یہ بے گناہ

میں بے شرم ہو کر یہ کہہ رہا ہوں کہ میرا ملک اپنے باشندوں کو تحفظ دینے کے قابل نہیں رہا


Abdul Qadir Hassan May 24, 2016
[email protected]

میں کسی ایسے مبارک دن کے انتظار میں ہوں جب ہمارے اخبارات میں کسی پاکستانی عورت کی عصمت دری کی خبر نہ چھپے اور اگر ایسا ہو اور مجرم پکڑا جائے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہو اور اس مظلوم عورت کے کسی وارث نے اس کا بدلہ لے لیا ہو۔ کیا ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ماؤں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں اور اس عزت کی بے حرمتی کرنے والے سزا پا رہے ہیں یا ان کے خلاف قانون متحرک ہے اور اس مظلوم عورت کا کوئی وارث اس کا بدلہ لے چکا ہے جس سے کسی غیرت مند پاکستانی کی کچھ تسکین ہو گئی ہے۔

میں بے شرم ہو کر یہ کہہ رہا ہوں کہ میرا ملک اپنے باشندوں کو تحفظ دینے کے قابل نہیں رہا اور قانون شکن پاکستانی دندناتے پھرتے ہیں، ابھی ٹی وی پر ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر چور کے ہاتھ کاٹنے کا اسلامی قانون نافذ ہوتا تو ہمیں اپنا کوئی وزیر نارمل ہاتھوں کے ساتھ دکھائی نہ دیتا اور سچ ہے کہ اسلامی قانون نافذ کرنے کی ہماری کبھی کوشش نہیں رہی اور نہ ہماری ایسی کوئی نیت رہی ہے، ہم نے اپنی اس بدنیتی کو چھپانے کے لیے اپنے ملک کا نام 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' رکھ دیا ہے جس کے پردے میں ہم ہر غیر اسلامی حرکت کر گزرتے ہیں۔

اسلام میں صاف صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ سود خوری اللہ و رسولؐ کے خلاف جنگ ہے اور ہماری جرات اور جسارت کا یہ حال ہے کہ ہمارے کسی بینک کا نام ہی مسلم کمرشل بینک ہو سکتا ہے یعنی اسلام کا ممنوعہ کاروبار اس نام پر کھلم کھلا کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ یعنی مسلم بھی ہے' کمرشل اور کاروباری بھی ہے۔ بینک بھی ہے جو سودی کاروبار پر چل رہا ہے۔ اس کو چلانے والے مسلمان ہیں اور اس کے ساتھ کاروبار کرنے والے مسلمان ہیں یعنی سبھی مسلمان ہیں اور ان سب کو معلوم ہے کہ سودی کاروبار خدا اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے اور دیدہ دلیری یہ ہے کہ ہم یہ جنگ باقاعدہ کرتے ہیں۔

نہیں معلوم اس جنگ میں فتح کس کی ہو گی اور میدان جنگ کا کیا منظر ہو گا۔ اگر خدا و رسولؐ کا ارشاد اور فیصلہ درست ہے جو ظاہر ہے کہ بالکل درست ہے تو پھر اس جنگ کے سپاہیوں کا انجام کیا ہو گا اور ہم آپ جو اس جنگ میں حصہ دار ہیں نہ جانے کس سزا کے مستحق ہوں گے۔ کون ہے جس کا کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں ہے اوراس کی ایک واضح وجہ ہماری کاروباری زندگی کا یہ انداز ہے کہ ہم اس کے بغیر کاروبار نہیں کر سکتے۔

پوری اسلامی دنیا میں سود رائج ہے کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے لیکن ہم نے اللہ و رسولؐ کے خلاف اس جنگ سے نجات کی کوئی کوشش نہیں کی ہے اور اس کاروباری روایت اور طریق کار کو نہیں بدلا ہے جو ہمارے مذہب اور اس کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ مجھ سمیت جس سے بات کریں وہ یہی جواب دے گا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور کوئی کاروبار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ واقعہ یہی ہے لیکن کاروبار کی اس ناجائز حالت کو بدلنے کے لیے ہم مسلمانوں نے کیا کیا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے یہ سب تسلیم کر لیا ہے۔

اسلامی قوانین اگر نافذ ہوں تو ہمارے کئی جرائم بہت کم ہو جائیں گے۔ میں نے بات عورتوں کی عصمت دری سے شروع کی تھی اگر اسلامی قانون رائج ہو تو میں نہیں سمجھتا کون مائی کا لال اس کی جرات کر سکے گا اب تو چونکہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدالت سے ضمانت بھی مل سکتی ہے اس لیے اس کا خوف کون کھاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میں عہد جوانی میں جناب فیض احمد فیض صاحب کی ادارت میں شایع ہونے والے ہفت روزہ لیل و نہار میں فیچر رائٹر تھا۔ میں نے ایڈیٹر کے حکم پر ایک طویل فیچر لکھا جس میں ان مظلوم عورتوں کے انٹرویو بھی شامل تھے۔

فیض صاحب نے اس کا عنوان 'آنندی' تجویز کیا جو غلام عباس کا ایک افسانہ تھا اور بہت مشہور تھا۔ اس میں بے دخل کی جانے والی عورتیں جہاں دوسری جگہ جا کر آباد ہوتی ہیں وہاں ایک ایسی ہی بستی بس جاتی ہے۔

میں نے اس بازار سے لے کر قحبہ خانوں تک میں معروف عورتوں کے انٹرویو کیے اور یہ تلخ اور کربناک صورت سامنے آئی کہ کوئی ایک عورت بھی یہ پیشہ خوشی سے نہیں کرتی ہر ایک کی مجبوریاں ہیں جو اس کے جسم کو بازار میں لے آتی ہیں۔ اب جب کبھی پولیس کے کسی چھاپے کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں سے اتنی عورتیں پکڑی گئیں تو میرا جی چاہتا ہے پولیس کے پاس جا کر ان عورتوں کی وکالت کروں اور پولیس سے رحم کی درخواست کروں۔ میں کوشش کروں گا کہ یہ فیچر تلاش کر لوں اور اس میں درج انٹرویو آپ کو پڑھا سکوں اور اس مظلوم طبقے سے آگاہ کر سکوں جس میں سے ایک نے کہا تھا کہ خدا نے ہمیں ماؤں کا اعزاز دیا تھا تمہاری ہوس کا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں