گدھے آم نہیں کھاتے
نمائش میں آم دیکھ کر غالب کی یاد آئی جن کا کہنا تھا کہ ’’آم ہوں...
مرزا اسد اللہ خان غالب کے ایک دوست کو ان کی آموں سے رغبت کا علم تھا۔ اس نے مرزا کے ہمراہ گلی میں سے گزرتے ہوئے ایک گدھے کو دیکھا کہ اس نے آم کے چھلکوں کو رُک کر سونگھا اور انھیں کھائے بغیر آگے چل دیا۔ مرزا غالب بھی ادھر ہی دیکھ رہے تھے۔ دوست نے مرزا کو چھیڑا اور کہا ''تم نے دیکھا گدھے بھی آم پسند نہیں کرتے۔'' مرزا نے تُرنت جواب دیا، ''درست کہتے ہو گدھے آم نہیں کھاتے۔''
یہ جولائی کا مہینہ ہے اور آٹھ سال قبل یہی مہینہ تھا جب میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کے ہمراہ فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے ایک شعبے سے دوسرے میں وائس چانسلر کی بریفنگ کے دوران جاتے ہوئے رکا تو بتایا گیا کہ اب ہم آموں کی نمائش والے ہال میں داخل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے پھلوں کے سردار آم کی اتنی نسلیں ایک جگہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملی تھیں۔ انور رٹول' چونسہ' سندھڑی' لنگڑا' بیگن پھلی' سرخا' لال بادشاہ' الماس' کلکٹر' طوطا پری' فجری' گل نواز' لہوتیا' تمورا' صالح بھائی' نیلم' فخر نواز' سنہرہ جنھیں دیکھ کر غالب کی یاد آئی جن کا کہنا تھا کہ ''آم ہوں اور بہت سے ہوں'' لیکن اب بعض لوگ آموں کی پسند سے متعلق بہت Choosy ہو گئے ہیں۔ آج ہی گھر کی ڈور بیل بجی تو ریسیور پر آواز آئی کہ ''میں محمد منیر چوہدری کی طرف سے آیا ہوں۔'' مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ خوبصورت کارٹنز کے اندر فوم نیٹس میں لپٹے ہوئے رحیم یار خان کے چونسے آئے ہوں گے۔ پاکستان میں تو اب لوگ تحفہ میں بلٹ پروف کار بھی دیتے ہیں لیکن خلوص و محبت سے بھیجے گئے آم تو انمول ہوتے ہیں اور تشکر کے الفاظ دل پر لکھے جاتے ہیں۔
لوگوں کے تحفہ بھیجنے کے بھی اپنے طریقے ہیں۔ عرصہ پرانی گجرات کی بات ہے، میرا تحصیلدار ایک دن کی رخصت مانگنے آیا۔ میں نے مصروفیت پوچھ لی تو مسکراتے ہوئے بولا، ڈپٹی کمشنر صاحب کے حکم پر مارکیٹ سے آموں کی دس پیٹیاں خریدوں گا' ان سب پر From Multan لکھ کر دس اہم شخصیات کے گھروں پر اتاروں گا اور پیغام چھوڑوں گا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے پہلے چونکہ ملتان تعینات رہے ہیں، یہ آم ان کی سے محبت رکھنے والوں نے وہاں سے تحفتاً بھجوائے ہیں''۔
مجھے معلوم ہے ایک دوست کو کسی اعلیٰ شخصیت سے کام تھا۔ اس نے لاہور کی لبرٹی مارکیٹ سے اعلیٰ درجے کی شرٹس، نیکٹائیاں اور سویٹر خرید کر ہینڈ بیگ میں ڈالے اور بڑے صاحب سے عرض بیان کرنے کے بعد کہا کہ میں یورپ گیا تھا۔ واپسی پر آپ کی پسند کو پیش نظر رکھ کر چند حقیر تحفے آپ کی نذر کرنے کے لیے لیتا آیا۔
تحفے کے تبادلے کرنے کی دینی اور اخلاقی اہمیت سے کسی کو انکار نہ ہو گا لیکن لوگوں نے اسے دنیاداری میں بھی تیربہدف نسخہ پایا ہے۔ اگر غائب کا علم رکھنے والی کوئی ہستی آج کل کے تحفوں کا پول کھولنے پر آ جائے تو میں اور آپ انگشت بدنداں رہ جائیں کہ اﷲ اﷲ کیسا نورانی چہرہ' کیا فرمودات اور کیسے کیسے نذرانوں کی وصولی' عام انسان تو ہاضمہ دیکھ کر ہی دنگ رہ جائے لیکن بقول گورنر بلوچستان ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصل ہو یا جعلی۔ اسی طرح تحفے کی قدر و قیمت پر طعنہ زنی بھی غیرمناسب ہے۔ تحفہ تو تحفہ ہوتا ہے، تین مرلے کا ٹکڑا ہو' دس کروڑ کا پلاٹ یا لاہور کینٹ میں لگژری اپارٹمنٹ۔
اگرچہ تحائف کے تبادلوں کی کئی اعتبار سے اہمیت ہی نہیں فضیلت بھی ہے لیکن ہمارے باوردی اور بے وردی افسران اس کی یکطرفہ ٹریفک کو حق مانتے اور افضل گردانتے ہوئے آمد کو بسم اﷲ کہتے اور رفت پر لاحول پڑھتے ہیں لیکن ایک بار ہمیں نہایت دلچسپ لیکن ناقابل تحریر شرمساری کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ وہ یوں کہ ایک عید پر ہمارے بہت سے مہربانوں نے کیک کے ڈبوں کی بھرمار کر دی تو ہم نے تبادلوں کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چند ڈبے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھجوانے کی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کر دیا۔
اسی شام ہماری بیگم کی طرف کے ایک بزرگ جو بے حد غصیلہ ہونے کی شہرت رکھتے تھے تشریف لے آئے اور بیرونی دروازے ہی سے مٹھائی کے ڈبے کو لفافہ لہرا کر دکھانے کے بعد بولے، ''تم نے ہمارا بھیجا ہوا تحفہ ٹھکرا کر واپس کر دیا۔ اب ہم اسے گلی کے بچوں کو کھلائیں گے اور تم سے آیندہ راہ و رسم ختم''۔ انھوں نے کار موڑی اور تیزی سے چلے گئے۔
اس کے بعد سے ہم آنے والا ہر ڈبہ کسی اور کو بھجوانے سے پہلے اچھی طرح کھول کر چیک کرتے ہیں کہ کہیں اس کے اندر تحفہ بھجوانے والے کا وزٹنگ کارڈ تو نہیں رکھا ہوا لیکن ایک بار تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہو گیا کہ بڑی عید پر آنے والی بکرے کی ران ہماری بیگم نے کسی خاص نشان کی وجہ سے حلفیہ پہچان لی کہ یہ تو ہمارے بکرے کی ہی ہے اور یہ ران تو ہمی نے فلاں عزیز کو بھجوائی تھی۔
اگرچہ اب ویلنٹائن ڈے' ہیپی فادرز اور مدرز ڈے بھی آ گئے ہیں لیکن عیدین پر اور سالگرہوں کے علاوہ شادی کے دنوں کی یاد میں کارڈ بھجوانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ کارڈ کارنس پر سجتے تھے اور ان کی تعداد نوٹ کی جاتی تھی۔ ان مواقع کو اب موبائل فون کے ایس ایم ایس نے برباد کر دیا ہے بلکہ موبائل فون نے ناگفتہ بہ لطائف کا فلڈ گیٹ کھول دیا ہے۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ اسے آموں کے تحائف تک ہی محدود رکھا جائے تو اچھا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب' گرمی اور حبس کی شدت' تکلیف دہ گرانی' لاقانونیت کی کھلی چھوٹ کے اندوہناک ماحول میں شکر خدا کہ پھلوں کا بادشاہ آم آیندہ ایک ماہ تک تو ہمارا ساتھ دے گا اور ہاں آم کی شوگر کا توڑ جامن بھی تو برموقع قدرت کا عطیہ ہے۔