کراچی میں بلوچوں کی سیاسی وسماجی حیثیت

کراچی میں بلوچ اپنی بہادری، ہمت و جرات کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے


Shabbir Ahmed Arman May 18, 2016
[email protected]

KARACHI: میرے گزشتہ مضمون بعنوان ''کراچی میں بلوچوں کی آمد'' نے عوامی سطح پر جو پذیرائی حاصل کی اس کا مجھے گمان بھی نہ تھا۔ بالمشافہ ملاقات، فونز، ای میلز، سوشل میڈیا کے ذریعے قارئین نے میری جو حوصلہ افزائی کی اس کے لیے سب کا مشکور ہوں اور ان کی رائے کے احترام میں کراچی اور لیاری کی تاریخی پس منظر کا ذکر جاری ہے۔ اس حوالے سے آج کا موضوع ہے، کراچی میں بلوچوں کی سیاسی و سماجی حیثیت۔

کراچی میں بلوچ اپنی بہادری، ہمت و جرات کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے، سیاست میں زیادہ سرگرم عمل تھے۔ ان کی سیا سی وابستگی سندھ اور بلوچستان سے رہی۔ کراچی میں سب سے پہلے خان آف قلات نے اپنا حاکم مقرر کیا بعد ازاں سندھ کے حکمران تالپور نے کراچی کا گورنر نظامانی کو مقررکیا جو بلوچ تھے۔ انگریزوں کے سندھ اور بلوچستان پر قبضے کے بعد انگریزوں کے خلاف ہونے والی ہر جنگ اور سیاسی تحریک میں بلوچ کمیونٹی نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔

1920ء میں تحریک خلافت اس کے بعد ریشمی رومال تحریک، ہجرت تحریک، علماء تحریک اور پھر بھگت سنگھ کی انگریزوں کے خلاف تحریکوں میں یہاں کے بلوچ شامل تھے۔ قبل ازیں 1888ء میں قادربخش عرف قادوں مکرانی کی انگریزوں کے خلاف تحریک میں بلوچ ان کے ساتھ تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بلوچستان کے سردار نورالدین مینگل کی انگریزوں کے خلاف اعلان بغاوت، 1917ء میں روسی بالشویک انقلاب، افغانستان میں امان اللہ کی خود مختاری کا اعلان، کراچی میں مولانا صادق کھڈہ لیاری کی علماء تحریک اور 19ویں صدی کی دوسری دہائی میں اہم ملکی تبدیلیوں کی رونما ہونے سے ان کے اثرات کراچی میں زیادہ پڑے۔

ان تمام واقعات نے کراچی کی بلوچ کمیونٹی کے سیاسی شعور میں مزید اضافہ ہوا اور انھوں نے ذرایع ابلاغ کا استعمال شروع کردیا ۔ اس زمانے میں صرف ان لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل تھا جن کے پراپرٹی ( جائیداد ) ہوا کرتی تھی یا وہ کاروباری لوگ جو ٹیکس ادا کرتے تھے، جن میں خوجہ، ہندو، پارسی برادری شامل تھے، انھوں نے تعلیمی شعور کی وجہ سے اپنی انجمنیں قائم کی ہوئی تھی ان کی دیکھا دیکھی میں بلوچ کمیونٹی نے بھی اپنی انجمنیں قائم کرنا شر وع کر دیں۔ 1927ء میں دو بلوچ رہنماؤں محراب خان عیسیٰ خان اور غلام محمد نورالدین نے لوگوں میں ووٹ دینے کا احساس پیدا کیا۔ 1935ء کے ایکٹ کے بعد جب کراچی کے بلوچوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوا تو محراب خان عیسیٰ خان کو بلدیہ کراچی کا پہلا کونسلر منتخب کیا۔ اس سے قبل بلدیہ کراچی میں انگریز حکمران خود کونسلر نامزد کرتے تھے۔ 1930 ء میں فقیر محمد دراخان اور مولوی عثمان بلدیہ کے نامزد کونسلر تھے جنھیں انگریزوں نے بلوچوں کی سیا سی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے نامزد کیا تھا۔

کراچی ادبی دنیا کا بھی مرکز تھا، بلوچوں نے بھی مولانا عبدالصمد سربازی کی سربراہی میں پہلی بلوچی ادبی تنظیم بلوچی دیوان کا قیام عمل میں لائے۔ 1925ء میں میزان صرف کے نام سے بلوچی گرامر کتاب شایع کی گئی۔ اس کے بعد انجمن اتحاد بلوچ کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم بنایا گیا جو1930 ء کے بعد بلوچی لیگ میں ضم کیا گیا۔ سماجی انجمنوں کے حوالے سے بلوچ کمیونٹی نے سب سے پہلے انجمن اصلاح قوم کے نام سے قائم کی جو آج بھی لیاری کے علاقے گل محمد لین میں سرگرم عمل ہے۔

اسی زمانے میں سیاسی تحریکوں پر پابندی عائد تھی اس دوران بلوچ لیگ کی پہلی سیا سی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کراچی کے بلوچ ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوئے، دوسری جانب مگسی قبیلے کے سردار یوسف مگسی کو انگریز حکمران بغاوت کی پاداش میں مستونگ میں قید کر دیتے ہیں تو کراچی میں بلوچ لیگ وائسرائے ہند کو ٹیلی گرام کے ذریعے الٹی میٹم دیتی ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر یوسف مگسی کو رہا نہ کیا گیا تو کراچی کے تمام بلوچ مستونگ کی جانب مارچ کریں گے۔ نتیجتا انگریز حکمران یوسف مگسی کو رہا کر دیتے ہیں۔

یہ پہلا واقعہ تھا کہ کراچی کے بلوچ اپنا بڑا سیاسی مطالبہ برٹش انتظامیہ سے منوانے میں کامیاب ہوئے۔ 1932ء میں غلام محمد نورالدین، سردار یوسف مگسی، عبدالعزیزکرد، عبدالصمد اچکزئی و دیگر مل کر آل کراچی بلوچ کانفرنس جیکب آباد میں منعقد کرتے ہیں، اس کانفرنس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کے بلوچوں کے کراچی کے ساتھ تعلقات مستحکم ہو جاتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کی تمام تحریکوں کا مرکز کراچی ہی رہا ہے اور کراچی کے بلوچ رہنما ان کے رہبر رہے ہیں۔ 1932ء میں اسماعیل خلیفہ نامی بلوچ نے ایک اخبار البلوچ کے نام سے جاری کیا جس میں بلوچوں کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی مطالبات کی نمایندگی کی اور دیگر ممالک میں آباد بلوچوں کے مسائل کو بھی اجاگر کرتے رہے۔

کراچی میں آباد بلوچ کمیونٹی نے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علاقائی سطح پر اپنی انجمنیں قائم کیں جن میں شادی بیاہ کے موقعے پر کھانے کے برتنوں کی بلا معاوضہ فراہمی، اموات کے موقعے پر میت کے لیے کفن دفن، قبرکی تیاری اور دیگر سامان کی فراہمی، اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال، کھیلوں کا انعقاد، تہواروں پر میلے کا انتظام اور فلاح و بہبود کے دیگر کاموں کی سرگرمیاں شامل تھیں۔ آج بھی کراچی میں آباد بلوچوں کی یہ سماجی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مزدوروں کی یو نینوں میں بھی کراچی کے بلوچ کافی سرگرم عمل تھے اور ٹریڈ یونین تحریک میں بلوچ کارکنوں نے کافی قربانیاں دیں۔ تقسیم ہند سے قبل مشہور ٹریڈ یونین لیڈر نارائن پیچر کے سرگرم کارکن بلوچ ہی تھے۔

کراچی برصغیر پاک و ہند میں علم کا مرکز شروع سے ہی رہا ہے۔ سندھ مدرسہ الاسلام علم کا مرکز تھا جہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بمبئی اور انڈیا کے دیگر شہروں سے لوگ آتے تھے۔ بلوچستان اور سندھ سے بھی لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی آتے تھے۔ گو کہ انگریزوں کے دور سے ہی بلوچوں کو تعلیمی لحاظ سے پیچھے رکھا گیا لیکن کراچی کے بلوچوں نے ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں کے پسماندہ غیر تعلیم یافتہ بلوچوں نے اپنی قیادت کے لیے ہمیشہ تعلیم یافتہ افراد چنے، جنھوں نے اس جبر کے دور میں ہمیشہ موثر انداز میں کراچی کے بلوچوں کی نمایندگی کی اور مطالبات برٹش انتظامیہ سے منوائے۔

اس وقت کے سرکردہ بلوچ تعلیم یافتہ افراد میں غلام محمد نورالدین، اے کے بروہی، مولوی عبدالصمد سربازی، عبدالحق، صالح محمد، حاجی سلمان ٹنڈیل، ذاکر گل محمد زرابی، علی محمد جتوئی، اکبر فروٹ مرچنٹ، اسماعیل برہانی، ماسٹر یوسف، پیر بخش لال شہداد زئی ولی زادہ، ماسٹرفیض، مولوی عثمان، غلام رسول وغیرہ جیسے نامی گرامی لوگ تھے، ان لوگوں کی کاوش سے کراچی میں بلوچ کمیونٹی کے علاقوں میں کئی اسکول کھولے گئے، جن میں احرار الاسلام مدرسہ ریکسرلین، سندھ مدرسہ لیاری، حسن علی آفندی اسکول گل محمدلین، جامعہ عبداللہ ہارون کھڈہ، کلاکوٹ درا خان پرائمری اسکول، عیدولین پرائمری اسکول، بیبی زرک پرائیویٹ اسکول، عثمان بروہی اسکول ککری گراونڈ، جینو بائی جی الانا پرائمری گرلزاسکول، فقیرمحمد دراخان پرائمری اسکول، سندھی اسکول، عمرلین پرائمری گرلز اسکول، رانگی واڑہ پرائمری اسکول، سندھ گورنمنٹ ملا اسکول قائم ہوئے ۔

ان اسکولوں کے قیام کی وجہ سے بلوچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہوئی ۔مذہبی درسگاہوں میں بھی عالم بلوچ تھے جہنوں نے مدرسے قائم کرکے دینی تعلیم کو رائج کیا۔ مولوی عبدالصمد سر بازی نے بلوچی زبان میں قرآن مجیدکا ترجمہ لکھنا شروع کیا، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی جسے بعد میں مولوی خیر محمد ندوی نے مکمل کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں