رویے
ہم دنیاکے مشکل ترین لوگ بن چکے ہیں۔یہ تکلیف دہ سفرصرف ساٹھ سال کے اندرطے کرنا غیرمعمولی بات ہے
BERLIN:
ہم دنیاکے مشکل ترین لوگ بن چکے ہیں۔یہ تکلیف دہ سفرصرف ساٹھ سال کے اندرطے کرنا غیرمعمولی بات ہے۔اکثریت کا خیال ہے کہ دنیاہم سے مختلف ہے۔ مگر میرایقین ہے کہ ہم تمام دنیاسے مختلف ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہر طرف بازار اور دکانیں ہیں۔کسی مارکیٹ میں سیاستدان پھندا لگا کر بیٹھے ہیں، توکسی دکان پرمذہبی رہنما براجمان ہیں۔ میڈیاکی دکان داری اپنی جگہ،اب توحرمتِ قلم بھی ناپیدہوتی جارہی ہے۔
دانشور یاقلمکار کا نام پڑھ لیجیے،بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ نفسِ مضمون کیاہوگا۔ قوم تضادات کا شکار ہے۔ انفرادی، شخصی اور قومی، یہ تضاد بڑھتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دہائیوں کے فاصلوں پربھی کوئی ایسی شخصی مثال نہیں ملتی جسے ہمارے جیسے لوگوں کے لیے پیش کیا جا سکے۔ مگر دنیاکاوہ حصہ جو ترقی کر چکاہے اورمسلسل کررہا ہے، مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ کیا سیاست یاکوئی اور شعبہ۔ جنت تو خیر دنیا میں کہیں بھی نہیں، مگرمرنے سے پہلے دوزخ کا وجود بھی ان جگہوں پر موجود نہیں۔
رے ہیرس امریکا کے کینسس (KANSAS) شہرمیں گلیوں میں پھرنے والاایک معمولی آدمی تھا۔ اس کا کوئی گھربارنہیں تھا۔اسے فقیر کہنا توتھوڑاساغیرمناسب ہے مگرتقریباًاسی سطح پرزندگی گزاررہاتھا۔بے گھرلوگ وہ طبقہ ہے جویورپ اور امریکا میں بھی سردیوں میں ٹھٹھرٹھٹھرکرزندگی گزارنے پرمجبورہوتاہے۔لوہے کے ڈرموں اورگتے کے ڈبوں میں ان کی زندگی کی سحرہوتی ہے اور وہیں شام بھی ہوجاتی ہے۔یہ طبقہ حکومتی خیرات پرزندہ رہتا ہے۔ امریکا میں بھیک مانگناقانون کے مطابق جرم ہے۔
لہذالوگ سامنے کپ یاچادربچھاکرخاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔سامنے گزرنے والے لوگ سکے سامنے رکھتے جاتے ہیں۔ وہاں کے فقیر بھی تہذیب یافتہ ہیں۔ہمارے ہاںتوصرف گاڑی کاشیشہ توڑنے کی کسررہ گئی ہے، باقی سب کچھ تقریباًجائزہے۔ایک دن ہیرس بالکل اسی شریفانہ طریقے سے خیرات مانگ رہاتھاکہ ایک خاتون نے دوڈالر کپ میں رکھ دیے۔غلطی سے خاتون نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی بھی کپ میں ڈال دی۔ہیرس کواس وقت معلوم نہ ہوسکا۔شام کوپیسے اکٹھے کرتے ہوئے قیمتی انگوٹھی پرنظرپڑی تو حیران رہ گیا۔وہ انگوٹھی فروخت کرکے پانچ چھ سال اچھے گزاراکرسکتاتھا۔مگرہیرس کے اندر سے ایک اور انسان نکل کراس کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا۔پہلے ہیرس اپنے اندروالے انسان سے ناواقف تھا۔
دل سے ایک آواز نکلی جوچیزتمہاری نہیں اسکوواپس کردیناچاہیے۔ہیرس نے اس عورت کو تلاش کرناشروع کردیا۔ ایک ریڈیواسٹیشن پرپہنچ گیا۔ وہاں بتانے لگاکہ اس حلیہ کی عورت کی انگوٹھی اس کے پاس ہے،وہ آکراپنی امانت واپس لے لے۔تین چار دنوں بعد خاتون واپس آئی اوراپنی انگوٹھی واپس لے گئی۔ پورے ملک میں اس ایمانداررویہ کی گونج سنائی دی۔ چند لوگوں نے مل کرہیرس کی مددکے لیے ایک فنڈقائم کردیا۔ صرف دودن میں لوگوں نے اکاؤنٹ میں دولاکھ ڈالرجمع کرادیے۔ہیرس کے دن بدل گئے۔اس نے ایک دلچسپ فقرہ کہا،"مجھے لگتاہے کہ میں بھی انسان ہوں"۔
قومی سطح کے قائدین کاجائزہ لیجیے۔جب سے ملک بناہے،کسی بھی قیادت کواُٹھاکردیکھ لیجیے۔ ہر معتبر رہنمااپنے آپکوفرشتہ یامافوق الفطرت بناکرپیش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتاہے۔اس محنت میں اکثراوقات انسان ہونے کے درجہ سے بھی کمتر ہوجاتاہے۔سیکڑوں مثالیں ہیں یا شائد ہزاروں۔ لکھنے کے لیے دیوان دردیوان چاہیں۔ اشتہارات میں چھپے ہوئے مسکراتے ہوئے چہرے،عملی زندگی میں تکبر،نفرت اورکدورت سے معمورہوتے ہیں۔ ایک مثال بھی دیجیے،جس میں ہمارے صدور،وزراء اعظم، وزراء اعلیٰ اوردیگرمقتدرلوگ،عام آدمیوں جیسی حرکات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہوں۔
کیاآپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہماراکوئی بھی وزیراعظم،بچوں کے اسکول میں جائے اوران کی باسکٹ بال ٹیم کے ساتھ کھیلناشروع کر دے۔اپنے جوتے،ٹائی اورکوٹ خود اُتارے اوربچوں کے ساتھ دوڑلگانی شروع کر دے۔ مگر دنیا کا سب سے طاقتور صدربارک اوباما اکثراوقات یہی کرتا ہے۔کیاآپ نے تصورکیاہے کہ پاکستانی صدر، سائیکل چلاتاہوا،اسلام آباد سے پنڈی بغیرکسی حفاظتی حصارسے آرام سے پہنچ جائے۔
صرف ایک بارپاکستانی صدر کوسائیکل چلاتے ہوئے گھر سے دفترجانے کی تصویر دیکھی تھی۔اس تصویری مہم میں حکومتی وسائل کاضیاع گاڑیوں سے دگناتھالہذااسے ترک کرناپڑا۔یہ جناب جنرل ضیاء الحق تھے۔اس کے بالکل برعکس ہالینڈ کا وزیراعظم روزانہ گھرسے دفتر سائیکل پر جاتا ہے۔کوئی بھی اس کی حفاظت پر مامور نہیں۔کسی سڑک پر ٹریفک نہیں رکتی۔کوئی ایمبولینس ٹریفک میں نہیں پھنستی۔ مگردنیاکے اصول اورہیں اورہمارے اصول کچھ اور۔ خیر اب تواصول کالفظ ہی بے معنی ساہوچکاہے۔
کینیڈاکے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکی طرف نظرڈالیے۔وہ حیرت انگیزحدتک سادہ اور انسان دوست شخص ہے۔نودولتیابھی نہیں کہ جعلی شہرت کے لیے مداری پن کررہاہو۔جسٹن ٹروڈوکی پرورش وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں اس لیے ہوئی کہ اس کا والدبھی کینیڈاکاوزیراعظم تھا۔اسکابچپن،اورجوانی اچھے اورآسودہ ماحول میں گزرے۔سیاست میں آنے سے پہلے بچوں کے اسکول میں حساب اورجغرافیہ پڑھاتارہا۔وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے اکیلا ریلوے اسٹیشن پرپہنچ گیا۔
عام آدمیوں سے ہاتھ ملا ملا کر شکریہ اداکرتارہا۔ لوگ حیران رہ گئے کیونکہ انسانی سطح پرکینیڈامیں بھی ایسی مثالیں بہت کم تھیں۔ ٹروڈو نے ایک اورحیرت انگیزسیاسی قدم اُٹھایا۔اس نے تیس رکنی کابینہ بنائی جس میں مرداورخواتین وزراء کی تعداد برابر تھی۔ یعنی15مردوزراء اوراسی تعدادمیں خواتین وزیر۔کینیڈامیں مقیم تمام مذاہب کے لوگ اس میں موجود ہیں۔ مسلمان، سکھ،ہندو،عیسائی یعنی سب کی نمایندگی کی گئی تھی۔ کیا ہمارے ملک میں اتنے غیرمتعصب رویہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔آپ کسی اور مذہب کی بات تورہنے دیجیے،کیونکہ ہمارے ہاں اقلیتوں کے عملی طورپرکوئی حقوق نہیں۔اب تو کابینہ میں فرقہ پرستی بھی ابھرکرباہرآرہی ہے۔ ٹروڈو وزیراعظم بننے کے بعد ایک مسجدمیں چلاگیا۔آرام سے جوتے اتارے اورمسلمانوں کے ساتھ زمین پربیٹھ کر کھانا کھاتارہا۔بریانی کھاتے ہوئے اس کی تصویرپوری دنیا نے دیکھی۔
اسی طرح، بلاامتیاز،تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں جاتارہا۔ کیا مسجد، کیا مندر اور کیاگوردوارہ ہرجگہ موجود تھا۔مقصدبالکل واضح تھاکہ کینیڈامیں ہرمذہب کے لوگ موجودہیں لہذاتمام مذاہب اورانکے ماننے والوں کااحترام ہونا چاہیے۔ جس وقت اسلامی دنیانے شام سے مہاجرین کو لینا تقریباًبندکردیاتھا۔بعینہ ہی اسی وقت ٹروڈونے اپنے ملک کے دروازے مہاجرین کے لیے کھول دیے۔ مہاجرین کاپہلاجہازجس وقت ائیرپورٹ پہنچا تو ٹروڈو ائیرپورٹ پران بے سہارالوگوں کے استقبال کے لیے خود موجودتھا۔
بچوں میں تحائف تقسیم کررہا تھا۔ بے وطن لوگوں کومسکراکراپنے ملک میں خوش آمدیدکہہ رہاتھا۔ٹروڈومیں کمال یہ ہے کہ وہ انسانی سطح پراپنے عوام کے ساتھ تعلق قائم کرلیتاہے۔چھٹی والے دن اپنے اہل خانہ کے ساتھ کسی پارک میں جاکر ایک عجیب ساکرتب دکھاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کواپنے ایک ہاتھ سے اُٹھاکرتوازن قائم کرلیتا ہے۔ بچوں کے والدین حیران ہوجاتے ہیں۔ ننھے منے بچے ہنسناشروع کر دیتے ہیں۔بلندکرداری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنی ذاتی غلطیوں کوتسلیم کرتا ہے۔ معافی مانگتاہے اور اس پر ندامت کا برملا اظہار کرتا ہے۔ ہر قومیت کالباس پہن کرلوگوں کادل موہ لینے کافن جانتا ہے۔ مسلمانوں میں عام ساکرتاشلوارپہنتاہے۔عرض کرنے کا مقصد قطعاًیہ نہیں کہ ٹروڈوکو فرشتہ ثابت کروں۔مقصدصرف یہ ہے کہ بتا سکوں کہ طاقتورقائدین کااپنی قوم کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ نسبت قائم کرنافخرکی بات سمجھتے ہیں۔
ہمارے ملک کی اشرافیہ کی طرف آئیے۔کسی بھی سیاسی یاغیرسیاسی عہدکوپرکھ لیجیے۔آپکوآقااورغلام کا تعلق نظر آئیگا۔ یہاں بتانے کی ضرورت نہیں کہ آقا کون اورغلام کون ہے۔ ہمارے قائدین اب تک یہ اہم نکتہ نہیں سمجھ پائے کہ حکومت دلوں سے شروع ہوتی ہے۔ ہر صاحب مسندشخص کے اردگرد مصاحبین، درباریوں اور خوشامدیوں کا ٹولہ موجود رہتا ہے۔ اقتدارکی آنکھیں بند ہونے پر ہی مقتدرحلقوں کی آنکھیں کھلتی ہیں یاوہ مجبوراً آنکھیں کھول لیتے ہیں۔ مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے! ہرچیز بدل جاتی ہے۔ہمارامعاشرہ عبرت ناک رویوں کی کمیں گاہ ہے۔