بے سہارا خواتین کی کہانی

’’سنہری روپہلی دولت کی دیوی، جب زرداروں کی محفل میں آئی تو صدیوں پرانے صنم ڈھے گئے، پیر و زن سب روبہ سجدہ ہوئے‘‘۔


Zuber Rehman May 20, 2016
[email protected]

''سنہری روپہلی دولت کی دیوی، جب زرداروں کی محفل میں آئی تو صدیوں پرانے صنم ڈھے گئے، پیر و زن سب روبہ سجدہ ہوئے''۔

یہ اشعار شیکسپیئر کی ایک نظم 'دولت کی دیوی' کے ہیں۔ اس نظم کو کارل مارکس سرمایہ داری کے خلاف اکثر اپنے اجتماعات میں پڑھا کرتے تھے۔ مارکس اسی ماہ مئی کی 5 تاریخ 1883 میں رائین لینڈ، جرمنی میں پیدا ہوئے۔

وہ جب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو ان کے ذہن میں ہر وقت ایک سوال طاری رہتا تھا اور وہ تھا کہ 'میں کیوں پیدا ہوا؟' آخرکار جب ان کی عمر 19 سال کی ہوئی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ 'انسان کی پیدائش، اس کے سوا اور کسی کام کے لیے نہیں کہ وہ لوگوں کی خدمت کرے'۔ ان ہی خیالات کی بنیاد پر انھوں نے روسو، ہیگل، فیئرباخ، سینٹ سائمن، روبارٹ اووین اور چارلس فیریئر کے نظریات کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ 'کمیونسٹ سماج، یعنی امداد باہمی کے آزاد معاشرے کے قیام کے بغیر لوگوں کی بھلائی کی جاسکتی ہے اور نہ کسی قسم کی خوشحالی۔

مارکس نے ایک موقع پر کہا تھا کہ 'خونی رشتہ ظالم رشتہ ہوتا ہے'۔ اس لیے کہ یہاں جائیداد کا جھگڑا ہوتا ہے، بٹوارا، تقسیم، حصہ اور قبضہ وغیرہ کرنے کے لیے بھائی بھائی سے لڑجاتا ہے، بھائی بہن کا حق چھین لیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو وڈیرے اپنی بچیوں اور بہنوں کی قرآن سے شادی کرا دیتے ہیں، اس لیے کہ جائیداد اپنے پاس رہے۔

یہ جائیداد کے جھگڑے صرف خیبرپختونخوا، اندرون سندھ یا پنجاب میں ہی نہیں ہوتے، کراچی جیسے مقابلتاً ترقی یافتہ شہر میں بھی ہوتے ہیں۔ پرانی سبزی منڈی کے قریب کا واقعہ ہے، جہاں دو بہنیں جو کہ طلاق یافتہ تھیں، ان کے والد کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد کو ہتھیانے کے لیے دو سگے بھائیوں نے دونوں بہنوں کو گھر سے نکال باہرکیا۔ دونوں بہنوں نے ایدھی سینٹر میں پناہ لی، ان میں سے ایک چھوٹی بہن ایدھی سینٹر میں ہی انتقال کرگئی اور دوسری ابھی بھی وہیں رہائش پذیر ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چھوٹی بہن کے خلاف اس کے سگے بھائیوں نے سازشیں کر کے اس کو طلاق دلوائی اور اس کے جہیز کا سامان اپنے قبضے میں لے کر اسے گھر سے نکال باہر کیا، پھر وہ خاتون ادھر ادھر ٹھوکریں کھا کر بعد ازاں ایدھی سینٹر میں جابسی اور وہیں اس کی موت ہوئی۔ خاتون نے 9 سال ایدھی ہوم میں گزارے۔ دونوں سگے بھائی کبھی بھی خاتون کی ماں کو ایدھی ہوم میں ملاقات کرانے نہیں لے گئے بلکہ خاتون کے ایک بہنوئی خاتون کی ماں کو اس سے ملانے ایدھی ہوم لے جایا کرتے تھے۔ جبخاتون کی حالت زیادہ خراب ہوگئی تو ایدھی ہوم والوں کا فون آیا اور کہا اسے لے جاؤ، حالت بہت خراب ہے، تو دونوں بھائیوں نے منع کردیا اور یہ کہا کہ چھوٹی بہن ، خاتون کو اپنے گھر لے جائے، جب مرجائے گی پھر گھر لے جاؤں گا۔ خاتون کا غسل اور کفن بھی ایدھی ہوم میں ہوا۔ میت کو صرف آدھا گھنٹہ اپنے گھر پر رکھا اور دفنانے کے لیے لے گئے۔

ان عوامل سے سارا محلہ باخبر ہے۔ دوسری بہن کی بھی بھائیوں نے طلاق دلوانے میں اہم کردا ادا کیا۔ جب دوسری بہنکی طلاق ہوگئی تو اس کے سسرال والوں نے حق مہر، تین ماہ کا خرچہ، دیگر جہیز کا سامان اور 5 تولے کی چوڑیاں، اس کے بھائی کے پاس امانت کے طور پر رکھوائیں، یعنی اس کی کل رقم تقریباً 15 لاکھ روپے کی بنتی ہے، جسے ہڑپ کیا گیا ہے۔ بھائی ماہانہ خرچے کے لیے صرف 15 سو روپے دیا کرتا تھا۔ پھر ایک روز دوسری بہن کو بھائیوں نے ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر کردیا۔ اس کے بعد دوسرے بھائی کے ہاں 2 ماہ گزارے، اس کے گھر والوں نے بھی گھر سے نکال دیا، تین دن ایدھی ہوم میں رہی، اس کے بعد دوسری بہن کی پھوپھی نے ایدھی ہوم سے اپنے گھر لے جا کر رکھا۔ بعد ازاں اسے ایدھی ہوم میں ہی جانا پڑا۔ یہ ہے 'دولت کی دیوی'۔

دولت کی لوٹ تو طبقاتی نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے، مگر اس نظام میں خاص کر ترقی پذیر ملکوں میں کچھ زیادہ ہی جبر و قہر ہے۔ دنیا کے پانچ ملکوں میں جہاں خواتین پر زیادہ ظلم ڈھائے جاتے ہیں، ان میں صومالیہ، افغانستان، صحرائے اعظم، روانڈا اور پاکستان ہے۔ اب تو نائیجیریا، عراق اور شام میں بھی داعش اور بوکوحرام سیکڑوں خواتین کو داشتہ بناتے ہیں اور قتل کردیتے ہیں۔ مگر گزشتہ برس سب سے زیادہ خواتین کا قتل افغانستان اور پاکستان میں ہوا۔ حال ہی کے واقعات ہیں کہ کراچی قائدآباد اور مومن آباد میں بھائیوں نے بہنوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا۔

اس سے قبل ایبٹ آباد میں عنبرین کو اپنی سہیلی کی شادی میں مدد کرنے کے جرم میں جرگے نے پھانسی دے کر گاڑی میں بند کرکے جلادیا۔ اب بھلا یہ کون غور کرے کہ گزشتہ برس مختلف واردات میں 6 ہزار خواتین کا قتل ہوا۔ غیرت، ونی، کم عمری میں شادی، بے جوڑ شادی اور کاروکاری میں خواتین کو ان کے مرد رشتے داروںکی جانب سے قتل کیا گیا، لیکن ان واقعات میں کتنی بہنوں یا ماؤں نے اپنے بھائیوں اور شوہروں کا قتل کیا؟ جواب نفی میں ملے گا۔ عمران خان نے پشاور اور بونیر میں خواتین کی جلسوں میں آمد پر پابندی لگادی ہے۔

یہ کام رجعتی مذہبی جماعتوں کا شیوہ تھا، اب تحریک انصاف نے بھی یہ کام شروع کردیا ہے۔ اب عمران خان کو چاہیے کہ آیندہ جلسوں میں مردوں پر بھی جلسوں میں آنے پر پابندی لگادیں۔ پھر تو ہوگا خواتین کے ساتھ انصاف۔ ایبٹ آباد میں عنبرین کی عظیم شہادت پر مذہبی جماعتوں کی خاموشی اور کوئی احتجاج نہ کرنا، نہ دھرنا دینا اور نہ اسمبلی میں بات اٹھانا، کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، ٹھیک ہوا۔

بنگلہ دیش کے مطیع الرحمن کے لیے جماعت اسلامی مظاہرہ تو کرسکتی ہے لیکن ایک غریب باپ کی بیٹی عنبرین کے لیے نہیں، یہ منافقت نہیں تو کیا ہے۔ خواتین ہوں یا لڑکیاں یا مزدور، ان سب کے حقوق کے مسائل ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی حل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ان تمام مسائل کا علاج ایک امداد باہمی کے آزاد سماج میں مضمر ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ ایک طبقاتی استحصالی معاشرہ ہے، یہاں پیداوار عوام کی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ اپنے منافعے کی بڑھوتری کے لیے کی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں