جعلی اسٹامپ پیپرز اور شہریوں کی حق تلفی
دوکروڑ سے زائد آبادی والے شہرکراچی میں روزانہ ہزاروں جائیدادوں کی خرید وفروخت کے معاہدے ہوتے ہیں
دوکروڑ سے زائد آبادی والے شہرکراچی میں روزانہ ہزاروں جائیدادوں کی خرید وفروخت کے معاہدے ہوتے ہیں۔کاروباری معاشرتی ومعاشی اورخاندانی معاملات و معاہدے وغیرہ مثلاً بیع نامہ، رہن نامہ، شراکت داری، مختار نامہ، ثالثی نامہ، تقسیم و بٹوارہ، اقرار نامہ، وصیت نامہ، ضمانت نامہ، دستبرداری نامہ، امانت نامہ، ٹرسٹ نامہ، خاندانی وازدواجی دستاویزات وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔
یہ تمام دستاویزات عموماً اسٹامپ پیپر پر تیارکیے جاتے ہیں جو لاکھوں شہریوں کے حقوق ومفادات اور مستقبل کے تحفظ کی ضمانت ہوتے ہیں۔ سندھ بھر میں جعلی اسٹامپ پیپرکی گردش کا سلسلہ تو کافی عرصے سے چل رہا تھا، لیکن اب یہ سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے محکمہ سندھ بورڈ آف ریونیو نے جنبش لی ہے۔ اخبارات میں خبر چھپی کہ صوبہ سندھ میں کروڑوں روپے کی جائیدادکی خریدوفروخت میں جعلی اسٹامپ پیپر استعمال ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان ہورہا ہے۔
جعلی اسٹامپ پیپرز استعمال ہونے کا سراغ لگانے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے، خبرکے مطابق سب رجسٹرار پراپرٹی نارتھ ناظم آباد آفس میں جعلی اسٹامپ پیپرز استعمال ہونے کے انکشافات کے بعد سندھ بورڈ آف ریونیو نے ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ بورڈ حکام نے کمیٹی کو جعلی اسٹامپ پیپرز کے ماخذ کا پتہ چلانے، جعلی مہروں اور اسٹامپ پیپرزکی روک تھام کے لیے اقدامات تجویز کرنے اور اس کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ سندھ بورڈ آف ریونیو کے ذرایع نے بتایا کہ محکمے کے بعض افسران کی ملی بھگت سے ایک منظم مافیا جعلی اسٹامپ پیپرز استعمال کررہی ہے جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
اس خبرکے بعد تحقیقاتی کمیٹی جعل سازوں تک پہنچی یا نہیں یا اس نے جعلی اسٹامپ پیپرزکی روک تھام کے لیے اس نے کیا اقدامات کیے، اس کی توکوئی خبر نہیں البتہ فوری طور پر اسسٹنٹ چیف انسپکٹر آف اسٹیمپ، بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جائیداد خریدنے والے شہریوں کوخطوط جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے کہ آپ کے جائیداد کی خریداری کے کاغذات دوران معائنہ روک لیے گئے ہیں لہٰذا آپ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں دن فلاں وقت ذاتی طور پر اپنے تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ انکوائری کمیٹی کے سامنے حاضر ہوں۔ اس قسم کے خطوط موصول ہوتے ہی شہریوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں جو خریدی گئی جائیدادوں کی قیمت کے عوض کروڑوں روپے کی ادائیگی کرچکے ہوتے ہیں۔
خطوط ملنے کے بعد یہ شہری ادھر ادھر دوڑتے ہیں، متعلقہ اسٹیٹ بروکرز اور وکلا کو ڈھونڈتے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے کہیں ان کی رقم تو نہیں ڈوب گئی ایسا تو نہیں کہ وہ کاغذات لے کر جائیں تو انھیں بھی ضبط کرلیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اسٹیٹ ایڈوائزر انھیں صاف کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کام توکاغذات کی رجسٹریشن کرا کر رسید دلوانے تک کا تھا اب وہ خود جاکر اپنے معاملات حل کروائیں۔ جب یہ خریدار شہری متعلقہ محکمے میں پہنچتے ہیں تو انھیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کی دستاویزات کی تیاری میں جو اسٹامپ پیپرز استعمال کیے گئے ہیں وہ دوران معائنہ جعلی نکلے ہیں۔
شہری وضاحت پیش کرتے ہیں کہ جناب ہم نے اسٹامپ پیپرز کی رقم ادا کی ہے۔ وکیل نے کاغذات تیار اور رجسٹرار نے رجسٹریشن کی ہے ہمیں اس وقت یہ کیوں نہیں بتایا گیا مگر انھیں کوئی تشفی بخش جواب دینے کی بجائے الٹا ان سے سوال و جواب کر کے یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ مطلوبہ مالیت کے نئے اسٹامپ پیپرز دوبارہ فراہم کردیں تو ان کے کاغذات کلیئرکردیے جائیں گے۔ لہٰذا خریدار شہری کے لیے ایک ہی راستہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ کروڑوں کی جائیداد بچانے کے لیے اسٹامپ پیپرز کی مالیت کی دہری ادائیگی کر کے جان خلاصی کرائے۔
اس طرح ایک ایسا میکنزم تیار کیا گیا ہے کہ محکمے کو جعلی اسٹامپ پیپرز کی فروخت سے جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کی زر تلافی شہریوں کی جیبوں کو صاف کر کے کی جائے اور جعلسازوں پر بھی کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار اور منظم انداز میں جعلی اسٹامپ پیپرزکی فراہمی اور استعمال بغیر اسٹامپ آفس اور اسٹامپ وینڈرز کی ملی بھگت کے کس طرح ممکن ہے؟ یہ معاملہ سامنے آیا بھی تو محض اس لیے کہ اس جعلسازی سے محکمے کو بڑے مالی خسارے کا سامنا تھا جس کی تلافی یہ رقم شہریوں کی جیبوں سے نکال کر کی جا رہی ہے۔
جائیداد کے خریداروں سے رقم اینٹھنے کا تو خود ساختہ سائنٹیفک راستہ نکال لیا گیا ہے لیکن دیگر دستاویزات میں استعمال ہونے والے جعلی اسٹامپ پیپرز کی مالیت کی وصولی کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جعلی اسٹامپ پیپرز پر تیار کردہ دستاویزات کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ ان سے کون سی قانونی قباحتیں اور حق تلفیاں جنم لیں گی؟ جعلی و موثر بہ ماضی یعنی بیک ڈیٹڈ اسٹامپ پیپرزکا کاروبار معاشرے پرکیا اثرات مرتب کررہا ہے اس کا انھیں ذرا بھی شعور و احساس ہے؟ جعلی اسٹامپ پیپرزکے اسکینڈل کی تحقیقات کا آغاز تو محکمے کے متعلقہ افراد، اسٹامپ وینڈروں اور پراپرٹی رجسٹرار سے ہونا چاہیے تھا، اس میں محکمہ جاتی کارروائی کے علاوہ دیگر حکومتی تحقیقاتی ایجنسیوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
ان کرپٹ عناصر اور جعلسازوں کا گھیرا تنگ اوراحتساب ہونا چاہیے جو اس کاروبار میں ملوث ہوکر قومی خزانے کے اربوں روپے ہڑپ اور شہریوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس کی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کا مقصد بھی یہ بیان کیا گیا تھا کہ وہ جعلسازی کا پتہ لگا کر جعلی مہروں اور اسٹامپ پیپرز کی روک تھام کے اقدامات تجویز کرے گی اور اس مذموم کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔ لیکن کمیٹی نے اپنے قیام کے اغراض و مقاصد نظر انداز کرکے سہل طریقہ یہ اختیار کرلیا ہے کہ جعلسازی کی رقم شہریوں کی جیبوں سے نکالی جائے جس سے نہ صرف جائیداد کی خریداری کرنے والے شہریوں سے زیادتی ہو رہی ہے بلکہ اس اقدام سے جعلسازوں کا تحفظ بھی ہو رہا ہے جو جعلساز مافیا کے حوصلے مزید بلند کرنے کا باعث بنے گا۔ اور یہ عناصر قومی خزانے اور شہریوں کو لوٹنے کے لیے بے خوف و خطر نت نئے طریقہ واردات اپناتے رہیں گے۔
حکام اعلیٰ کو صورتحال کے صحیح تناظر کا جائزہ لے کر فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن سے غیر قانونی کاروبار میں ملوث عناصر کا قلع قمع کرکے مستقبل میں بھی محکمے کو بھاری نقصان سے بچایا جاسکے اور ہزاروں شہریوں کو جو ناحق پریشانیوں میں مبتلا کردیے گئے ہیں ،اس سے نجات دلائی جاسکے۔