرچہ اس وقت میں نوائے وقت میں کام نہیں کرتا تھا۔ نوائے وقت مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی بہت حمایت کرتا تھا اور اس زمانے میں نوائے وقت کی پہچان بھٹومخالف اخبار کے طور پر ہونے لگی تھی۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بھٹو صاحب کو نوائے وقت ہی نے لانچ کیا تھا۔بھٹو کا پہلا جلسہ وائی ایم سی ہال میں ہوا تھا۔ وہ مجید نظامی صاحب ہی نے کروایا تھا اور بھٹو صاحب اس کے مہمان خصوصی تھے۔ اس وقت اتنا ہجوم تھا کہ بھٹو صاحب کو سیڑھی لگا کر اوپر لے جانا پڑا۔1965 ء کی جنگ کے بعد ہونے والے تاشقند معاہدے کے بعد بھٹو صاحب سامنے آئے اور پھر نوائے وقت ان کا مخالف ہوگیا۔

جب بھٹو کی حکومت آئی تو مجید نظامی صاحب نے مجھے آگے کر دیا۔ میں اس وقت نیا نیا امریکہ سے آیا تھا۔ مجھے یونائیٹڈ نیشن کارسپانڈنٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے اسکالر شپ ملی تھی۔ میں جب امریکا سے واپس آیا تو بھٹو صاحب وزیراعظم تھے۔وہ ہر دورے پر مجھے ساتھ لے جاتے تھے۔اس طرح میرا ان کے ساتھ ایک اچھا تعلق بن گیا لیکن میں ان کا ورکر ہرگزنہیں تھا۔ جس دن بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو میں کراچی میں تھا اور میں نے مجید نظامی صاحب کو تحریر بھیجی کہ اب ہماری ضیاء الحق کے ساتھ کمٹمنٹ ختم ہو جانی چاہیے ، اب ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس پر انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہماری تو ضیاء الحق کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے۔میں نے جواب دیا کہ میری مراد نظریاتی کمٹمنٹ ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرے وجود سے کسی حد تک فرق ضرور پڑا تھا۔ 80 کی دہائی میں چلنے والی ایم آر ڈی کی تحریک کا نوائے وقت نے ساتھ دیا تھا اور ضیاء الحق مجید نظامی سے ناراض ہوگئے تھے حالانکہ ان کی آپس میں بڑی دوستی تھی۔ پھر ضیاء الحق سے میں زیادہ قریب ہو گیا اور وہ دور ہوگئے ،یہ ستم طریفی ہے۔

جہاں تک شریف فیملی کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ بھی میرے اچھے مراسم ہیں۔ جب میں ان کے زیادہ قریب ہو جاتا تھا تو نظامی صاحب اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ شریف فیملی مجید نظامی صاحب کی ناراضی کے اندیشے کے زیر اثر مجھ سے فاصلہ رکھتی تھی۔ میرے اب بھی ان دونوں بھائیوں(نوازوشہباز شریف) سے اچھے تعلقات ہیں لیکن اس طرح کے بالکل نہیں ہیں جس طرح آج کل بعض صحافی ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس:مجید نظامی حکومتوں کے خلاف شمشیر برہنہ بنے رہتے تھے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے اشتہارات لینے کے لیے وہ آپ ہی کو بھیجا کرتے تھے۔ کیا یہ حقیقت ہے؟
عارف نظامی :یہ سو فی صد درست بات ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی بہت بڑا صنعت کار کہے کہ میں نے آج تک رشوت نہیں لی اور اس نے دیگر لوگ رشوت لینے کے لیے رکھے ہوں۔ماضی کا تو مجھے نہیں پتہ شاید انہوں نے ایوب خان کو للکارہ ہو لیکن دو ادوار کے بارے میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ایک بے نظیر بھٹو اوردوسرے مشرف کا دور۔ مشرف کے دور میں دو دفعہ اشتہار بند ہوئے ۔ایک بار مشاہد حسین سید کے گھر میٹنگ ہوئی جس میں چوہدری شجاعت نے مجید نظامی صاحب کو کہا کہ اگر آپ عارف صاحب کو مینڈیٹ دے دیں ہم ان کے ساتھ اشتہارات کی بات کر لیں گے۔ اس میٹنگ میں شوکت عزیز بھی موجود تھے۔

مجید نظامی صاحب نے انکار کر دیا لیکن عملی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ انہوں نے مجھے مشرف صاحب سے مذاکرات کے لیے بھیجا تھا، اس میٹنگ میں چوہدری پرویز الٰہی بھی موجود تھے جن کی اپنی بھی نوائے وقت سے ناراضی تھی ۔ مشرف کا اشتہار بند کرنا ناجائز تھا کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ شہباز شریف آرہے ہیں ، ان کا اشتہار نہ لگائیں۔میں نے لگا دیا تھا۔

پھر ایک بار زرداری صاحب نے واپس آنے کی کوشش کی تو ان کا اشتہار لگایا تو پھراشتہار بند ہوگئے اور بعد میں کھل بھی گئے۔ مجید نظامی صاحب نے مجھ سے یہ پوچھا کہ میں مشرف کے ساتھ کتنی بار ملا ہوں اورنہ ہی اشتہار کھلنے پر اعتراض کیا۔ وہ باقی دنیا کو تو جمہوریت کا سبق دیتے تھے لیکن اپنے ادارے میں وہ آمر مطلق تھے۔اگر میں نے ان کی حکم عدولی کی تھی تو وہ مجھے اسی وقت فارغ کر دیتے گو کہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔

ایکسپریس:نوائے وقت سے علیحدگی اچانک ہوئی یا یہ لاوا طویل عرصہ پکنے کے بعد پھٹا تھا؟
عارف نظامی :میں نے بہت صبر کیا۔ مجید نظامی صاحب کی بیوی کے رشتہ دار ان کی لے پالک بیٹی کو وارث بنانا چاہتے تھے۔جب وہ اس قابل ہو گئی تو انہوں نے مجھے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا۔ میرا ان کے ساتھ دو تین چیزوں میں مسئلہ تھا۔ ان کا ایک المیہ یہ تھا کہ وہ اپنے تئیں خود کو بڑا آدمی کہتے تھے اور یقیناً وہ صحافت میں سینئر ترین آدمی تھے۔میں بھی ان کا بڑا احترام کرتا تھا اوراب بھی کرتا ہوں ۔ میں نے کبھی زندگی میں حتیٰ کہ ادارہ چھوڑنے کے بعد بھی تمام تر زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی، نہ ہی اونچی آواز میںان کے ساتھ بات کی۔

انہوں نے اگر توہین آمیر رویہ بھی اختیار کیا تو میں نے برداشت کیا۔ ان کے مجھ پر احسانات بھی ہیں کہ میںنے اس ماحول میں کام سیکھا۔ان کی عجیب قسم کی شخصیت تھی ۔ انہیں روز اُٹھ کر خود کو یہ باور کرانا پڑتا تھا کہ 'میں بہت بڑا آدمی ہوں'۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے نوائے وقت میں چھپنے والے کالموں کی ابتداء ان کی مدح سرائی سے ہوتی تھی۔ پھر لاہور میں ایک حمید نظامی روڈ تھا، مجید نظامی صاحب نے اسی سے ملحق ایک سڑک کا نام مجید نظامی کروا دیا تھاحالانکہ زندہ لوگوں کے نام پر توسڑکیں نہیں ہوتیں ۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو ڈاکٹر مجید نظامی کہلوانا شروع کر دیا حالانکہ وہ ایک اعزازی ڈگری ہوتی ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی اور نہ ہی ان کا کوئی مطالعہ تھا۔ وہ بڑے خوش قسمت آدمی تھے، اللہ نے ان کو بہت عزت دی ۔اللہ ان کو جنت نصیب کرے۔

ان کو ایک اور مسئلہ بھی ہو گیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ تم بہت بڑے بڑے کاروباری لوگوں، سیاست دانوں اور جرنیلوں سے کیوں ملتے ہو۔انہیں یہ بات کھلنے لگی کہ عارف کے تو بہت زیادہ رابطے ہیں۔مجھے سفیر بھی ملنے آتے تھے۔ میں نے آپ کو شروع میں بتایا کہ انگریزی اخبار کا ایک اپنا ایمپیکٹ ہوتا ہے۔پھر شخصیت بھی ایسی تھی کہ وہ لوگ میرے ساتھ میل جول میں راحت محسوس کرتے تھے، کوئی تناؤ کی کیفیت نہیں ہوتی تھی۔جنرل کیانی کی مجھ سے بہت اچھی دوستی تھی ۔ آرمی چیف بننے کے بعدایک دن مجھے ان کا فون آیا اورکسی ادارتی مواد پر انہوں نے دوستانہ گلہ کیا۔ کہنے لگے نظامی صاحب آپ ملتے نہیں۔ میں نے کہا اب آپ چیف بن گئے ہیں ہمارا کیا کام آپ سے۔ انہوں نے کہا نہیں آپ ضرور ملنے آئیے۔

پھر ایک دو دن بعد ان کے اے ڈی سی کا فون آیا۔ میری یہ عادت تھی کہ میں مجید نظامی صاحب کو ضرور بتاتا تھا کہ میں فلاں آدمی سے ملنے جا رہا ہوں اور یہ ملاقات بھی ان کی اجازت سے تھی ۔ جب میں مل کر واپس آیا تو انہیں ہر چیز کے بارے میں بتایا۔پھر وہ ایک دم سے پھٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ایڈیٹروں کا کیا کام کہ وہ جرنیلوں سے ملیں۔ میں نے کہا کہ میں تو آپ کو بتا کر گیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ان سے ٹائم نہیں مانگا تھا بلکہ وہ تو خود مجھے بلا رہے تھے۔ خیر بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ خود بھی جنرل کیانی سے ملنا چاہ رہے تھے مگر انہیں ٹائم نہیں مل رہا تھا۔ یہ ایک قسم کا حسد تھا۔

اس کے علاوہ ان کے آس پاس لوگ بھی ان کے کان بھرتے تھے۔ خاص طور پر یہ جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے، یہ ایک فراڈ ہے ، جس نے لاہور کی پرائم پراپرٹی پر قبضہ کرنے کے سوا ٹکے کا کام نہیں کیا۔ ٹرسٹ کے لوگ ان کے کان بھرتے تھے۔

وہ کہتے تھے کہ 'مجید نظامی صاحب آپ ہی سب کچھ ہیں، عارف صاحب تو بس ایسے ہی ہیں'۔مجید نظامی صاحب نے ایک دن مجھے بلا کر کہا کہ تم جو کچھ بھی ہو میری وجہ سے ہو۔ تم چار دفعہ سی پی این ای کے صدر میری وجہ سے بنے ہو۔دو دفعہ اے پی این ایس کے صدر بھی میری وجہ سے بنے ہو۔ تم میرے بغیر کچھ بھی نہیںہو۔ میں نے اس پر بھی کوئی بات نہیں کی لیکن اس رویے نے مجھے تحریک ضرور دی کہ کیا میں واقعی بطور صحافی اپنی ذات میں کچھ نہیںہوں۔ میں نے یہ ثابت کرنے کے لیے لکھنا بھی شروع کیا، اخبار بھی نکالا اور یہ پروگرام بھی شروع کیا۔ اللہ کا فضل ہے کہ میں مالی لحاظ سے بھی بہت سُکھی ہوں اور اپنے نظریات کے مطابق کام کرتا ہوں۔

ایکسپریس: بی بی بے نظیر شہید کے ساتھ آپ کا بڑا خوشگوار تعلق تھا۔ ان کے متعلق کچھ بتائیے؟
عارف نظامی:جی، بالکل میرا تو زرداری صاحب کے ساتھ بھی بہت اچھا تعلق ہے۔ بے نظیر بھٹو ذاتی طور پر بہت محنتی خاتون تھیں۔میں ان کی جلا وطنی کی دور میں لندن اور امریکا میں انہیں کئی بار ملا ہوں ۔اکیلے بیٹھ کر وہ ساری پارٹی کے معاملات چلاتی تھیں ، بلاول وغیرہ کو ٹویشن دے رہی ہیں ۔انہیں قرآن پڑھانے کے لیے آدمی رکھا ہوا ہے۔ جس دن ان کی حکومت ختم ہوئی اس کے بعد بھی انہیں دیکھا۔

جب وہ الیکشن ہاری ہیں، تب دیکھا ہے۔زرداری صاحب جب جیل میں تھے تب دیکھا ہے۔ جب ان کے بھائیوں کا انتقال ہوا اس وقت بھی دیکھا۔حالات کی وجہ سے انسان میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے لیکن انہوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ دلیری کا حال یہ تھا کی میں جب اٹھارہ اکتوبر کے واقعے کے بعد ان سے ملا تو ان کا رویہ معمول کے مطابق تھا۔ پنڈی جلسے سے پہلے ڈی جی، ایم آئی ندیم تاج انہیںکہتا رہا کہ آپ کو خطرہ ہے،آپ مت جائیں لیکن وہ گئیں۔

ایکسپریس:جنرل راحیل نے جب سے فوج کے کمان سنبھالی ہے تو یہ تأثر مضبوط ہوا کہ اب فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں ۔ کیا فوج کے سربراہ کے حالیہ بیانات کے بعد یہ تاثر برقرار ہے؟
عارف نظامی:یہ درست ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان کافی خلا پیدا ہو چکا ہے۔فوج کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف بھارت کے بہت قریب ہیں۔ انہوں نے کلبھوشن یادیو کے معاملے میں زیادہ شور نہیں مچایا۔ فوج کا یہ بھی خیال ہے کہ نواز شریف کے بعض ساتھی فوج کے بارے میں نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ پھر فوج کا اپنا مائنڈ سیٹ ہوتا ہے ،وہ سویلین کو اِن کمپیٹنٹ(نااہل) سمجھتے ہیں۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ پنجاب آپریشن میں فوج نے ہم پر بے جا قسم کا دباؤ ڈالا ہے۔دوسرا خارجہ پالیسی میں فوج کی بہت مداخلت ہے ۔

تیسرے یہ کہ آرمی چیف نے کرپشن کے بارے میں جو بیان جاری کیا اس کا روئے سخن ان کی طرف تھا کیونکہ یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا جب اپوزیشن پانامہ لیکس کو لیکرسراپا احتجاج ہے اور مزید دباؤ ڈالنے کے لیے انہوں نے فوج کے چھ لوگوں سزائیں سُنا دیں۔یقیناً تناؤ ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک مہینے میں آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی حالانکہ آج کل افغانستان کے معاملات توجہ طلب ہیں، امریکا کی جانب سے ایف سولہ طیاروں کی ترسیل روکنے کا فیصلہ بھی اہم ہے،ضرورت تو ہے کہ وہ ایک پیج پر ہوں۔

اس سب کے باوجود میرا نہیں خیال کہ فوج ٹیک اوور کرنا چاہتی ہے اوراسے اس کا کوئی فائدہ ہے۔اگر کیانی ڈاکٹرائن کے مطابق سویلین کو ویسے ہی اتنا دباؤ میں رکھنا ہے اور ان سے سب کچھ منوا لینا ہے تو پھر فوج کوحکومت کر کے بدنامی اپنے سر لینے کی کیا ضرورت ہے۔اس وقت تو پھر بھی میمو گیٹ تھا، سلالہ سانحہ ہوا، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا۔اُس وقت کافی تناؤ تھا۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر فوج کا کوئی ایجنڈا ہے بھی تو سیاست دانوں نے بھی آج تک نہ تو گورننس کی کوئی اچھی مثال قائم کی اور نہ ہی ادارہ جاتی سطح پر شفافیت کا کوئی اہتمام کیا ہے ۔ یہاں تو کیفیت کچھ یوں ہے کہ '' کُج شہر دے لوک وی ظالم سن، کُج سانوں مرن دا شوق وی سی'' مختصر یہ کہ فوج کا مائنڈ سیٹ تو ہے ہی کہ ہم بہتر کام کر سکتے ہیں اور جنرل راحیل شریف کو میسج دینا بہت اچھے طریقے سے آتا ہے۔

ایکسپریس: آپ کا تجزیہ کیا ہے کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے یا نہیں؟
عارف نظامی:میرا خیال ہے زیادہ سے زیادہ کسی وقت میاں نواز شریف خود ہی الیکشن کا اعلان نہ کردیں ۔مجھے نہ تو کوئی اِن ہاؤس تبدیلی نظر آتی ہے اور نہ ہی فوج کی چڑھائی۔ فوج ٹیک اور کر کے کیا کر لے گی۔وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ اب بھی کر رہے ہیں ۔

ایکسپریس: فوجی جرنیلوں سے میاں نواز شریف کی ٹھنی ہی رہتی ہے اور ان کا یہی معاملہ دیگر سیاست دانوں کے ساتھ بھی ہے ۔کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
عارف نظامی:یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ میاں صاحب کی ایک مخصوص طبع ہے، آپ نے آرمی چیف کی بات کی، میں یہ کہتا ہوں کہ ان کی بنتی کس کے ساتھ ہے؟ اب وزیراعظم بنے تو ان کو زرداری صاحب نے فرینڈلی اپوزیشن فراہم کی ۔ 2014ء میں زرداری صاحب کو استعمال کیا اور اس کے بعد یہ جا اور وہ جا۔ اب جب وزیراعظم باہر گئے ہیں تو ان کے ایجنڈے میں زرداری صاحب سے ملنا شامل تھا، جس پر زرداری صاحب ہوٹل ہی چھوڑ کر چلے گئے کہ کہیں ملنا نہ پڑ جائے۔

چوہدری برادران کو دیکھ لیں، چوہدری شجاعت ایک وضع دار آدمی ہیں، جنہیں بڑی آسانی سے ساتھ ملایا جا سکتا ہے، شیخ رشید جیسے بندوں کو بھی ساتھ ملایا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایسا نہیں کرتے۔ پھر جو شخص سات ماہ تک اپنی کابینہ کا اجلاس تک نہ بلائے، پارلیمنٹ میں جانے سے شرمائے، میڈیا کے سامنے آنے سے ہچکچائے (سوائے مخصوص اخبار نویسوں کے) تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ان کی شخصیت میں کچھ خامیاں ہیں۔



ایکسپریس: عمران خان کو قریب دو دہائیاں سیاست میں ہوچکی ہیں لیکن انہیں اٹھان ابھی چند سال قبل ہی مل سکی۔ وہ ایک کرشماتی سیاست دان کے طور پر سامنے آئے ہیں لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی حد درجہ خود اعتمادی کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ آپ جیسے باخبر صحافی کی رائے جاننا چاہیں گے؟
عارف نظامی: دیکھیں! جب آپ لاکھوں کے جلسوں کو ایڈریس کرتے ہیں تو وہ اسٹیبلشمنٹ تو نہیں کروا سکتی، اب 2011ء میں جو لاہور میں جلسہ ہوا وہ بہت بڑا تھا، یقیناً 2014ء میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ تھیں، عمران ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے حامی سیاست دان، لیکن وہ بھی پوری بساط الٹنا نہیں چاہتے، کیوں کہ اگر پوری بساط ہی الٹ گئی تو نواز شریف توپھر بھی تین سال نکال گئے، یہ تو چھ ماہ بھی نہیں چلیں گے۔ اول تو کوئی انہیں لائے گا بھی نہیں۔ خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جلسے تو بڑے کر لیتے ہیں لیکن وہ ہاکی کے اچھے کھلاڑی نہیں، بال ڈی میں آنے کے باوجود گول نہیں کر پاتے۔ بہرحال اس وقت ملک میں سب سے زیادہ مقبول سیاست دان عمران خان ہیں۔

ایکسپریس: عمران خان کی شتابی میں ہوئی شادی اور اسی شتابی میں علیحدگی کی خبریں آپ نے بریک کیں۔ آپ پر تنقید بھی ہوئی لیکن یہ دونوں خبریں درست ثابت ہوئیں۔ یہاں ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ کیا یہ شادی ایک سازش تھی یا سازش کے ساتھ ختم کروائی گئی؟
عارف نظامی:دونوں باتیں ہی غلط ہیں، خاں صاحب نے بڑھاپے کا عشق کیا اور بعد میں ان کو احساس ہوا کہ یہ غلطی تھی۔ میرے خیال میں وہ بنیادی طور پر ایک بیچلر آدمی ہیں، اور وہ شادی کے لئے give and take نہیں کر پاتے، مجھے ان کے بہت زیادہ اندرونی حالات کا تو نہیں پتہ، جو معلوم ہوا، وہ سب کو بتا دیا۔

ایکسپریس: مارچ دو ہزار تیرہ میں ڈاکٹر مبشر حسن کا ایک انٹرویو چھپا۔ انہوں نے آپ کے والد حمید نظامی کے حوالے سے اپنی یادیں بیان کیں ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن اور حمید نظامی کے حوالے سے کوئی یاد آپ قارئین سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
عارف نظامی:دراصل میرے والد کے دوست تو ڈاکٹر مبشر کے بھائی ڈاکٹر شبر تھے، لیکن پھر ان کی دوستی ڈاکٹر مبشر سے ہوگئی، اور کوئی شام ایسی نہیں ہوتی تھی جب ڈاکٹر مبشر، حمید نظامی صاحب سے نہیں ملتے تھے۔ جب حمیدنظامی صاحب کا انتقال ہوا ہے تو انہوں نے جو وصیت چھوڑی، اس میں چار لوگوں کا نام تھا، جن میں سے ایک نام ڈاکٹر مبشرکابھی تھا۔اس میں لکھا تھا کہ اگر میری والدہ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ ڈاکٹر مبشر سے رابطہ کر لیا کریں۔

ایکسپریس: آپ کے والد صاحب تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ ظاہر ہے وہ قائد اعظم اور دیگر قیادت کو قریب سے دیکھ چکے تھے اور اس حوالے انہوں نے آپ کو بھی بہت کچھ بتایا ہو گا۔آج کل ایک بار پھر یہ مکالمہ جاری ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟
عارف نظامی: دیکھیں! ایک بات تو یہ ہے کہ اگر آپ نے حمید نظامی صاحب کو خط لکھا ہے تو وہ اس کا جواب ضرور
دیاکرتے تھے، اس وقت ای میلز کا زمانہ نہیں تھا۔ میں نے ان کی وہ تحریر بھی دیکھی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مذہب ایک نجی معاملہ ہے۔ انہوں نے کئی بار نوائے وقت کے اداریوں میں لکھا کہ پاکستان پاپائیت یعنی تھیوکریٹک اسٹیٹ نہیں ہے، یہاں تھیو کریٹکس کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہو گی۔ 53ء میں احمدیوں کے خلاف موومنٹ کی انہوں نے مخالفت کی تھی ۔ان کے خیال میں اس کے محرکات سیاسی تھے۔

آج آپ سوچ نہیں سکتے کہ کوئی صحافی کسی ایسی چیز پر سٹینڈ لے، جس پر مولوی اس کو دبا لیں۔ تاہم مجید نظامی کی پالیسی کٹھ ملائیت کی طرف مائل تھی۔ حمید نظامی مرحوم نے تو نوائے وقت کے اداریے میں مولانا مودودی کے بارے میں لکھاکہ وہ پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ مجموعی طور پر حمید نظامی سیکولر تو نہیں تھے، لیکن وہ آج کل نوائے وقت جس طرح قائداعظم کو مولانا قائداعظم بنانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ ان کا رویہ نہیں تھا۔

ایکسپریس: حمید نظامی کے بعد مجید نظامی جس نقطہ نظر کو فروغ دے رہے تھے تو وہ بالکل مختلف تھا؟
عارف نظامی:دیکھیں! حمید نظامی اور مجید نظامی میں بڑا فرق تھا۔ حمید نظامی روحانیت (spiritualism) پر یقین رکھتے تھے، فارسی پر انہیں مکمل عبور تھا، بلھے شاہ، وارث شاہ کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی شغف رکھتے تھے،انہیں اچھی گاڑی رکھنے اور سیر کرنے کا شوق تھا۔

ایکسپریس: ماضی قریب میں آپ نگران حکومت میں اطلاعات کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت اطلاعات کے پاس وافر مقدار میں خفیہ فنڈز ہوتے ہیں، جسے وہ کلاسیفائیڈز اور اَن کلاسیفائیڈز کے زمرے میں من پسند صحافیوں پر خر چ کرتی ہے۔ کیا یہ خفیہ فنڈز ہونے چاہییں؟ دوسرا آپ نے ایک بیان دیا تھا کہ وزارت اطلاعات ہونی ہی نہیں چاہیے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
عارف نظامی:میں تو اب بھی کہتا ہوں کہ وزارت اطلاعات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دیکھیں! اگر میڈیا واقعی آزاد ہے تو پھر وزارت اطلاعات کا سوائے اشتہاروں کے کیا کردار ہے۔ اشتہاروں کو بھی آزاد کر دینا چاہیے۔ ہر وزارت کا اپنا پی آر او ہونا چاہیے، ہاں اگر اس کام یعنی ریگولیٹری مقاصد کے لئے وزارت اطلاعات چاہیے تو پھر ٹھیک ہے۔ باقی رہی بات سیکرٹ فنڈ کی تو وہ میرا خیال ہے اسی دور میں ختم ہو گئے تھے۔

ایکسپریس: پاکستان میں اب کئی یونیورسٹیاں ماس کمیونیکیشن کی ڈگری کرا رہی ہیں مگر مارکیٹ میں فریش گریجوئیٹس کو ملازمت حاصل کرنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ہر سال یونیورسٹیوں سے نکلنے والے ہزاروں طلباء کی کھپت کیونکر ہو سکے گی؟
عارف نظامی:کیوں نہیں ایڈجسٹ ہو رہے ہیں، نئے چینلز آ رہے ہیں، پی آر ڈیپارٹمنٹس ہیں، انفارمیشن منسٹری ہے، ان تمام جگہوں پر یہ باآسانی ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان میں صحافی ملازمت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
عارف نظامی:ملازمت میں عدم تحفظ کے حوالے سے آپ کی بات جائز ہے، صلاحیتوں کے مطابق تنخواہ نہ ہو، جاب سکیورٹی نہ ہو اور تیسرا تھوڑی تنخواہ بھی نہ ملے تو یہ درست نہیں۔ اور بہت سارے اداروں میں ایسا ہو بھی رہا ہے۔

ایکسپریس: تو ان تحفظات کے خاتمے کے لئے مالکان یا ورکرز کی سطح پر کیا ہونا چاہیے؟
عارف نظامی:بات یہ ہے کہ کارکنوں میں بڑی گروپ بندی ہے،پی یو جے، پریس کلب وغیرہ وغیرہ، دوسری طرف مالکان کی تنظیمیں ہیں، اے پی این ایس، پی بی اے، سی پی این ای، ان پر 'جنگ' اور 'ڈان' نے قبضہ کر رکھا ہے، یہ 'نوائے وقت' کو بھی تھوڑی سی ہڈی پھینک دیتے ہیں، انہیں کے لوگ اے پی این ایس اور پی بی اے پر حکمرانی کرتے ہیں، سی پی این ای کی صدارت کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کرنا چاہتے ہیں ۔

اس کے لئے انہوں نے ووٹنگ کا لائحہ عمل ایسا بنایا ہوا ہے جس کے تحت انہوں نے اپنے بیس بیس ووٹ رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً ''ایکسپریس گروپ'' کے اگر مجموعی طور پر 15ایڈیشن شائع ہوتے ہیں تو ان کا ووٹ ایک ہی ہے جبکہ جنگ کے ہر ایڈیشن کا ایک ایک ووٹ ہے، یہ سب ان کی دھاندلی ہے، حکومت سے بھی ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ جو چھوٹا اخبار ان کی حمایت کرے، اسے اشتہارات دلوائے جاتے ہیں، جو مخالفت کرے اس کے کٹوا دیئے جاتے ہیں۔

ایکسپریس: کراچی میں ایم کیوایم کے باغی گروپ مصطفی کمال وغیرہ نے نئی پارٹی بنائی ہے اور الطاف حسین کے خلاف خوب کھل کر بیانات دیے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں وہ ایم کیو ایم کے مؤثر متبادل بن سکیں گے؟
عارف نظامی:دیکھیں! اس میں وقت لگے گا،ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت ہے، لیکن ان کے کریمنل ونگز کے معاملات بڑا مسئلہ تھا، جو اب کسی حد تک ٹھیک بھی ہو گئے ہیں۔ لہذا انہیں سمندر میں تو پھینکا نہیں جا سکتا۔ اب اگر مصطفی کمال ایم کیو ایم کی 20 سیٹوں میں سے آٹھ، دس لے جاتے ہیں تو یہ ایم کیو ایم کے لئے بڑا صدمہ ہو گا۔ مختصر یہ کہ اب ایم کیو ایم کا ہوّا ٹوٹ چکا ہے۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم کے کئی کارکن اس وقت رینجزر کی تحویل میں ہیں۔ کچھ روز قبل ایک کارکن آفتاب احمد کی تشدد کے بعد ہلاکت ہوئی جس پر ایم کیو ایم سراپا احتجاج ہے۔ سکیورٹی اداروں کی جانب سے تفتیش کے اس طرز پر کیا تبصرہ کریں گے؟ اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟
عارف نظامی:مجھے ایم کیو ایم کے ایک بندے نے آفتاب احمدکی تصویریں بھیجی ہیں، جس میں اس پر کافی تشدد کیا گیا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ اگر اس طرح معاملات چلائے جائیں گے تو پھر کس طرح ایم کیو ایم کی سیاسی حیثیت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس: آزادکشمیر میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ وفاقی حکومت اس معرکے میں کامیابی کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ کچھ نیا ہو گا یا وہی روایتی نتائج ہی آئیں گے؟
عارف نظامی:میرے خیال میں اب ن لیگ وہاں قبضہ کر لے گی، میاں صاحب نے آصف کرمانی کو اس مشن پر لگایا ہوا ہے۔ دیکھیں! اس میں ایک اور بات بھی ہے کہ میاں صاحب نے ہمیں یعنی صحافیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر آپ دامے، درمے، سخنے ان کی حمایت کریں گے تو وہ ہمیں نوازیں گے، اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ صرف پیسے ہی دیئے جائیں، عہدوں کے ذریعے بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس: آپ کئی دہائیوں سے دشت صحافت میں جادہ پیمائی کر رہے ہیں۔ ملکی سیاست کے حوالے سے آپ کے سینے میں کئی سربستہ راز ہوں گے۔ مستقبل میں انہیں رقم کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں؟
عارف نظامی:جی! ایک کتاب میں لکھ رہا ہوں، بلکہ لکھ چکا ہوں۔ مجھے روزمرہ کے جھمیلوں سے تھوڑا وقت مل جائے تو اسے شائع کر دوں گا۔اس کتاب میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام موجود ہیں، ممکن ہے اس کی اشاعت کے بعد کچھ لوگ ناراض بھی ہو جائیں گے۔ یہ کتاب اردو زبان میں ہو گی۔
ایکسپریس: اپنے صاحبزادوں کے بارے میں بتائیے؟
عارف نظامی:میرے تین بیٹے ہیں، جن میں سے اسد اور یوسف جڑواں جبکہ تیسرا علی ان سے بڑا ہے، تینوں شادی شدہ ہیں۔ علی آرٹسٹ ہے، دوسرا بینکر تھا اور اب میرے ساتھ کام کرتا ہے، تیسرا بھی میڈیا میں کام کرتا ہے۔

فوج کیا ، میاں صاحب کی کسی کے ساتھ بھی نہیں بنی۔میاں شریف نے اپنے دونوں بیٹوں کو مشرف کی تابعداری کی تاکید کی تھی
آرمی چیف اسلم بیگ کے زمانے میں صدر غلام اسحق تھے اور 58 ٹو بی تھا، تو اس میں میاں صاحب کا تو قصور تھا ہی لیکن آرمی چیف اور صدر نے بھی وزیراعظم کی چھٹی کروا دی، پھر بعد میں جب نواز شریف بھاری مینڈیٹ پر سواری کرکے آئے تو ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پچھلے دور میں، جب جنرل وحید نے ان کو استعفی دینے پر مجبور کیا اور کہا کہ غلام اسحق بھی مستعفی ہوجائیں گے،اسے انہوں نے بڑا دھوکہ سمجھا۔ یہ جوبات میںکر رہا ہوں میاں نواز شریف نے خود میرے سامنے کی ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ بڑا دھوکہ ہوا ، کیوںکہ معین قریشی کا مینڈیٹ یہی تھا کہ نواز شریف کو فارغ کرکے بے نظیر کو لے کر آنا ہے، تو نواز شریف نے کہا کہ میں دوبارہ اس چکر میں نہیں پھنسوں گا۔

جب 96ء میں بے نظیر فارغ ہوئیں اور میاں نواز شریف دوبارہ بھاری مینڈیٹ لے کر آئے ہیں تو ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ ہر اس سوراخ کو بند کر دیں، جہاں سے انہیں ڈسا جا سکتا ہے۔ پہلے انہوں نے اپنے تمام محسنوں کوفراموش کر دیا، محسن کُش تو ہیں، نواز شریف صاحب۔ انہوں نے پہلے 58 ٹوبی ختم کرائی، پھر پھڈا ہوا گیا سجاد علی شاہ سے، جس نے بے نظیر کے کیس کا فیصلہ ایسے مرحلے پر کیا، جس کا ایڈوانٹیج میاں صاحب کو ہوا، ان کو بھی جانا پڑا، کیونکہ اس وقت جہانگیر کرامت نے میاں صاحب کا ساتھ دیا۔

اچھا آج تو وہ جنرل راحیل سے برہم ہیں تو اس وقت جنرل جہانگیر کرامت بھی ان سے تنگ آ گئے تھے، جنرل جہانگیر نے نیول کالج لاہور میں ایک بیان دیا کہ میاں صاحب کو اپنے عدم تحفظ کی بنیاد پر بنائی گئی پالیسیوں کو بدلنا چاہیے، جس پر میاں صاحب نے جنرل جہانگیر کو کہا کہ آپ نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے، یوں جنرل جہانگیر کو وقت سے پہلے ہی گھر بھیج دیا گیا۔ مشرف کا معاملہ آپ کے سامنے ہی ہے، جسے احمقانہ طریقہ سے نکالنے کی کوشش کی گئی، حالاں کہ مشرف لاہور آیا تھا ابا جی (میاں شریف) کے پاس، دونوں بھائی وہاں موجود تھے، جہاں ابا جی نے کہا کہ مشرف یہ تمھارے بیٹوں کی طرح ہیں اور اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم (بھائیوں) نے ان(جنرل مشرف) کی تابعداری کرنی ہے۔

جنرل مشرف تو اس بات پر بہت زیادہ تلخ تھے کہ انہوں نے اس کے خلاف سازش کی ہے، اب مشرف نے بھی سازش کی تھی کارگل وغیرہ کے معاملہ میں، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ پھر یہ دونوں بھائی خود ڈیل کرکے باہر گئے۔ اب خدا خدا کرکے جنرل راحیل کی صورت میں ان کو اپنا بندہ ملا(ان کا انہوں نے خود انتخاب کیا)اب اس سے بھی( جبکہ وہ جانے والا ہے) معاملات خراب ہو گئے، لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ میں خود جنرل راحیل سے ملا ہوں، وہ مشرف اور کیانی سے مختلف آدمی ہیں، وہ سیدھے بلے سے کھیلنے والا شخص ہے، اپنے کام سے کام رکھنے والا، بڑا زیرک اور ذہین آدمی ہے، جو کرپٹ بالکل بھی نہیں ہے۔

اس کے پیچھے فوج کی حمایت ہے اور عوام میں پذیرائی ہے، تو میاں صاحب کو ذرا ٹھنڈی کرکے کھانی چاہیے، اصولی طور پر تو میاں صاحب کا موقف ٹھیک ہے کہ سویلین حکومت کا فوج پر کنٹرول ہونا چاہے، لیکن آپ کو پاکستان کے معروضی حالات کو بھی تو مدنظر رکھنا چاہیے۔ آپ کو کچھ اکاموڈیٹ کرنا پڑتا ہے، لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، یہ بڑا مشکل ہے کہ واضح طور پر کہا جائے کہ میاں صاحب کی زیادتی ہے، لیکن میاں صاحب جس راستے پر چل پڑے ہیں کہ ترقیاتی کام کروا رہا ہوں، اِدھر جا رہا ہوں، اُدھر جا رہا ہوں، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے، ان کو چاہیے کہ اگر فوجی قیادت سے کچھ اختلافات ہیں تو انہیں مل بیٹھ کر دور کیا جائے۔

دلچسپیاں
مطالعہ میں سوانح زیادہ پسند ہیں، جیسے قائداعظم کی سوانح حیات۔حالات حاضرہ کی کتب میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔ ملکی قیادت کے حوالے سے آپ کا سوال بہت مشکل ہے،کیوں کہ اگر اس ملک کو قیادت اچھی مل جاتی تو آج ہمیں یہ حالات نہ دیکھنا پڑتے۔ میرے خیال میں میسر لوگوں میں بھٹو میں قائدانہ صلاحیتیں تھیںاگر ان میں آمریت پسندی کا رجحان نہ ہوتا۔ قائدانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے بھٹو کے مقابلے میں باقی سب بونے ہیں۔ محمد خان جونیجو ایک اچھا وزیراعظم تھا،لیکن وہ ضیاء الحق کے سائے میں تھا۔ انہیں اس چیز کی داد دینی چاہیے کہ آمریت کے سائے میں رہتے ہوئے انہوں نے گڈگورننس کی مثال قائم کی۔ فارغ وقت میں فلم دیکھ لیتا ہوں، جم خانہ کلب چلا جاتا ہوں۔

انگریزی فلمیں زیادہ پسند ہیں، جیسے لارنس آف عریبیہ۔ فائن آرٹس سے صرف میں نہیں بلکہ میری اہلیہ بھی خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ ٹیبل ٹینس اور گالف کھیلی ہے ۔کرکٹ دیکھنا پسند ہے۔ پسندیدہ کھلاڑی کے سوال پر کہنے لگے کہ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت آپ کسی ایک بھی کھلاڑی کا نام نہیں لے سکتے، جو عالمی سطح کا ہو۔ آج ہی میں ویرات کوہلی کا سی این این پر انٹرویو دیکھ رہا تھا اس سوال کے جواب میں کہ کس باؤلر سے خوف آتا ہے؟ اس نے وسیم اکرم کا نام لیا۔ اب تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی ہے، نجم سیٹھی اور شہریار خان تو اسے صرف دفن کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ہر طرح کی پاکستانی اور بھارتی موسیقی سن لیتا ہوں۔ روشن آرا بیگم، اقبال بانو اور مہدی حسن بہت بڑے نام ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں