وہ ہیروئن جس کی جوتی میں ہیرے جڑے تھے
کراچی پریس کلب ہر دور میں صحافی دوستوں سے ملنے ملانے اورکم قیمت میں اچھا کھانا کھانے کی جگہ رہی ہے
SWAT:
کراچی پریس کلب ہر دور میں صحافی دوستوں سے ملنے ملانے اورکم قیمت میں اچھا کھانا کھانے کی جگہ رہی ہے کوئی دن ہی ایسا جاتا ہوگا کہ جب پریس کلب نہ جانا ہوتا ہو۔ پریس کلب میں ان دنوں تازہ مچھلی اور ماش کی دال بڑی مزیدار ملتی تھی، اسی زمانے میں ایک اورسینئر صحافی مقبول جلیس سے بھی میری بڑی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
ان کے فلمی دنیا کی نامور شخصیات سے بڑے اچھے اور گہرے مراسم تھے اور میرے جیسے تمام جونیئرصحافی مقبول جلیس کی بڑی عزت کرتے تھے اور وہ بھی سب سے بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔ان کی ایک خوبی تو یہ تھی کہ وہ ہر وقت بنے ٹھنے سوٹڈ بوٹڈ رہتے تھے اور دوسری بات یہ کہ وہ بڑے بے باک تھے اور ان کی گفتگو میں بڑا بے ساختہ پن تھا۔
یہ انھی دنوں کا واقعہ ہے میں رات 9 بجے کے قریب پریس کلب کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا اور مقبول جلیس بڑی تیزی میں پریس کلب سے باہرکی طرف جا رہے تھے، میں نے ان سے علیک سلیک کرتے ہوئے پوچھ لیا ''جلیس بھائی لگتا ہے آج آپ بڑی جلدی میں ہیں۔ کسی خاص تقریب میں جارہے ہیں یا کسی خاص شخصیت سے ملنے کا مشن ہے؟'' مقبول جلیس نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
''تقریب توکوئی نہیں ہاں ولیج (گارڈن) ہوٹل جارہا ہوں ،جہاں ایک ایسی فلمی شخصیت میرا انتظار کر رہی ہے، جوکبھی اپنے زمانے کی نامور فلمی ہیروئن تھی اورآج وہ کسی چھوٹے موٹے ہوٹل میں رات کا کھانا کھانے کے لیے بھی کسی واقف کار شخصیت کا انتظارکرتی ہے،اس کے پاس بعض اوقات گھر جانے کے لیے ٹیکسی کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے ہیں'' یہ باتیں سن کر میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں نے کہا ''جلیس بھائی! کیا آج میں بھی اس شخصیت سے مل سکتا ہوں کیا آپ کے ساتھ وہاں جاسکتا ہوں۔
اگرآپ کوکوئی اعتراض نہ ہو۔'' مقبول جلیس بولے '' آج ہماری سخاوت عروج پر ہے چلو ہمارے ساتھ۔ میں یہ سن کر پھولا نہ سمایا اور پھرکچھ دیر کے بعد ہم ولیج ہوٹل میں موجود تھے یہ بہت پرانا ولیج گارڈن ہوٹل ہے، جو ہوٹل میٹروپول کی بغل میں واقع تھا اورکافی بڑے حصے پرتھا مگر اب سکڑ کر بالکل چھوٹا سا رہ گیا ہے ، مگر اب بھی مقبول ہے۔
وہاں ہمیں بیٹھے ابھی چند ہی منٹ ہوئے تھے کہ ایک ادھیڑ سے بھی زیادہ عمرکی عورت جس نے چکن کا سفید لباس پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں اس کے ایک پرس اور دوسرے ہاتھ میں پان کا بٹوہ تھا۔ مسکراتی ہوئی آئی اور ہمارے قریب آکر مقبول جلیس سے مسکرا کے کہنے لگی '' یہ آج کون اجنبی لڑکا تمہارے ساتھ آ گیا ہے۔'' مقبول جلیس نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا'' یہ لڑکا نوجوان فلمی صحافی ہے شاعر بھی ہے اس کا نام یونس ہمدم ہے یہ خاص طور پر تم سے ملنے آیا ہے محترمہ ببو بیگم۔ جب میں نے ببو بیگم کا نام سنا تو میرے ذہن میں وحید مراد کی فلم ''ارمان'' میں زیبا کی آنٹی یاد آگئی۔
ببوکو میں نے پہلی بار بہ حیثیت اداکارہ فلم ''ارمان'' میں ہی دیکھا تھا میں ابھی ببوکے بارے میں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ ببو نے مقبول جلیس کے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکالا جسے مقبول جلیس نے سلگایا پھر ببو نے اپنے بٹوے کی ڈوریاں کھول کر پان کی ایک ڈبیہ نکالی۔ ڈبیہ سے ایک پان نکال کر مقبول جلیس کو دیا پھر بٹوے سے ایک الائچی نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا۔ پان میں تمہیں اس لیے نہیں دوں گی کہ میرا پان خطرناک قسم کا ہوتا ہے اوراس پان کو مقبول جلیس چین اسموکر جیسا انسان ہی برداشت کرسکتا ہے۔
میں نے ''فلم فیئر'' اور ''شمع دہلی'' میں اداکارہ ببو کے بارے میں پڑھے ہوئے مضامین کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے کہا۔ ''آپ تو اپنے زمانے میں بمبئی فلم انڈسٹری کی کوئن رہی ہیں ۔'' یہ سن کر ببو بیگم نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔'' ہاں کبھی وہ بھی دن تھے جب ہمارا ہر دن روز عید اور ہر رات شب برات ہوا کرتی تھی۔'' مقبول جلیس نے بھی اس دوران لقمہ دیا ہاں جب ببو بیگم پُرشباب اور چندے آفتاب اور چندے مہتاب ہوا کرتی تھیں۔ ببو بیگم نے پھر سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور پھردھوئیں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے گمبھیر آواز میں کہا '' نہ یاد دلاؤ وہ سہانی راتیں اور وہ سہانے دن۔ اب تو ہماری زندگی ایک کھنڈر کی صورت ہے اور زندگی کے عذاب سہنے کے لیے رہ گئی ہے۔ ''
پھر مقبول جلیس نے کھانے کا آرڈر دیا، کھانا آیا اور ہم ماضی کے اوراق الٹتے رہے۔ باتوں کا ایک دفتر تھا جو کھلتا چلا جا رہا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ببو بیگم اپنی جگہ سے اٹھیں اور انھوں نے مقبول جلیس کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا۔ مقبول جلیس نے خاموشی سے چند نوٹ ببو بیگم کے پرس میں ڈالے اور پھر ببو بیگم اپنے پان کا بٹوہ لہراتے ہوئے خدا حافظ کہہ کر ہوٹل سے باہر چلی گئیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اب ببو بیگم کوگھر جانے کے لیے ٹیکسی کا کرایہ تک بھی کسی سے لینا پڑتا ہے۔ آج کی یہ ببو بیگم اپنے دورکی ایک مقبول اور ممتاز ترین ہیروئن تھی۔
ایک ایسی ہیروئن کہ دولت ہر وقت اس کے قدموں میں کنیزکی طرح بچھی رہتی تھی۔ اس کے گھر کے دروازے پر بڑے بڑے راجے مہاراجے دستک دیا کرتے تھے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سیکڑوں پرستار اس کے گھر کے باہر ٹولیوں کی شکل میں ہر وقت موجود رہتے تھے۔ ببو کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ اس کی جوتی میں ہیرے جڑے رہتے تھے جب میں ببو کی زندگی کے گزرے حالات کی کتاب کو کھنگال رہا تھا تو بڑی دلچسپ باتیں مل رہی تھیں۔
اداکارہ ببو کا گھریلو نام عشرت سلطانہ تھا مگر سب اس کو پیار سے ببو کہہ کر پکارتے تھے یہ دہلی کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں رقص و موسیقی ہی کو زندگی سمجھا جاتا تھا اور اس کی ماں حفیظن بائی کے نام سے مشہور تھی اور بڑی خوبصورت سنگر تھی ۔ ببو بیگم نے گانے کے ساتھ اداکاری کی طرف بھی دلچسپی لینی شروع کردی اور پھر بمبئی فلم انڈسٹری میں بھی اس کو داخلہ مل گیا تھا۔ یہ اس کا ابتدائی دور تھا پہلے اس نے ایک دو فلموں میں سائیڈ کردار ادا کیے اور پھر ہیروئن بھی آنے لگی اس کی شروع کی فلموں میں ابھی شالا، واسوداتا، جاگیردار، پیارکی مار نے ببو کو شہرت کے ساتھ دولت بھی خوب دی اور پھر اس دور کی ہر دوسری فلم میں ببو ہی ہیروئن ہوتی تھی۔
اس کی بعد کی چند کامیاب فلموں میں مایا جال، رنگیلا راجپوت، غریب کے لال، من موہن، مزدور، گراموفون سنگر، غریب پرور، بڑے نواب، نصیب اور پہلی نظر نے لاکھوں فلم بینوں کی آنکھوں میں بسایا اور دل میں اتار دیا تھا۔ 1930-31 سے لے کر 1945 تک کا دور ببو بیگم کی بے پناہ شہرت اور عروج کا دور تھا۔ شہرت اس کے قدموں میں بکھری رہتی تھی۔
یہ اپنے حال میں اس طرح مست اور آیندہ کی زندگی سے بے خبر تھی اسی دوران اس نے اپنے ایک ساتھی اداکار خلیل سردار سے شادی کی مگر پھر وہ شادی زیادہ دنوں تک چل نہ سکی اور ببو بیگم نے خود کو شادی کی زنجیر سے آزاد کرا لیا لیکن کسی کا بھی وقت ایک جیسا کبھی نہیں رہتا زندگی میں کبھی پھولوں کی رہگزر ہوتی ہے اور کبھی کانٹوں کے راستے ۔ ببو بیگم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، جوانی ڈھلنے لگی تو شہرت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا پھر آہستہ آہستہ وقت کی بے رحم دھوپ نے اس کی ہر خوشی کو دھندلا دیا۔
بمبئی میں یہ بے یار و مددگار ہوئی تو اس نے ہندوستان کو خیرباد کہہ دیا اور یہ پاکستان آگئی یہاں کی فلم انڈسٹری نے شروع شروع میں اس کا ساتھ دیا اور اس نے چند فلموں میں بطور معاون اداکارہ کام کیا جن میں دوپٹہ، گلنار، شرارے، نذرانہ، منڈی، زہر عشق، سلمیٰ ، عشق پر زور نہیں، کنواری بیوہ اور فانوس میں چھوٹے بڑے کردارکیے اور خاص طور پر ''زہرعشق'' میں معاون اداکارہ کی حیثیت سے نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا پھر آہستہ آہستہ اسے فلموں سے بھی نظرانداز کرنا شروع کردیا گیا یہ تن تنہا کب تک اپنی زندگی کا بوجھ اٹھاتی پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ اس کے پاس کچھ نہ رہا اور نہ کوئی اپنا رہا اور یہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئی اور بے بسی اس کی زندگی کا حصہ بن گئی اور اس کی بے بسی کا یہ سفر 1972 میں اختتام پذیر ہوا۔ اپنے وقت کی حسین اور نامور ہیروئن ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک کمرے میں اپنی تنہائی کے کفن میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ خدا ان کی مغفرت کرے (آمین)