کیا امریکا ٹرمپ کے زیر دام آ جائے گا

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب امریکا کو 2016ء کے صدارتی انتخاب میں حاصل ہو گا


اکرام سہگل May 21, 2016

KARACHI: پیو ریسرچ سینٹر (PEW) نے ایک حالیہ سروے میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امریکی عوام کی رائے اس حوالے سے بٹی ہوئی ہے کہ امریکا کو بین الاقوامی طور پر کس قدر دبدبہ برقرار رکھنا چاہیے یا اپنی عالمی بالادستی سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ یہ سوال بھی امریکی عوام میں ابہام کا شکار رہا کہ کیا امریکا کو نامعلوم اندرونی بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب امریکا کو 2016ء کے صدارتی انتخاب میں حاصل ہو گا اور یہ انتخاب ہی 21 ویں صدی کے لیے امریکا کے عالمی کردار کا تعین کرے گا۔ 46 فیصد امریکی عوام کا خیال ہے کہ عالمی لیڈر کے طور پر امریکا کے کردار میں کمی آئی ہے اور اس کی وہ حیثیت نہیں رہی جو دس سال پہلے تھی، جب کہ 31 فیصد کا خیال ہے کہ امریکا اب بھی اتنا ہی طاقتور ہے کہ جتنا کے پہلے تھا، جب کہ 35 فیصد امریکی عوام کا ماننا ہے کہ امریکا کو اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ برقرار رکھنا چاہیے۔

24 فیصد عوام فوجی اخراجات میں تخفیف کے خواہاں ہیں جب کہ 40 فیصد چاہتے ہیں کہ ان اخراجات میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔ 77 فیصد امریکی اپنے ملک کی نیٹو کی رکنیت کے پرجوش حامی ہیں اور اسے امریکا کے لیے مفید گردانتے ہیں۔ سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اٹلانٹک کونسل کے حالیہ اجلاس میں اپنے اس انتباہ کا اعادہ کیا جو انھوں نے 5 برس قبل نیٹو کے رکن ممالک سے کیا تھا جو نیٹو کے لیے اپنے حصے کی رقم میں کمی کرنا چاہتے تھے۔ گیٹس نے کہا تھا کہ امریکا کی طرف سے نیٹو کے لیے جو رقم فراہم کی جاتی ہے وہ کانگریس کو بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس میں دیگر رکن ممالک کی رقم کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے جب کہ امریکا کو اپنی داخلی سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا بھی احساس ہے اور وہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اور زیادہ مؤثر اقدامات کرنا چاہتا ہے، لہٰذا نیٹو کے رکن ممالک کو بھی اس تنظیم کے لیے اپنے حصے کی رقوم میں اضافہ کرنا چاہیے۔

ریپبلکنز کی ایک بڑی اکثریت 74 فیصد سمجھتی ہے کہ امریکا عراق و شام میں اسلامی شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا۔ 57 فیصد ڈیموکریٹس کی طرح صرف 23 فیصد ریپبلکنز اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کی عراق و شام میں عسکری مداخلت ضرورت سے زیادہ ہے۔ جب امریکیوں سے پوچھا گیا کہ بڑھتی ہوئی عالمی دہشت گردی کا کس طرح سے سدباب کرنا چاہیے تو 47 فیصد کی رائے تھی کہ زیادہ سے زیادہ عسکری قوت کا استعمال کرنا چاہیے۔ لیکن قریباً اتنی ہی تعداد میں لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے امریکا مخالف جذبات کو مزید تقویت ملے گی اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہو گا۔ کلی طور پر 70 فیصد ریپبلکنز عسکری طاقت کے استعمال کے حامی ہیں اور 65 فیصد ڈیموکریٹس اس کے مخالف ہیں۔

ہیلری کلنٹن جو کہ ممکنہ طور پر امریکا کی پہلی خاتون صدر بن سکتی ہیں، امور خارجہ کی ماہر ہیں اور خارجی معاملات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ امریکا کی سابقہ خاتون اول ہونے کے ناطے انھوں نے صدارتی معاملات کا قریب سے جائزہ لیا ہے اور بڑی ہمت سے سیاسی اور ذاتی مسائل کا سامنا کیا ہے۔ اگر ہیلری کو ایک واضح مارجن سے یعنی لینڈ سلائیڈ جیت حاصل نہیں ہوتی تو ان کو کانگریس میں سخت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ان کی سیاسی حمایت یقینا ان کو ایسی صورتحال سے نبردآزما ہونے میں مدد کرے گی۔ اوباما کے دور صدارت میں حکومت کو بہت سی داخلی مشکلات کا سامنا تھا۔ ہیلری کی اپنی ذات کے ساتھ بھی کئی سکینڈل منسوب رہے ہیں جن میں وائٹ واٹر، ونس فوسٹر، ان کے شوہر بل کلنٹن کے معاشقے اور ان کا ذاتی ای میل حکومتی حساس معاملات کے لیے استعمال کرنا قابل ذکر ہیں۔

ڈونلڈٹرمپ کا دبنگ اور لا اُبالی انداز سفید فام مردوں کے لیے کافی کشش کا باعث ہے حالانکہ ان کی سیاست میں پختگی اور بردباری نہیں ہے۔ ٹرمپ غصے کے تیز، جذباتی انسان ہیںجو لوگوں پر حکم چلانا پسند کرتے ہیں۔ عام طور پر صدارتی امیدوار اس طرح کے سفید جھوٹ نہیں بولتے جس طرح ٹرمپ بولتے ہیں۔ لیکن یہ سب عوامل بھی ان کی مقبولیت کو کوئی خاص گزند نہیں پہنچا سکے۔

ان کے بیشتر بیانات متنازعہ رہے ہیں جیسے کہ امریکا اور میکسیکو کے بارڈر پر دیوار تعمیر کرنا، مسلمانوں کے امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرنا اور غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا جن کی تعداد گیارہ ملین (ایک کروڑ دس لاکھ) سے بھی زیادہ ہے، جن میں سفید فام مرد بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں ٹرمپ غیر جانبدار ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ جاپان اور جنوبی کوریا سے امریکی فوج کو واپس بلانا چاہتا ہے جہاں پر امریکا کے اہم فوجی مستقر قائم ہیں۔ انتہا پسندی کے بارے میں بھی ٹرمپ کے نظریات مختلف ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صدر بن کر وہ اپنے اس قدر غیر مقبول خیالات پر عمل درآمد بھی کرا سکے گا یا نہیں، یہ سوال مزید بحث مباحثے کا متقاضی ہے۔

اپنے نظریات کے حوالے سے ٹرمپ بہت زیادہ الگ تھلگ ہے۔ اس کے حامیوں کو یہ فکر ہے کہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں وہ کیا نکتۂ نظر اختیار کرے گا جب کہ امریکی عوام کے لیے سب سے بڑی تشویش داعش ، سائبر اٹیکس، شامی پناہ گزین اور عالمی اقتصادی عدم استحکام ہیں۔ رابرٹ گیٹس ٹرمپ کی ''امریکا سب سے پہلے'' کی پالیسی پر سختی سے تنقید کرتا ہے۔

امریکا اور امریکی عوام کو ایسی ہر پالیسی مسترد کردینا چاہیے جس کے نتیجے میں امریکا کے تنہائی کا شکار ہونے کا احتمال ہو۔ امریکی عوام کا کہنا ہے کہ بعض سیاست دانوں کے نظریات کے برعکس امریکا کا عالمی امور کی قیادت کرنا ہماری اپنی اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی کے مفاد میں ہے۔ اگر امریکا صرف اپنے اندر ہی مگن ہو جائے تو یہ بات نہ صرف دوسروں کے لیے خطرناک ہو گی بلکہ خود ہمارے لیے بھی خطرات بڑھ جائیں گے۔ ''پیو'' کے سروے کے مطابق ٹرمپ خاصی حد تک سنکی ثابت ہوا ہے۔ جس کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو صرف اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں اور دوسرے ملکوں کے مسائل دوسرے ملکوں کے لیے چھوڑ دینے چاہئیں۔

ریپلیکن پارٹی کے قدامت پسند عناصر کو ٹرمپ نے اپنی پرائمریوں میں ہائی جیک کر لیا۔ ڈیوڈ فرنچ نے نیشنل ریویو نامی جریدے میں لکھا ہے کہ ''ابرہام لنکن کی پارٹی تباہی کا شکار ہو گئی ہے۔ پرائمری میں اکثریتی ووٹ دینے والوںنے ملک کے بانیوں کی سوچ کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ انھوں نے اولڈ سکول ڈیموکریٹک آئیڈیالوجی کو ووٹ دیا ہے جس کے نتیجے میں امریکا تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے اور جارج ویلس کے بعد سے اس قسم کا زہر آلود صدارتی انتخاب کبھی نہیں ہوا۔'' جب کہ ٹرمپ ایک سخت گیر سفید فام مرد کے طور پر نمودار ہوا ہے لہٰذا ہیلری کو خواتین اور اقلیتوں کے بہت بھاری اکثریت میں ووٹ ملیں گے جن میں کہ سیاہ فام، ہسپانوی نژاد اور ایشیائی وغیرہ ووٹ شامل ہوں گے جن کو ٹرمپ نے خود اپنے ووٹروں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ ایک حالیہ سروے میں ہیلری کو بعض اہم ریاستوں میں جن میں کہ اوباما کی جیت ہوئی تھی ہیلری کو بھی کامیاب دکھایا گیا ہے۔

ان ریاستوں میں اوہائیو خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ چنانچہ ہیلری کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ وہاں نوجوان ووٹروں کو مؤثر طور پر متحرک کرے جب کہ سینیٹر برنی سینڈرز (جوکہ امکانی طور پر نائب صدر کا امیدوار ہو سکتا ہے) وہ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 1980ء میں ریپبلیکن اسٹیبلشمنٹ نے کہا تھا کہ قدامت پسند ہالی وڈ ایکٹر کسی صورت بھی میں کا صدرارتی امیدوار نامزد نہیں ہو سکتا لیکن ریگن نے 1980ء اور 1984ء کے انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے۔ جو لوگ مسلسل ٹرمپ کے بارے میں یہ اندازہ لگاتے رہے ہیں کہ وہ ریپلیکن پارٹی کی نامزدگی ہرگز حاصل نہیں کر سکتا اب وہی سارے لوگ اس کے پیچھے لائن لگائے کھڑے ہیں۔

ٹرمپ پر سب سے زیادہ تنقید ایوان کے اسپیکر پال ریان نے کی جس نے کہ ابھی تک اس کی تائید کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ البتہ آر این سی کے چیئرمین پریبس (Prebus) کے ساتھ اجلاس میں بیٹھ کر ان کا کہنا تھا کہ ہیلری کلنٹن کو نومبر میں شکست دینے کی خاطر انھیں اپنے اختلافات دور کرنے ہوں گے۔ یو ایس اے ٹوڈے میں ایک قاری نے تبصرہ کیا ہے کہ ریپلیکن نے اخلاقیات پر توجہ مرکوز کر کے بہت سے اعتدال پسندوں، حتیٰ کہ ڈیموکریٹس کو بھی تنہائی کا شکار کر دیا ہے لہٰذا اب امکان یہ ہے کہ منفی ووٹ بھی یا ہیلری کو یا ٹرمپ کو پڑے گا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکی ووٹر بہترین امیدوار کو ووٹ دیں گے یا اسے جسے وہ کم بُرا (Lesser Evel) خیال کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں