ظلم و بربریت کی نئی تاریخ بنگلہ دیش میں
تھوڑا سا تاریخی حقائق کی جانب چلتے ہیں۔ بنگلہ دیش مسلمان اکثریت کا حامل ملک ہے
بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام کی ایک نئی تا ریخ رقم ہو رہی ہے۔ یہ تاریخ ظلم و بربریت، انتہاپسندی اور نا انصافی سے عبارت ہے۔اہل ایمان کی اکثریت کے حامل اس ملک میں تازہ ترین ہدف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر جناب مطیع الرحمان نظامی بنے ہیں جو بجا طور پر شہادت کے درجے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ شہادتوں کا حالیہ سلسلہ بارہ دسمبر 2013 سے شروع ہوتا ہے جب جناب عبدالقادر ملا کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے متعدد راہنماؤں کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اب تک پھانسی کی سزا دلوا چکی ہیں۔ شہید مطیع الرحمان نظامی اور ان کے پیش رو دیگر سیاسی قائدین کو جن کی عمریں پینسٹھ برس سے زائد تھیں، 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں علیٰحدگی پسندوں کی تحریک کی مخالفت اور حکومت وقت کی جانب سے شروع کیے گئے فوجی آپریشن کی حمایت کی پاداش میں اس قدر انسانیت سوز سزا دی گئی ہے۔
تھوڑا سا تاریخی حقائق کی جانب چلتے ہیں۔ بنگلہ دیش مسلمان اکثریت کا حامل ملک ہے اور ماضی بعید میں اس ملک میں اسلامی حاکمیت کا زوال سلطان ٹیپو کی شہادت سے ہوا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے لبادے میں انگریز حکمرانوں نے برصغیر میں پہلی مرتبہ اپنے قدم جمائے تھے۔ چنانچہ جب برصغیر ہند و پاک کے باشندوں میں کئی نسلوں تک غلامی کی زندگی بسر کر نے کے بعد آزادی کا شعور اجاگر ہوا تو یہ وہی خطہ تھا جو اہل مسلم کا ترجمان بن کر سامنے آیا۔ سر سلیم اللہ خان اور مولوی فضل الحق جیسی قد آور شخصیات کا عظیم کردار تاریخ ہندوپاک ہی نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے بھی انمٹ نقوش ہیں۔ 14، اگست1947کو قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا۔ پھر تھوڑے ہی عرصے بعد سیاسی مخاصمتوں نے جنم لے لیا ۔
سیاسی رنجشیں بڑھتی چلی گئیں اور بالآخر بنگالی شناخت کے بل بو تے پر عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان نے بھارت کی فوجی طاقت کے سہارے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدل دیا۔چند برس تک اہل پاکستان نے 1971کی جنگ میں شکست کے دکھ کو سینے سے لگائے رکھا، بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کرنے سے پس و پیش کرنے کے بعد با لآخر 1975میں اس حقیقت کو تسلیم کر ہی لیا اور یوں برصغیر میں ایک تیسری مملکت کے طور پر بنگلہ دیش عالمی نقشے پر ایک مسلم ریاست بن گئی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگ سے قبل بنگلہ دیش کے عوام دو حصو ں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ ایک وہ جو پاکستان کے حامی تھے جن میں جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیمیں سر فہرست تھیں اور دوسری جانب عوامی لیگ اور اس کی دست راست مکتی باہنی جو بنگلہ دیش کی حامی تھی۔پاکستان کی مسلح افواج پہلے مکتی باہنی سے لڑتی رہیں اور پھر بھارتی افواج کے میدان جنگ میں باقاعدہ کود پڑنے کے بعد ایک مکمل جنگ کا سامنا کرتی رہیں۔ جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں بنگلہ دیش کی پہلی حکومت نے انٹر نیشنل کرائمزایکٹ نمبر19، 1973، منظور کیا جس کا مقصد نسل کشی، انسانیت سوز جرائم، جنگی جرائم اور دیگر جرائم کی پاداش میں ملزمان کو حراست میں لینا، ان پر مقدمات چلانا اور انھیں سزا دلانا تھا۔
حکومتیں بدلتی رہیں۔ اب کی بار جب عوامی لیگ کو اقتدار ملا تو 2009اور 2010کے دوران متذکرہ قانون میں ترمیم کر دی گئی۔ جس کے بعد صرف اور صرف جماعت اسلامی کے قائدین کو ہدف بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اس کی قیادت نے بھی مملکت کی نئی شناخت کو جان و من سے تسلیم کرلیا تھا۔وہ اس ملک کے رائے دھندگان اور فیصلہ سازوں میں شامل رہے اور ہیں۔
قانون وقت بھی انھیں تحفظ دیتا رہا۔ خود شہید مطیع الرحمان نظامی بھی 1991کے انتخابات میں اپنے آبائی ضلع پبنہ سے عوامی لیگ کے امیدوار کو ہرا کر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔2001ء میں بھی وہ نہ صرف پارلیمنٹ کے رکن بنے بلکہ پہلے وزیر زراعت اور بعد ازاں وزیر صنعت کی حیثیت سے بھی ملک کے لیے خدمات سر انجام دیتے رہے۔2008کے انتخابات کے دوران گو ،وہ پارلیمنٹ کے رکن نہ بن سکے لیکن انھوں نے کل کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے 46فیصد رائے دھندگان کی حمائت حاصل کی تھی۔ بلا شبہ مختلف معاشروں اور خطوں میں سماجی، معاشرتی و مذہبی اقدار مختلف ہو سکتی ہیں۔
سوچ و فکر میں فرق تفریق بھی ایک فطرتی امر ہے۔ مختلف ممالک کے ہاںرائج الوقت قوانین کے حوالے سے اونچ نیچ بھی مسلمہ حقائق ہیں تاہم ایک ایسے قانون کے تحت جسے ایک مخصوص خطے میں قائم حکومت مرتب کر کے اسے عالمی دستاویز کا نام دے اور پھر اس کے تحت صرف ایک مخصو ص جماعت کے قائدین کو ہی نشانہ بنایا جانا، اور وہ بھی عمر رسیدہ، سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس انسانیت سوز ظلم پر پوری عالمی برادری خاص طور پر انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے بھی محض تماشبین بن گئے ہیں البتہ یہاں ترکی کے صدر اردگان خراج تحسین کے ضرور مستحق ہیں جنہوں نے نہ صرف بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلایا بلکہ وہ اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد بھی ایک مسلمان خاتون ہیں۔ اس حقیقت کو رد کرنا ان کے لیے بھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ جس ملک کی حکمران ہیں، وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ایسا کرتے وقت انھیں کم سے کم یہ تو سوچنا چاہیے تھا، کہ جس کلمہ کے پڑھنے کے بعد وہ نبی آخر الزمان، حضرت محمدﷺ پر ایمان لانے کی مستحق قرار پائی ہیں، خود ان کا کیا کردار تھا۔ یقینا ایک مسلمان، اور پھر ایک عورت ہونے کے ناطے شیخ حسینہ واجد کا یہ کردار حیرت کا باعث ہے۔ اگر ایسا کرنا ہی تھا، تو پھر 1971 کے بعد سے 2009تک انتظار کیوں کیا گیا۔بلاشبہ اسقدر ظلم و بر بریت کا مقصد کسی اور کو خوش کرنا ہے۔ کیا اس سے معاشرے میںنفرت کے بیج نہیں بوئے جا رہے؟کیا رد عمل کی صورت میں محض اہل اسلام کو ہی طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا؟