گلستانِ ادب پہلا حصہ
بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو اپنے آپ کو پڑھوا ہی لیتی ہیں، قاری بڑی دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ پڑھتا ہے
بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو اپنے آپ کو پڑھوا ہی لیتی ہیں، قاری بڑی دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ پڑھتا ہے اور ان کتب و رسائل سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا۔ علم و ادب کی خدمت میں عمر بسر کرنیوالے انمول موتیوں کی طرح وقت کی گرد میں دب گئے ہیں لیکن سنگ تراش یا جوہری تلاش کر کام لیتا ہے کہ وہ ماہر فن ہے اور تحقیق و تنقید اس کا شعبہ ہے۔ پتھر کو ہیرے کی شکل دینا اس کا کام ہے۔
حال ہی میں بہت سی کتابیں موصول ہوئیں۔ رسائل و جرائد کی بھی بہار آئی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ مدیران رسائل کی ادب سے سچی محبت اور لگن رنگ لے آتی ہے۔ ان کی محنت، کاوش کہ چلچلاتی دھوپ اور موسموں کی شدت میں پریس کے چکر کاٹنا پڑتے ہیں اور بھی کام ہیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں کہ ادب کی بھوک ہے ہی نرالی، تمام بھوکوں سے مختلف۔ اس کا دوسرا نام جنون بھی ہے، جس پر جنون سوار ہوجائے وہ پھر آخری سانس تک ساتھ نبھاتا ہے۔
اس سے قبل کہ میں شاعر صدیقی، جمال نقوی اور ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر وزیر آغا شناسی کا ذکر کروں، پہلے ان رسائل کو دائرہ تحریر میں لے آؤں جو مجھے پابندی سے موصول ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات مدیران جرائد کا شکریہ ادا کرنا بھی بھول جاتی ہوں اور شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کر پاتی کہ میں مصروفیت کے باعث رسید نہ دے سکی۔ لیکن ان مدیران رسائل، قلم کاروں اور تخلیق کاروں کا ظرف ہے جو مجھے نادم ہونے سے بچالیتے ہیں۔
''کاغذی پیراہن'' جس کے مدیر شاہد شیدائی ہیں، ایسوسی ایٹ ایڈیٹر ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، ادارت میں اور بھی لوگوں کے نام شامل ہیں، اس رسالے کی خصوصیت اس شمارے کے شاعر اختر الایمان اور ان کی بہترین نظمیں شامل اشاعت ہیں۔ ''یادداشتیں اخترالایمان'' کے عنوان سے ستیہ پال آنند کی تحریر متاثر کن اور دلچسپ ہے۔ سلیم آغا قزلباش کا انشائیہ ''انگڑائی اور جمائی'' میں زندگی کی عکاسی بے حد خوبصورتی کے ساتھ نظر آتی ہے۔
انشائیہ سے چند سطور: ''ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ جمائی لینا ایک طرح کا چھوت کا مرض ہے، یعنی جب حلقہ یاراں میں بیٹھے کسی ایک فرد پر یہ کیفیت وارد ہوتی ہے تو چند ساعتوں کے بعد ساتھ بیٹھے فرد کی طبیعت بھی اس عمل سے گزرنے کے لیے بے چین ہوجاتی ہے، دوسرے لفظوں میں اسے ''گرہ'' لگانے پر مجبور کردیتی ہے، چنانچہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد جمائی پہ جمائی اور گرہ پہ گرہ لگنے کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے''۔ واہ بالکل ایسا ہی ہے۔ آگ تاپنا، ڈاکٹر وزیر آغا کا ''مچھر کی مدافعت'' میں انور سدید ''پہیہ'' شاہد شیدائی اور ''چاندنی رات'' عبدالقیوم ''شاید میں برومائنڈ ہوں'' جمیل آذر کے انشائیے میں ''دھند میں لپٹے خواب'' احمد زین الدین کا اضافہ حالات حاضرہ اور لوگوں کے اچھے برے رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کی بنت قابل تعریف ہے، مکالمے جاندار ہیں ''ساون بولے نا'' محمد طارق علی کا افسانہ بھی توجہ مبذول کراتا ہے۔ اسے ہم اچھے اور کامیاب افسانوں میں شمار کرسکتے ہیں۔ ہندی کے نرم و میٹھے لفظوں نے افسانے کے تاثر کو مزید بڑھادیا ہے۔
ذوالفقار احسن کی ادارت میں نکلنے والا پرچہ ''اسالیب'' بھی قابل مطالعہ اور قابل تحسین ہے۔ ''انور سدید کے خوابیدہ افسانے'' پر اہل دانش کی آرا بھی درج ہے۔ عابد خورشید، اخلاق عاطف اور راقم السطور کی مختصر تحریریں، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا، نقطۂ و نظر، گوشہ پروین سجل اور غزلیات و نظموں نے اسالیب کو دلفریب بنادیا ہے۔
کراچی و حیدرآباد سے شایع ہونیوالے جرائد ارتفاع، اجمال، دنیائے ادب، انشا، زوایہ نگاہ، نفاذ اردو، بیلاگ، اجرا اور دوسرے رسالے بھی شامل ہیں، جو پابندی سے شایع ہوتے ہیں۔ قارئین و ناقدین متذکرہ رسائل کا شدت سے انتظار کرتے ہیں اور جب ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں تب ان کے ہی ہوجاتے ہیں۔ ہفتوں پڑھے جاتے اور مہینوں یاد رکھے جاتے ہیں، جادوئی تحریریں اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں، اس تعریف پر اترنیوالا رسالہ اجمال بھی ہے جسے ترقی پسند قلم کار فہیم اسلام انصاری ہر تین ماہ بعد پابندی سے نکال رہے ہیں، انھیں کسی سرمائے دار یا قرض دار کا تعاون بھی حاصل نہیں ہے۔ دامے، درمے، سخنے ہر لحاظ سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت رسالے کے تمام امور تن تنہا انجام دیتے ہیں۔
''اجمال'' کا تازہ شمارہ بھی ممتاز و معروف تخلیق کاروں کی تحریروں سے سجا ہوا ہے، ابتدائیہ خاصے کے چیز ہے۔ گرم مسالہ، سرخ اور ہری مرچوں کی ملاوٹ کے ساتھ کہ اکثر کا منہ جلنے لگے گا۔ بہت معلوماتی و تاثراتی مضمون ہے اور تمام تحریروں پر بھاری ہوگیا ہے۔ لیکن مختلف موضوعات اور اصناف کے حوالے سے مضامین و شاعری ادب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
''دنیائے ادب'' اوج کمال کی ادب سے عقیدت و خلوص کی بنا پر باقاعدگی سے شایع ہورہا ہے اور ایک بے حد اچھا اور معیاری پرچہ ہے، اسے اہل قلم پڑھنا اور استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ نئے اور پرانے لکھنے والوں کا مکمل تعارف تصاویر کے ساتھ کرانا ان کا وہ کام ہے جو اپنے اندر انفرادیت اور خاصیت رکھتا ہے۔ سرورق کی شخصیت انور شعور جوکہ کراچی کے ہی نہیں بلکہ جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں کوچۂ ادب کی ممتاز و معتبر شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں اور ایک بہت اچھے انسان بھی ہیں۔ قارئین کے پڑھنے کے لیے انور شعور کا ایک شعر حاضر خدمت ہے۔
آج مرجاؤں تو نکلیں نہ کفن کے پیسے
یوں تو کہنے کو مرے پاس کئی جوڑے ہیں
احمد فراز کا گوشہ گو کہ مختصر سہی لیکن خاص خاص باتوں کا ضرور پتہ چل جاتا ہے، جیسے یہ ہی کہ 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہونے والا شاعر 25 اگست 2008 میں اسلام آباد میں حکم ربی سے اپنی آخری سانسیں لیتا ہے اور اپنے 14 شعری مجموعے جن کی بدولت وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے، قارئین و محققین کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ یقیناً فراز ایک بڑے اور قد آور شاعر تھے، مگر ہمارے معاشرے کی ریت ہے، اکثریت تو ان لوگوں کی ہے جو اچھائی میں برائی اور خوبی میں عیب نکالنے کا ہنر بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ فراز کا ایک شعر:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
احمد فراز سے بھی سب سلسلے ٹوٹ چکے ہیں، لیکن ان کے کلام سے سارے تعلق قائم ہیں۔ غرض دنیائے ادب قلمکاروں کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے اور گوشوں کے ذریعے تخلیق کاروں کی نجی زندگی اور حالات زمانہ سے بھی قارئین کو واقفیت ہوتی ہے۔ ماہنامہ نفاذ اردو کے مدیر احسان الحق احسان ہیں اور نگران سید نسیم شاہ اور مدیر اعلیٰ شبیر احمد انصاری، مدیر منتظم محمد لئیق خان جب کہ سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر سید مبین اختر۔ ڈاکٹر مبین اختر سالہا سال سے قومی زبان اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
ہر ماہ اسی سلسلے میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور اردو کی ترقی و ترویج کی راہ میں جو مسائل درپیش ہیں ان پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اسی طرح ماہنامہ نفاذ اردو میں اردو کے حوالے سے مضامین شایع کیے جاتے ہیں اور اہل اقتدار کی توجہ مبذول کرانے کے لیے قانونی امور بھی انجام دیے جاتے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے۔ وہی لکیر کے فقیر، قومی حمیت سے محروم، بصیرت و بصارت سے لاتعلقی کا یہ عالم کہ دوسرے ملکوں کی تہذیب و ثقافت اور وہاں کا منظرنامہ سب کچھ دیدہ و بینا سے پوشیدہ ہے۔ دولت کی ہوس نے اندھا اور بہرہ کردیا ہے۔