روکے گئے ایف 16طیارے
امریکا اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھتے رہے ہیں۔
امریکا اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھتے رہے ہیں۔ امریکا آج دنیا کی اکلوتی سُپر پاور ہے تو اس میں پاکستان کا بھی ایک بنیادی کردار ہے کہ دوسری سُپر پاور، سوویت یونین، کو توڑنے اور بکھیرنے میں پاکستان کا لہو کام آیا۔ عالمی برادری کی ایما پر دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ اس کے لیے وطنِ عزیز نے کئی میدانوں بھاری قیمت ادا کی ہے۔ آج عالمی برادری پر یہ بنیادی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو مادی، اخلاقی اور اسلحی امداد فراہم کرے لیکن امریکا نے عین موقع پر پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کر دیا ہے۔
کبھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ گرفتار ڈاکٹر شکیل آفریدی، جس نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کا ڈی این اے حاصل کرنے میں امریکی سی آئی اے کی امداد کی تھی، کو امریکا کے حوالے کیا جائے۔ امریکا، افغانستان اور بھارت کا انھی دنوں حقانی نیٹ ورک کے خلاف اسی لیے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کیونکہ چند ہفتے قبل ہی ملّا سراج الدین حقانی کو افغان طالبان رہنما، ملّا منصور، کا نائب مقرر کیا گیا ہے۔
امریکا نے خواہ مخواہ پاکستان کو تختۂ مشقِ ستم بنا رکھا ہے۔ تجزیہ کار منیر اکرم کہتے ہیں: ''پاکستان کو ایف سولہ طیارے نہ دینے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ امریکا، چین کی دشمنی میں پاکستان کو بھی زِچ کر رہا ہے۔'' ایسے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ عالمی حالات اور امریکی بدنیتیوں پر گہری نظر رکھنے والے اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہی مناسب ہو گا کہ وہ امریکا سے محاذ آرائی کے بجائے حکمت اور صبر کے ساتھ اس الجھن کی سلجھن تلاش کرے، بصورتِ دیگر امریکا ردِ عمل میں پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان کو بہرحال امریکی انتظامیہ پر واضح کر دینا چاہیے کہ حالات خواہ جیسے بھی ہوں، وہ امریکی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گا۔ امریکی وعدے اور معاہدے کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد، فارن ملٹری فنانس، کے تحت آٹھ ایف سولہ طیارے فراہم کیے جانے تھے کہ یکا یک امریکی کانگریس نے یہ طیارے روک دیے ہیں۔ یقینا پاکستان کو اس امریکی فیصلے سے دھچکا لگا ہے اور بھارت کو خوشی ملی ہے۔ اس کا اندازہ بھارت کے ممتاز انگریزی اخبارات میں پاکستان کے خلاف شایع ہونے والے مضامین سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو، فی الحال، امریکا کی طرف سے ایف سولہ طیاروں کا روکا جانا سفارتی سطح پر پاکستان کی ناکامی اور بھارت کی کامیابی ہی کہا جا رہا ہے لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے مقابل امریکا کو بھارت میں زیادہ مفادات نظر آ رہے ہیں۔ ''ضربِ عضب آپریشن'' میں دہشت گردوں کے مضبوط اور خفیہ ٹھکانوں کے خاتمے میں ایف سولہ طیاروں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ تو کیا پاکستان کو یہ موعودہ آٹھ ایف سولہ طیارے کبھی مل بھی سکیں گے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب لاہور سے شایع ہونے والے ایک انگریزی ہفت روزہ جریدے کی تازہ اشاعت نے ان الفاظ میں دیا ہے: ''امریکی سینٹرل کمان کے نئے کمانڈر، جنرل جوزف ووٹل نے اسلام آباد میں پاکستان کے سیکریٹری دفاع، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عالم خٹک، سے ملاقات کر کے انھیں صاف صاف بتا دیا ہے کہ امریکی کانگریس کے پاکستان مخالف اراکین کو یہ یقین دلانا ہمارے لیے مشکل ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو ایف سولہ طیارے دیے جائیں۔'' اس کے باوجود پاکستان کی طرف سے سفارتی کوششیں جاری ہیں کہ کسی نہ کسی طرح روکے گئے ایف سولہ طیاروں کا اجرا ممکن بنایا جائے۔ مثال کے طور پر وزیراعظم محمد نواز شریف کے مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز کا تازہ بیان۔
بھارت نے بہت کوشش کی ہے کہ امریکا کو قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی صورت میں ایف سولہ جنگی طیارے فراہم نہ کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارتی وزیرِدفاع، منوہر پاریکر، نے خصوصی طور پر امریکا کا خفیہ دورہ کیا۔ اور جب امریکی وزیرِدفاع، ایشٹن کارٹر، نے اپریل 2016ء کے دوسرے ہفتے بھارت کا دورہ کیا تو بھارتی وزیراعظم، وزیرِدفاع اور آرمی چیف کی طرف سے کارٹر پر بے پناہ دباؤ ڈالا گیا کہ پاکستان کو ہر گز ہر گز ایف سولہ طیارے نہ دیے جائیں۔ حتیٰ کہ امریکی وزیرِدفاع کو بھارت میں موجودگی کے دوران ہی یہ کہنا پڑا: ''ہم پاکستان اور بھارت کو ایک ہی سکّے کے دو رُخ کی حیثیت میں نہیں دیکھتے۔ امریکا، بھارت کا اسی طرح گہرا دوست ثابت ہو گا جس طرح گزشتہ کئی دہائیوں سے روس، بھارت کا گہرا دوست ثابت ہوتا آیا ہے۔'' اس بیان کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔
پاکستان کی اجتماعی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ امریکا میں پاکستان کے ایک سابق سفیر صاحب بھارتی اور امریکی اخبارات میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکلز میں مسلسل یہ منفی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ امریکا، پاکستان کو ایف سولہ طیارے فراہم نہ کرے ''کیونکہ یہ طیارے آخر کار بھارت کے خلاف ہی بروئے کار آئیں گے۔'' اس پروپیگنڈے سے امریکی کانگریس کے کئی ارکان متاثر ہوئے۔ مَیٹ سالمن ایسے ہی امریکی ارکان کا لیڈر ہے جنہوں نے مل ملا کر پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی روک دی۔ امریکا کی نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی ایشیا، نشا بسوال ڈیسائی، بھی ایسے ہی پاکستان مخالف عناصر میں شامل ہیں۔ یہ ''محترمہ'' بھارتی نژاد امریکی ہندو ہیں اور انھوں نے بھی کھُل کر پاکستان کو ایف سولہ طیارے نہ دینے کی سفارش کی تھی۔
اس ضمن میں امریکا نے پاکستان کو مسلسل دھوکے میں رکھا۔ فروری 2016ء تک تو پنٹا گان کے پریس سیکریٹری، پیٹر کک، کی طرف سے پُر زور الفاظ میں کہا جا رہا تھا کہ امریکا اگر پاکستان کو ایف سولہ طیارے دے رہا ہے تو بھارت کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ گویا امریکا نے رفتہ رفتہ اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا کر کے اچانک انکار کیا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام امریکی عہد شکنیوں سے ایک بار پھر مایوس ہوئے ہیں۔