سر سے پاؤں تک

جس میں سرکاری اور نجی سیکٹر کی یونی ورسٹیوں کے تقریباً 150وائس چانسلرز شریک تھے


Amjad Islam Amjad May 26, 2016
[email protected]

ایک دن کے وقفے سے ایک ہی ہوٹل کے دو ہالز میں دو ایسی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا جن میں سے ایک کا تعلق بچوں سے اور دوسری کا اعلیٰ ترین تعلیمی سرگرمیوں سے تھا یوں وطن عزیز میں تعلیم کی صورت حال کا احوال سر سے پاؤں تک دیکھنے سننے اور سمجھنے کو ملا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 22مئی کو بچوں کے رسالہ ''پھول'' اور اس کے اشاعتی ادارے نے ادب اطفال کے حوالے سے ملک بھر سے بچوں کے لیے نوآموز لکھنے والوں کو ایک چھت تلے جمع کیا اور چند ایسے لکھنے والوں سے ان کی ملاقات کروائی جن کا بچوں کے ادب سے گہرا اور پرانا تعلق ہے جب کہ 24مئی کو ہونے والی کانفرنس کا اہتمام NEC نے کیا تھا ۔

جس میں سرکاری اور نجی سیکٹر کی یونی ورسٹیوں کے تقریباً 150وائس چانسلرز شریک تھے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ایچ ای سی اعلیٰ تر تعلیم کے فروغ سے متعلق ایک ایسا ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد یونیورسٹیوں میں تحقیق کے رجحان کو تعلیم کے ہر شعبے میں آگے بڑھانا اور اس کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنا ہے، اسی حوالے سے ایک خصوصی سیشن میڈیا اور تعلیم کے باہمی تعلق اور صورت حال پر گفتگو کے لیے ترتیب دیا گیا تھا جس کی نظامت ڈاکٹر شاہد صدیقی وائس چانسلرعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کی اور بہت ہی ذہانت' ترتیب اور مہارت سے گھنٹوں تک بے تکان بولنے والوں سے چند منٹ کے اندر اندر ان کی بات مکمل کروائی لیکن پہلے آئیے پہلے پائیے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ابتدا بچوں کے ادب سے متعلق تقریب سے کرتے ہیں۔

عزیزی شعیب مرزا اور مظفر محسن گزشتہ کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً زبانی کلامی اور خطوط کے ذریعے اس بات کی یاددہانی کراتے رہتے تھے کہ مجھے ادب اطفال کے حوالے سے ایک سیشن میں ''ڈرامہ کیسے لکھا جائے'' کے موضوع پر ایک مقالہ پڑھنا ہے جس کی طوالت پندرہ سے بیس منٹ کے درمیان ہو گی۔ میں نے بوجوہ زبانی گفتگو کو ترجیح دی اور منتظمین پر یہ بھی واضح کر دیا کہ مذکورہ بالا دورانیے میں ڈرامے کی ''ڈ'' پر بھی ٹھیک سے گفتگو نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ اس موضوع کے سارے مطالبات پورے کیے جائیں۔

میری ذاتی رائے میں اس طرح کے پروگرام ایک ورکشاپ کی شکل میں ترتیب دیے جانے چاہئیں تاکہ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ڈرامہ نگاری کے فن کو سیکھنے کے شوقین خواتین و حضرات ان عملی مسائل سے آگاہ ہو سکیں جن سے آگے چل کر ان کا واسطہ پڑنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ڈرامے کی تاریخ اور اس کے عناصر ترکیبی کے بارے میں بھی نہ صرف جان سکیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی بالخصوص کیمرے کی ایجاد سے ڈرامے کی نئی ہئیتوں اور ان کے تقاضوں سے بھی روشناس ہو سکیں۔ بچوں کے مشہور ٹی وی سیریل ''عینک والا جن'' کے پروڈیوسر حفیظ طاہر نے جدید ٹی وی ڈرامے کے فنی پہلوؤں اور بچوں کے لیے لکھنے کے تقاضوں پر بہت اچھی گفتگو کی۔

ابصار عبدالعلی نے بھی اس ضمن میں اپنا طویل تجربہ شیئر کیا جس سے یقیناً سامعین کی معلومات میں اضافہ ہوا ہو گا، میں نے اپنی گفتگو کو ڈرامے کے بنیادی سٹرکچر اور ناگزیر لوازمات یعنی وحدت کردار' وحدت زمان اور وحدت مکان کے ساتھ ساتھ ہر سین کے مقام' واقعے' کرداروں اور مکالموں کی تعریف اور ان کے فنی تقاضوں تک محدود رکھا کہ بیشتر نوآموز لکھنے والے ان کے بارے میں واضح معلومات نہیں رکھتے تھے مجموعی طور پر یہ ایک کامیاب کوشش تھی اور جس سلیقے اور محنت سے منتظمین نے اس تقریب کا اہتمام کیا وہ یقیناً قابل تعریف اور حوصلہ افزائی ہے۔

ایچ ای سی کے پروگرام کا ایک سیشن تعلیم' میڈیا اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے ایک مذاکرے پر مشتمل تھا جس میں تمام پینلسٹ حضرات نے اپنے اپنے انداز میں اس مثلث کے مختلف زاویوں اور ان کے باہمی تعلق کو اجاگر کرنے اور اس ضمن میں اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش کی جس کو ناظم یعنی ڈاکٹر شاہد صدیقی بڑی مہارت سے ساتھ ساتھ ایک سلسلے میں پروتے رہے، بعد میں حاضرین کی طرف سے (جو تقریباً سب کے سب مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر تھے) کچھ سوالات اور وضاحتیں بھی سامنے آئیں، صورت حال کا سب سے اہم اور مفصل تجزیہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے پیش کیا جب کہ اسٹیج کی طرف سے بولنے والوں میں احمد جاوید' مجیب الرحمن شامی' سجاد میر' اور عزیزی یاسر پیرزادہ نے اپنے اپنے انداز میں زیادہ توجہ طلب باتیں کیں۔

جہاں یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آئی کہ دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں کی فہرست میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں (جب کہ اس میں سنگا پور اور مکاؤ جیسے چند لاکھ کی آبادی کے حامل ملک بھی شامل ہیں) وہاں یہ حقیقت بھی دامن کش ہوئی کہ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کا بجٹ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے اور یہ کہ صرف R&D یعنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر ترقی یافتہ ملک اپنے جی این پی کا دو سے تین فی صد تک استعمال کرتے ہیں جب کہ ہمارے بجٹ میں ہر طرح کی تعلیم کا مجموعی بجٹ ایک اعشاریہ آٹھ فی صد ہے اور جہاں تک ایچ ای سی کا تعلق ہے اپنے قیام سے اب تک اس نے باوجود حکومتی پالیسیوں کی آنکھ مچولی کے اپنے محدود بجٹ کے اندر رہتے ہوئے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ابھی ابھی یعنی اس سیشن کے دوران یہ خبر آئی ہے کہ ترکی میں تعلیم کے شعبے میں عالمی سطح پر نمایاں کارکردگی دکھانے والے اداروں کو ایوارڈز دینے والی ایک تنظیم کی طرف سے ایچ ای سی کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، اس بات پر بھی اتفاق رائے تھا کہ تعلیم کے ضمن میں ہماری حکومتوں کا رویہ شرمناک حد تک افسوس ناک ہے اور جب تک رویہ درست نہیں ہو گا یہ صورت حال اسی طرح رہے گی بالخصوص جب تک نچلی سطح پر نظام تعلیم' نصابات اور سہولیات میں بہتری اور اضافہ نہیں ہو گا صرف یونیورسٹیاں اس سارے بحران کو ختم نہیں کرسکیں گی۔ احمد جاوید نے اس کے لیے آزادی فکر اخلاق اور مہارت پر مشتمل ایک بہت خوب صورت اور خیال افروز تصور پیش کیا جس پر عمل کرنا بوجوہ ہماری سیاسی حکومتوں کے بس کی بات تو نہیں لیکن ایچ ای سی اور اس کی صفوں میں شامل اہل فکر و نظر اور ماہرین تعلیم یقیناً اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا

شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی

رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

سو ڈاکٹر مجاہد کامران نے جس R&D یعنی تحقیق و ترقی کے حوالے سے بات کی تھی اس کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ صاحب کے پیغام کو آج کے نوجوان کے لیے یہ شکل دیتے ہوئے اس بات کو وقتی طور پر ختم کرتے ہیں کہ

ہاں سنو دوستو

جو بھی دنیا کہے

اس کو پرکھے بنا مان لینا نہیں۔

ساری دنیا یہ کہتی ہے

پربت پہ چڑھنے کی نسبت اترنا بہت سہل ہے

کس طرح مان لیں!

تم نے دیکھا نہیں سرفرازی کی دھن میں کوئی آدمی

جب بلندی کے رستے پہ چلتا ہے تو

سانس تک ٹھیک کرنے کو رکتا نہیں

اور اس شخص کا

عمر کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے' پاؤں اٹھتا نہیں

اس لیے دوستو

جو بھی دنیا کہے اس کو پرکھے بنا مان لینا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں