منزل انھیں ملی…
الحمدﷲ اب ہمارے ملا اسلامی سلطنت میں اپنے اپنے مکتب فکر کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اس قابل ہوچکے ہیں
''ساری دنیا ہماری دشمن ہے اور سب ہم سے حسد کرتے ہیں'' اس رائے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہماری دشمن کیوں ہے؟ کمال ہے، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہم نے ایسی سلطنت عظمیٰ سے جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، خم ٹھونک کر آزادی حاصل کی، جب کہ اس سلطنت نے دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی کالونی بناکر مکمل قبضہ کر رکھا تھا۔
پوری دنیا (چند بڑے ممالک کو چھوڑ کر) ان کی محکوم تھی، لہٰذا یہ بھی طے ہے کہ وہ اپنے حاکموں سے بے تحاشا محبت بھی کرتے تھے بلکہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کو دعائیں بھی دیتے کہ اﷲ تعالیٰ ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ جب ہم نے اتنی بااثر، مقبول اور عظیم حکومت سے (بلاوجہ) ٹکرانے کی جرأت کی، وہ بھی صرف زبانی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کرکے ''اسلام کا قلعہ'' یعنی پاکستان دنیا کے نقشے پر ثبت کردیا، تو دنیا تو روز اول سے ہی ہماری دشمن ہوگئی۔ ہمارے اس دلیرانہ اقدام کی سزا ہمیں طرح طرح سے دی گئی۔
اب آپ کو تفصیل کیا بتائیں کہ ہماری 68 سالہ تاریخ میں قدم قدم پر آپ کو ہمیں (پاکستانیوں) دی گئی سزا کے تفصیلی حالات مل جائیں گے، شرط یہ ہے کہ آپ کو مطالعے اور وہ بھی تاریخ کے مطالعے کا شوق ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے اس قلعے میں مساجد میں نمازیوں کو سنگینوں کے سائے میں نماز ادا کرنا پڑتی ہے، خاص کر نماز جمعہ۔ جب ہم برطانیہ عظمیٰ کے شہری (غلام نہیں) تھے تو مساجد، امام بارگاہوں، تعلیمی اداروں، گرجا گھروں اور مندروں پر پہرے دار نہیں ہوتے تھے کیونکہ اس دور قدیم میں ہم اتنے جاہل تھے کہ مختلف مکاتب فکر (فرقوں) کے درمیان فرق کو نہ زیادہ محسوس کرتے تھے اور نہ اپنے فرقے کا دشمن۔ ان دنوں ہم اتنے تنگ نظر تھے کہ ہر فرقے کو اپنی اپنی من مانی کرنے دیتے تھے، لہٰذا ایسے اقدام کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔
الحمدﷲ اب ہمارے ملا اسلامی سلطنت میں اپنے اپنے مکتب فکر کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اس قابل ہوچکے ہیں کہ اپنے علاوہ دیگر تمام فرقوں کو کافر یا جہنمی ہونے کی مصدقہ سند دے سکتے ہیں اور یہ سب اسلامی فکر و فلسفے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں، اسی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اپنا اختیار جزا و سزا اپنے ان نیک و صالح تعلیمات اسلامی پر حرف آخر بندوں (جن کو بندہ کہنا بھی ان کے مرتبے کی توہین ہے) کے سپرد کردیے ہیں، اسی لیے اسلام کے قلعے میں کسی بھی مکتب فکر کا پیروکار محفوظ نہیں۔ ہر ایک کے سر پر کفر، خارج از اسلام اور جہنمی ہونے کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔
مگر ہم کیونکہ باہمت، دلیر اور جرأت مند قوم ہیں لہٰذا اس کارخیر سے کوئی بھی تائب ہونے کو تیار نہیں اور ہر روز یوم حساب سے گزرنا ہمارے لیے عام بات ہوچکی ہے۔ ادھر حکومت وقت (ہر دور کی) کو بھی چین نہیں، کبھی خواتین کی ترقی، تعلیم اور کبھی حقوق اور ان کے تحفظ کا شوشہ چھوڑتی رہتی ہے، جو ہمارے ہر مکتب فکر کے علما (ملاؤں کو) ناگوار گزرتا ہے لہٰذا وہ حکمرانوں کو خوب خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، جلسے جلوسوں، دھرنوں اور حکمرانوں کو کرسی سے اتار پھینکنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ مگر آپ کسی سے کہیے گا نہیں، ہمیں ایک رازدار درون ایوان اقتدار نے بتایا ہے کہ یہ سب حکومت کی طرف سے ان اسلام کے ٹھیکیداروں کو مصروف رکھنے کے لیے ہے جو بطور اسائنمنٹ انھیں دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ بے چارے کریں گے کیا؟
جب ہم نے کافر یا مشرک حکمرانوں سے اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے آزادی حاصل کی تھی تو قوم بالکل جاہل تھی، یعنی اسلام کے بنیادی اصولوں تک سے واقف نہ تھی مثلاً صلہ رحمی کیا ہے، احترام انسانیت کے معنی کیا ہیں، اسلامی رواداری کس کو کہتے ہیں، تمام مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا مطلب کیا ہے؟ اور کسی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے کیا حقوق ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس صورتحال پر ہمارے نیک بندے (ملا) بے حد دل گرفتہ تھے، لہٰذا انھوں نے قوم پر کرم فرما کر سب کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کا بھرپور منصوبہ تیار کیا۔
گلی گلی مدارس اور گھر گھر محافل درس منعقد کرکے تمام بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو مشرف بہ اسلام کیا گیا۔ جوں جوں اسلام سے واقفیت بڑھتی گئی خاندان، معاشرے اور محلے والوں کے درمیان اخوت و محبت ختم اور اخلاقیات بڑھتے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ اماں رمضان میں دن بھر افطاری تیار کرتیں اور ہم بہن بھائی محلے بھر کی مساجد میں روزہ داروں کے لیے افطاری پہنچاتے۔ ٹھنڈے مشروبات کے بڑے بڑے کولر بھر کے بھیجے جاتے، یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ یہ مسجد کس فقہ کے ماننے والوں کی ہے۔ اماں کہتی تھیں کہ ہیں تو سب روزہ دار اور اﷲ تعالیٰ تو نیت دیکھتے ہیں۔
پھر کسی دن اتنی ہی افطاری تیار ہوتی اور محلے کے تمام گھروں میں بھیجی جاتی کہ ارشاد ختمی مرتبتؐ ہے ''مومن کا روزہ افطار کرانا چاہے ایک خرمے یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کرایا جائے، دوسرے مومن کے درجات میں بلندی کا سبب ہے''۔ اسی طرح محلے بھر سے روز کسی نہ کسی گھر سے ہمارے یہاں بھی افطاری آتی جو بڑی خوش دلی سے قبول کی جاتی۔
اب ہماری جدید اسلامی تعلیم کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ایک فرقے کے یہاں کی افطاری کھانے سے احتراز کیا جاتا ہے (حالانکہ وہ بھی افطاری کا اہتمام کر رہے ہیں اور روزہ رکھ رہے ہیں) اور رزق خدا کو کتے بلیوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے (یہ ہمارا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے)۔ یہ ہماری اسلامی خدمات ہیں جن کی وجہ سے ہر روز مذہبی و فقہی بنیاد پر قتل ہوجاتے ہیں۔ دور جاہلیت (ماضی قریب میں) اگر دو مختلف فرقوں کے بچوں کی شادی بارضا و رغبت دونوں خاندانوں کے ہوگئی تو اب دس بارہ برس بعد کئی بچوں کی پیدائش بھی ہوچکی، دونوں فرقوں کے ملاؤں نے اچھے بھلے بسے بسائے گھروں کو اجاڑ دیا کہ یہ نکاح ہی جائز نہیں، فوراً اپنی بیٹی کو گھر لے آئے ۔
ہماری عالمانہ خدمات اس قدر عروج پر ہیں کہ وہ مذہبی جماعتیں جو اسلامی ہونے کے ساتھ سیاسی بھی ہیں اور جو قیام پاکستان کی مخالف تھی آج ماشا اللہ پاکستان کی مصدقہ و معتبر وارث بن چکی ہیں۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو سیکولر بنانے کی ہر کوشش ناکام بنادی جائے گی۔ ایسے خیالات رکھنے والے اپنے بچوں کے پاس یورپ چلے جائیں۔ یہ ملک ہمارا ہے یعنی ''منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے''۔
رہ گیا سوال کہ دنیا ہماری دشمن کیوں ہے؟ اور ہم سے جلتی کیوں ہے، تو اتنی ترقی، اتنا علم ہمارے پاس ہوگا تو دنیا تو جلے گی ہی کہ ایک سیکولر حکمران نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا جب کہ کسی بھی اسلامی ملک کو یہ دولت غیر مترقبہ حاصل نہ ہوسکی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ایٹمی طاقت نے نہ بھوکوں کو روٹی دی، نہ بے روزگار کو روزگار، نہ جاہل کو علم، نہ ہر شہری کے سر پر چھت نہ چار دیواری مگر پھر بھی ساری دنیا کی نظریں ہماری ایٹمی طاقت پر لگی ہیں۔ انھوں نے ہی شاید ہمارے ملاؤں کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ سوچیں کہ اس ایٹمی صلاحیت کو کس طرح اور کیسے کس کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ کوششیں جاری ہیں، عوام کے ٹھکرائے یہ مذہبی عناصر غیر ملکی شے پر ایوان اقتدار کے خواب اسی لیے تو دیکھتے ہیں۔