خالص احساس لافانی ہے
کچھ پسندیدہ شاعروں کا ذکر کرنا چاہوں گی، جن میں ولیم ورڈز ورتھ سرفہرست ہیں۔
SOFIA:
کچھ پسندیدہ شاعروں کا ذکر کرنا چاہوں گی، جن میں ولیم ورڈز ورتھ سرفہرست ہیں۔ یہ فطرت کے حسین شاعر ہیں اور رومانوی تحریک کے روح رواں بھی۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں ورڈز ورتھ نے محسوس کر لیا کہ اب شاعری کو زندگی سے قریب ترین ہونا چاہیے۔
ولیم ورڈز ورتھ کے تنقیدی رجحانات اور شاعرانہ رمز نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر حساس شاعر کو ان کی شاعری نے ضرور متاثر کیا ہو گا۔ ولیم ورڈز ورتھ 7 اپریل 1770ء میں لیک ڈسٹرکٹ کے ایک سرسبز گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے ارد گرد فطری خوبصورتی جا بجا بکھری ہوئی تھی۔ فطرت میں ایک الہامی پیغام پوشیدہ ہے۔ جسے ورڈز ورتھ بچپن سے کھوجتا رہا۔ انسان کی لامحدود کھوج کا جواب، کسی حد تک فطرت سے ملتا ہے۔
بات مشاہدے کی گہرائی اور تجربے کی وسعت کی ہے۔ اس شاعر کی ذہنی ترویج فطری نظاروں کے ساتھ ہوئی۔ کائنات کے مختلف رنگوں میں ورڈز ورتھ نے مختلف انسانی احساسات کو دریافت کیا۔ نفرت، محبت، غصہ، نرمی، اپنائیت اور دھتکار یہ سب فطرت کی زندگی کا خاصا ہیں۔ ندی کے پانی کی روانی، پانی میں لرزتے پہاڑوں کے پراسرار ہیولے، سرمئی بادلوں کے زمین پر اداس رنگ اس کے تصور میں خوف اور دہشت بھر دیتے۔ کائنات کی وسعت میں انجانا خوف اور بے یقینی بھری ہوئی ہے۔ شاعر کا تصور ہر خوبصورت منظر کے پیچھے کائنات کے اسرار کو ڈھونڈتا ہے۔
خوف ایک فطری جذبہ ہے۔ یہ بے یقینی سے جنم لیتا ہے، کہا جاتا ہے کہ مذاہب بھی خوف کی پیداوار ہیں۔ خوف نہ ہوتا تو فن و فکر کی دریافت ممکن نہ تھی۔ انسان بے یقینی سے یقین کی طرف جاتا ہے۔ پھر حالات کی وجہ سے شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
انقلاب فرانس کی خونریزی اور فرانس کے برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ نے اس شاعر کی حساسیت کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ شاعر اپنے لفظوں میں امن و محبت کے خواب بنتا ہے۔ شاعری انسانیت اور فطرت سے ہم آہنگی کا ثمر کہلاتی ہے۔ جتنا یہ تعلق مربوط ہوتا ہے شاعری اتنی ہی پراثر ہوتی ہے۔ یہ روح کے حبس کو نجات کا راستہ سمجھاتی ہے۔ چھوٹی اور بے ضرر خوشیوں کو سمیٹ کر دل کا چراغ روشن رکھتی ہے۔ ورڈز ورتھ کا ناصحانہ انداز ہرگز نہیں ہے، مگر اس کی شاعری قاری کو سچائی، حسن و مقصدیت سے جوڑ دیتی ہے۔
رومانوی تحریک کے زیر اثر بہت سے شعرا تھے۔ جن میں جان کیٹس، شیلے اور کولرج کے نام قابل ذکر ہیں۔ کیٹس حسیاتی شاعر تھا۔ وہ غم کے بوجھل لمحوں سے فرار حاصل کرنے فطرت کی رنگین پناہ گاہ کی طرف لپکتا۔ جب کہ کولرج کی شاعری میں فطرت کا پرفسوں ماحول تمام تر پراسراریت کے ساتھ دکھائی دیتا۔ فطرت ایک معمہ بھی ہے۔ جسے سلجھانے کی دھن میں شاعر ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اور الفاظ الہامی کیفیت کی صورت سچائیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
شیلے کے اندر ایک باغی روح موجزن تھی۔ اس کی شاعری بھی انقلاب فرانس سے متاثر تھی وہ فطرت کے تباہ کن اثرات سے واقف تھا۔ یہ بیک وقت تعمیری اور تخریبی اثر لیے ہوئے تھی۔ مظاہر فطرت کے دونوں رُخ انسانوں کے لیے سبق آزما ہیں۔ انسان اگر فطرت کی کتاب سے نہیں سیکھتا تو دنیا کے فلسفے اس کے لیے بیکار ہیں۔ ذاتی مشاہدہ اور اس کی گہرائی فطرت کی مرہون منت ہے۔ لیکن ولیم ورڈز ورتھ اپنے دور کے شعرا سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ماحول کو کسی نظریے یا مخصوص نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ کیونکہ فطرت کو پرکھنے کے لیے غیر جانبدار آنکھ چاہیے۔ ورڈز ورتھ کی شاعری کا پیغام کچھ اس طرح سے ہے:
فطرت انسانی ذہن و احساس کو شفاف بناتی ہے۔
جب ذہن و روح فطرت کی توانائی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو، انسانی ذہن ناقابل تسخیر طاقت بن جاتا ہے۔ فطرت رابطے کا ہنر سکھاتی ہے۔ رابطہ، انسان کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتا۔
مٹی کی قربت سوچ و خیال کو خالص پن کے قریب رکھتی ہے۔ خالص احساس لافانی ہے۔
زمین و فطرت ماں کی گود جیسی مہربان ہے۔ جس قدر عطا کرتی ہے انسان کو بھی بدلے میں ویسی ہی فراخ دلی دکھانی چاہیے۔ اسے بھی فطری زندگی کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
فطری زندگی کا سکون، ہم آہنگی اور رابطے کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے۔
فطرت بے ساختہ خوشی و آگہی کا امتزاج ہے۔
دوسرے شاعروں کی طرح، وہ فرار حاصل کرنے، فطرت کے قریب نہیں جاتا بلکہ فطرت کی توانائی ہمہ وقت اس کے ذہن کو متحرک اور فعال رکھتی ہے۔
ورڈز ورتھ کا فطری مشاہدہ لمحہ موجود میں جینے اور محظوظ ہونے کا ذریعہ ہے۔ فطرت سے مخاطب ہو کے کہتا ہے:
او فطرت کی روح خالص اور بے مثال جو میرے ساتھ مسرور ہے جس کے ساتھ میں ہوں مطمئن و شاداں۔
یہ جسم و روح کے درمیان مضبوط معاہدہ ہے۔ طبعی طور پر فطرت سے تعلق، رومانی آسودگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کا اپنے جسم سے رابطہ فعال نہیں تو وہ کئی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ حسیاتی طور پر غیر متحرک ہو جاتا ہے۔ بے حسی اور لاتعلقی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ عارضی خوشیوں کی تلاش میں بھٹکنے لگتا ہے۔
یہ بے کلی، خالص پن سے دور جانے کا نتیجہ ہے۔ انسان کسی طور فطرت کے قوانین کو رد نہیں کر سکتا۔ فرض کیجیے سانسوں کی روانی نہ ہو تو ذہن کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ دوسری جانب سانسوں کے فطری بہاؤ کے لیے سکون اور خوشی کا ہونا ضروری ہے۔
زندگی کا تمام تر جسمانی، ذہنی و روحانی انتشار، رابطے کے خلل سے پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا اس کی نظر میں انتشار سے باہر نکلنے کا واحد ذریعہ فطرت کی قربت ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق سبزہ، دریا، سمندر اور پہاڑ صحت بخش توانائی کا محرک کہلاتے ہیں۔
تمام تر فطرت مظاہر میں ایک متحرک اصول کڑی در کڑی ہے کائنات کی روح میں گردش کرتا ہوا۔
یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایک ایسی کھلی کتاب جس کے ہر ورق پر محبت، سچائی و سادگی کی انوکھی مثالیں ملتی ہیں۔
لیکن اس ترتیب میں بگاڑ کا عنصر انسان نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ وہ اپنی روح کے خالص پن سے آج کوسوں دور کھڑا ہے۔