شام میں امن معاہدہ بھی خون میں ڈوب گیا

بشارالاسد حکومت اور داعش کے مابین تعاون کی خبریں بڑھ رہی ہیں


بشارالاسد حکومت اور داعش کے مابین تعاون کی خبریں بڑھ رہی ہیں ۔ فوٹو : فائل

شام کے شمالی شہر حلب پر بشارالاسد کی فوج اور روسی فضائیہ کے درجن بھر حملوں میں 22 اپریل کے بعد سے تادم تحریر 49 بچوں سمیت 253 عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں، ہر نئے روز ان اعدادوشمار میں نئے حملوں اور درجنوں ہلاکتوںکا اضافہ ہورہاہے۔

ان حملوں میں ہزاروں بچے، خواتین، مرد زخمی بھی ہوئے ہیں، انھیں علاج میسر ہے نہ غذا ۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل نے شام کے ریاستی میڈیا اور مخالف ذرائع ابلاغ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بشارالاسد کی فورسز اور اس کی حامی ایرانی فوج نے 'خان تومان' کے علاقے کو بالخصوص نشانہ بنایا جو 'جیش الفتح' نے سرکاری اوراتحادی فورسز سے چھین لیاتھا۔

گزشتہ ہفتے ایک ہسپتال پر بمباری کے نتیجے میں وہاں موجود مریض ، ڈاکٹرز اور نرسیں بھی ہلاک ہوگئیں۔ انسانی حقوق کی صورت حال پرنظر رکھنے والے ادارے 'آبزرویٹری' کے مطابق شہریوں کی ہلاکتوں کا بڑا سبب بیرل بموں کا بے دریغ استعمال ہے۔ ایک حیرت انگیز پہلو دیکھنے کو ملا کہ اس قدربڑے پیمانے پر معصوم شہریوں بالخصوص بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن دنیا بھر کا میڈیا خاموش رہا۔

سعودی عرب نے شامی فوج کی جانب سے حلب شہر میں نہتے شہریوں کے قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسد حکومت کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی کے اعلان کے باوجود سرکاری فوج نو دن تک حلب میں آگ اور بارود برساتی رہی۔ حلب میں عام شہریوں پر بمباری سے شامی حکومت نے ثابت کردیاکہ وہ مکمل طور پر انسانیت سے عاری، جنگی جرائم کی مرتکب اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہے۔

خلیجی تعاون کونسل نے بھی حلب کے ہسپتالوں اور شہری آبادی پر سرکاری فوج کی وحشیانہ بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی جرم قرار دیا۔کونسل کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبدالطیف بن راشد الزیانی نے بھی کہا کہ حلب میں شامی فوج نے ہسپتال اور شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کی ہے جو ایک سنگین انسانی اور جنگی جرم ہے۔ سرکاری فوج نے ہسپتالوں اور عام آبادی پر بمباری کے ذریعے سینکڑوں افراد کو ہلاک اور زخمی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انسانیت سے مکمل طور پر عاری ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ حلب میں شامی فوج کی جارحیت کا نوٹس لینے کیلیے بشارالاسد اور ان کی فوج کے خلاف فوری کارروائی شروع کرے۔ ڈاکٹر الزیانی نے کہا کہ خلیج تعاون کونسل شامی عوام کے ساتھ ہے اور سرکاری فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں جاری انقلاب کی تحریک جلد ثمر آور ثابت ہو گی۔

اگرچہ بشارالاسد حکومت دنیا میں تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ داعش کے جنگجوؤں سے برسرپیکار ہے تاہم ایسی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ شامی فوجی اور داعش کے جنگجو دونوں ایک دوسرے کو محفوظ راستے دیتے اور اسلحہ کی سپلائی میں تعاون کرتے رہے ہیں۔ترک صدر طیب اردگان نے روس کے ساتھ محاذآرائی بڑھنے کے بعد بعض روسی الزامات کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیاتھا کہ بشارالاسد داعش سے تیل خریدتے ہیں۔

اب ایک برطانوی ٹی وی چینل'سکائی نیوز' میں داعش اور بشارالاسد حکومت کے درمیان طے پانیوالے خفیہ سمجھوتے کی ایک نقل کا عکس بھی نشر کیاگیا جس میں شامی حکومت کی جانب سے داعش کے جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ نئی اطلاعات کے مطابق اسد حکومت اور داعش کے درمیان خفیہ تعاون کا سلسلہ اب بھی نہایت منظم اور مربوط طریقے سے جاری ہے۔

سکائی نیوز کا کہنا ہے کہ اسے یہ خفیہ دستاویزات داعش سے منحرف ہونے والے کچھ افراد کے ذریعے ملی ہیں۔ خفیہ دستاویز میں داعش نے شامی فوج سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ الرقہ شہر اور اس کے آس پاس سے تمام بھاری ہتھیار، ٹینک اورطیارہ شکن توپیں ہٹالے۔ نیز تدمر شہر میں پھنسے داعش کے جنگجوؤں کو محفوظ راستہ دینے کا بھی معاہدہ کیا گیا۔

داعش سے منحرف ہونے والے جنگجوؤں سے پوچھاگیا کہ کیا داعش اور اسد حکومت کے درمیان براہ راست تعاون رہا ہے؟کیا روسی فوج سے بھی کسی قسم کا خفیہ تعاون رہا ہے؟ تو جنگجو کا جواب تھا کہ ''جتنا یہ سوال اہم ہے اتنا ہی اس کا جواب بھی بڑا ہے''۔ اس نے مزید کہا:''ہاں! بلا شبہ اسد حکومت اور روسی فوج کے ساتھ کہیں نہ کہیں داعش کا تعاون جاری رہا ہے''۔ منحرف جنگجو کا مزید کہنا تھاکہ داعش نے ایک معاہدے کے تحت تدمر شہر کا کنٹرول اسد نواز فوج اور اس کی حامی ملیشیا کے حوالے کیا ہے، بعض خفیہ دستاویزات میں داعش اور اسد حکومت کے درمیان تیل کے بدلے میں خوراک کا معاہدہ کیا گیا ہے۔

داعش کی جانب سے شامی حکومت کو تیل فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا، اس کے بدلے میں حکومت کی طرف سے زرعی اجناس اور بعض علاقوں کو خالی کرنے کی توثیق کی گئی تھی۔ برطانوی ٹی وی کے نامہ نگار نے بشارالاسد مخالف گروہ'جیش الحر' کے عہدیداروں سے بھی اس حوالے سے بات کی اور انہوں نے بھی داعش اور اسدی فوج کے درمیان خفیہ تعاون ، تجارتی معاہدوں اور ایک دوسرے کو محفوظ راستہ دیے جانے کے معاہدوں کی تصدیق کی ہے۔

ممتاز عرب اخبار 'الشرق الاوسط' کے سابق ایڈیٹرانچیف عبدالرحمن الراشد کاکہناہے کہ حلب میں ہزاروں شہری ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں ڈاکٹر، نرسیں، امدادی کارکن اور عام شہری بھی شامل ہیں،اکثر عورتیں اور بچے تھے جو بد قسمت بھاگ کر بھی اپنی جانیں بچانے کے قابل نہ تھے۔ اس شہر کے لاکھوں شہریوں کو ظالم بشار حکومت، اس کی پروردہ ملیشیاؤں اور روسی حملہ آور فوجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

پوری دنیا میں کوئی بھی ان بے یارومددگار لوگوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کر رہا، اس حقیقت کے باوجود کہ پورا شام بالخصوص حلب شہر اس امن معاہدے کے تحت آتے ہیں جو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کیا گیا۔ ان کا کہناہے:'' یہ کیسے ممکن ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر عام شہریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے مگر جنیوا کنونشن کی پابند تمام حکومتیں بے کار بیانات دینے کے سوا کسی قسم کا بھی کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہیں۔

حلب میں بمباری سے ہونے والا جانی نقصان بہت خوفناک اور دہشت ناک ہے مگر عالمی پابندیوں کی وجہ سے اس کا مکمل منظر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر اس جانی اور مالی نقصان کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا اس جھوٹے امن معاہدے اور مذاکرات کے تماشے کو یکسر مسترد کردیتی تاکہ اس قوم کے معصوم شہریوں کی قیمتی جانیں بچائی جا سکیں جو پہلے ہی کئی سال سے ریاست کی نگرانی میں فرقہ وارانہ قتل عام اور خانہ جنگی کا شکار ہے''۔

حلب شہر پہلے ہی کئی ماہ سے سخت ترین محاصرے میں ہے جہاں غذا اور ادویہ کی ترسیل مکمل بند ہے۔ تمام مواصلاتی رابطے کٹ چکے ہیں، تمام اہم سڑکیں بند ہیں۔ ترکی کی جانب ہجرت کرنے والے کئی ہزار افراد بھوکے پیاسے محصور ہیں ۔ عرب صحافی کے بقول:'' اقوام متحدہ اپنا یہ وعدہ پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے کہ امن مذاکرات جنگ بندی کے ساتھ کئے جائیں گے اور امدادی کارکنوں کو زخمیوں اور محصور شہریوں کے لئے لازمی اشیا کی ترسیل کی اجازت دی جائی گی۔

جنگ بندی کے دوران شامی شہریوں کے منظم قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد جنگ کے دوران مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اور یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ مذاکرات کا مقصد بشار حکومت کو اتحادی افواج کی مدد سے نہتے شامی شہریوں کے مزید قتل عام کا موقع فراہم کرنا ہے۔ ان سنگین حقائق سے امن کے تمام امکانات زمیں بوس ہو چکے ہیں''۔

حلب ہی کیوں؟
سوال یہ ہے کہ بشارالاسد کی سرکاری فوج اور اس کی مدد کو آنے والی غیرملکی افواج اور جنگجو حلب شہر پر کیوں ٹوٹے پڑے ہیں؟ دراصل حلب بشارالاسد کی افواج اور مخالف انقلابیوں کیلئے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل شہر ہے اور ترکی سے آنے والی سپلائی کے روٹ پر واقع ہے۔ یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جو بشارالاسد حکومت کے ہاتھوں سے مکمل طورپر نکل چکے تھے۔

جب عالمی طاقتیں جنگ بندی کی باتیں کررہی تھی، بشارالاسد کی فوج حلب کو الگ تھلگ کرنے میں مصروف تھیں۔ بشارالاسد، ایران، روس اور حزب اللہ کا موقف ہے کہ حلب 'النصرہ فرنٹ' کے قبضہ میں ہے، اس لئے یہ شہر جنگ بندی کے معاہدے میں شامل نہیں۔ امریکہ بھی اسی موقف کا حامی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ امریکہ محفوظ فلائی زون بنانے کی کوششوں میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے، اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ بشارالاسد، ایران، روس اور حزب اللہ کو شام میں کھلی چھٹی دئیے رکھنا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا ایکٹوٹس کا کام
سوشل میڈیا پر کام کرنیوالوں کی بھرپور مہم کے نتیجے میں اس ظلم کی تفصیلات اور تصاویر کی خوب نشرو اشاعت ہوئی، سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر''#حلب_تحترق'' (حلب جل رہا ہے) سات لاکھ سے زیادہ ٹوئیٹس کے ساتھ دنیا بھر میں مقبول ترین ہیش ٹیگ بنا۔اس میں سرخ رنگ کے ساتھ اہل حلب کے لہو اور آگ کی طرف اشارہ کیاگیا۔ سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں کی سب سے زیادہ تعداد مصریوں اور لبنانیوں کی تھی۔

سوشل میڈیا ایکٹوٹس نے فیس بک انتظامیہ کی خاموشی کے خلاف بھی مہم چلائی، اعلان کیاگیا کہ احتجاجاً فیس بک پیجز کو 24 گھنٹوں کیلئے ڈی ایکٹویٹ کردیاجائے گا۔ اعلان کرنے والوں نے کہا کہ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے پیرس واقعات کے بعد اپنی پروفائل پکچر میں فرانسیسی پرچم لگا لیا تھا، وہ اب کیوں خاموش ہیں؟ چنانچہ سوشل میڈیا پر متحرک کارکنان نے مارک زکربرگ کے اکاؤنٹ میں جاکربہت زیادہ تبصرے تحریر کیے ۔ بعض تبصروں میں زور دیا گیاکہ آپ صرف یورپ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں خونریز واقعات کو انسانیت کی بنیاد پر دیکھیں۔ نتیجتاً فیس بک کے بانی نے وعدہ کیاکہ فیس بک ویب سائٹ حلب میں ہونے والے واقعات کو کوریج دے گی ''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں