دلوں میں رہنے والی اداکارہ شمیم آراحصہ اول
یہ لندن کا ایک اسپتال ہے جہاں پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ شمیم آرا کئی برسوں سے ماہر ڈاکٹروں کے زیر علاج ہے
یہ لندن کا ایک اسپتال ہے جہاں پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ شمیم آرا کئی برسوں سے ماہر ڈاکٹروں کے زیر علاج ہے، مگر یہ نہ بولتی ہے نہ سنتی ہے اور نہ کسی کو دیکھتی ہے اورگزشتہ کئی سالوں سے اسی صورت حال سے دوچار ہے اور اس صورتحال کو ڈاکٹروں کی زبان میں ''کوما'' کہتے ہیں اور شمیم آرا کا جواں سال بیٹا سلمان اقبال ہے جو بیشتر اوقات اپنی ماں کی تیمار داری اور دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے۔گزشتہ دنوں ایک اڑتی سی خبر آئی تھی کہ اب شمیم آرا ''کوما'' کی اس کیفیت سے کچھ باہرآنے لگی ہے کاش یہ خبر سچ ہو اور شمیم آرا پھر سے چاق و چوبند ہوکر بستر علالت سے اٹھ کھڑی ہو اور آسمان والا کوئی معجزہ دکھا دے۔ شمیم آرا کے لاکھوں پرستار پھر سے شمیم آرا کو صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں ۔
شمیم آرا پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک ایسی اداکارہ رہی ہے جس کے بارے میں یہ شعر صادق آتا ہے ''اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر'' اپنے دورکی بے مثال، باکمال یہ اداکارہ بے بسی کی تصویر بنی بستر علالت پر ہے۔ شمیم آرا نے جتنی کامیاب فلمیں دی ہیں شاید ہی کسی دوسری اداکارہ کو نصیب ہوئی ہوں ۔ وہ عام سی شکل و صورت کے ساتھ فلمی دنیا کی بڑی ہی خاص اداکارہ رہی ہے۔
میں نے بحیثیت صحافی بھی شمیم آرا سے ملاقاتیں کی ہیں اور بحیثیت اداکارہ اور ہدایت کارہ اس سے فلموں کے سیٹ پر بہت سی باتیں کی ہیں۔ شمیم آرا کی فلمی کہانی کا آغاز ہفت روزہ نگار کے دفتر سے ہوتا ہے جہاں وہ پہلی بار مدیر نگار سے ملنے آئی تھی اور لاہور میں ایک ہدایت کار نے اس سے فون پر بات کی تھی وہ ہدایت کار اس کی گفتگو سے بڑا متاثر ہوا تھا اور اس نے اپنے دیرینہ دوست مدیر نگار سے کہا تھا کہ وہ جلد ہی اپنی فلم ''کنواری بیوہ'' شروع کرنے والا ہے۔ اسے اپنی اس فلم کے لیے ایک نئے چہرے کی ضرورت ہے وہ ہدایت کار ہندوستانی فلم انڈسٹری کے شہرت یافتہ نجم نقوی تھے۔
انھوں نے شمیم آرا کو فون پر ہی اپنی نئی فلم میں کاسٹ کرلیا تھا اور پھر مدیر نگار نے ہی شمیم آرا کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ بنوا کر اسے لاہور بھجوایا تھا اور اسے فلم ''کنواری بیوہ'' میں ہیروئن کاسٹ کرلیا گیا تھا، وہ سادا سی لڑکی تھی مگر اس کے نقش و نگار بڑے دلکش تھے فلم ''کنواری بیوہ'' تو ہٹ نہ ہوسکی مگر شمیم آرا کو بحیثیت اداکارہ تسلیم کرلیا گیا۔
اس کی دوسری فلم ''انارکلی'' تھی جس میں اس نے معاون اداکارہ کا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا پھر 1960 میں ہندوستان سے آئے ہوئے نامور ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ''سہیلی'' کا آغاز کیا تو اس میں اداکارہ نیر سلطانہ اور درپن کے ساتھ شمیم آرا کو بھی مرکزی کرداروں میں شامل کرلیا فلم کی کہانی بمبئی فلم انڈسٹری میں کئی کامیاب فلموں کے مصنف حسرت لکھنوی کی لکھی ہوئی تھی، حسرت لکھنوی بھی بمبئی سے لاہور آگئے تھے اور ایس ایم یوسف کی ٹیم میں شامل تھے۔ فلم ''سہیلی'' میں نیر سلطانہ کے ساتھ ساتھ شمیم آرا کی اداکاری نے فلم بینوں کے دل موہ لیے تھے۔
فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے نسیم بیگم کے گائے ہوئے ایک گیت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جس کی موسیقی اے حمید نے بہت ہی دلکش دی تھی اور پیانو کے اس گیت کے دوران نیر سلطانہ، شمیم آرا اور درپن نے فلم کی سچویشن اور گانے کے اعتبار سے بڑی جاندار اداکاری کی تھی۔ اور فلم ''سہیلی'' اپنے وقت کی سپر ہٹ فلم تھی۔
اس فلم نے صحیح معنوں میں شمیم آرا کی شہرت کے تمام راستے کھول دیے تھے پھر شمیم آرا کو فلم ''قیدی'' میں کاسٹ کیا گیا۔ اس فلم میں شمیم آرا اور درپن ایک بار پھر مرکزی کرداروں میں کاسٹ ہوئے تھے اور شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس فلم میں میڈم نور جہاں نے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کی ایک مشہور نظم بڑے خوبصورت انداز میں گائی تھی جس کی مدھر موسیقی رشید عطرے نے مرتب کی تھی اور یہ نظم مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ شمیم آرا پر عکس بند کی گئی تھی اور اس نظم کی شہرت نے شمیم آرا کی شہرت میں بھی چار چاند لگا دیے تھے ۔
اب میں شمیم آرا کی اس فلم کی طرف آتا ہوں جس کی کامیابی نے شمیم آرا کی شہرت کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے اس کی دلنشیں اداکاری نے لاکھوں دلوں کو موہ لیا تھا۔ یہ 1965 کی بات ہے ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل نے ہدایت کار شریف نیر کو لے کر ذاتی فلم ''نائلہ'' کا آغاز کیا ''نائلہ'' کی کہانی مشہور خاتون ناول نگار رضیہ بٹ کی لکھی ہوئی تھی اور فلم کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ اس فلم میں شمیم آرا کے ساتھ سنتوش کمار مرکزی کردار میں تھے اور شمیم آرا نے فلم میں ایک شاعرہ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر نے گیت لکھے تھے اور فلم کا ہر گیت بڑا دلکش تھا۔ خاص طور پر تین چار گیتوں نے تو فلم بینوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیا تھا جن میں:
دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ ادھر آئے تو کچھ بات بنے
......
غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے
......
مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے
مرے دل کی دھڑکنوں میں ترا نام آگیا ہے
اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور یہ وہ گانے تھے جو ہر طرف زبان زد خاص و عام تھے۔ شمیم آرا کی بے ساختہ اداکاری نے لاکھوں دلوں کو اپنا دیوانہ بنا دیا تھا۔ اور یہ وہ فلم تھی جس کی مقبولیت نے شمیم آرا کی زندگی بدل دی تھی اور فلاپ فلم ''کنواری بیوہ'' کی شمیم آرا اتنی فلمی سہاگن ہوگئی تھی کہ ہر طرف اس کی اداکاری کے چرچے تھے۔ اور شمیم آرا عروج کی بلندیوں تک پہنچ گئی تھی ۔
1956 سے لے کر 1965 تک شمیم آرا نے بے شمار فلموں میں کام کیا تھا اور اس دور کے ہر ہیرو کے ساتھ اس کی فلمیں ہیں جن میں اداکار حبیب سے لے کر محمد علی، ندیم، وحید مراد، اور کمال کے ساتھ بحیثیت ہیروئن کامیاب ترین فلموں کے سفر میں آگے آگے رہی ہے جہاں اس نے لاہور کی گراں قدر فلموں جس میں، سہارا، کالا پانی، سازش، حویلی، چنگاری اور فرنگی میں کام کیا وہاں کراچی کی فلموں آنچل، انسان بدلتا ہے، زمانہ کیا کہے گا، فیصلہ، سویرا، اپنا پرایا، رات کے راہی اور راز جیسی کلاسک فلمیں بھی اس کے کریڈٹ پر ہیں اور اس کو ایک منفرد اداکارہ کا مقام دلاتی ہیں۔ ہدایت کار ہمایوں مرزا کی ''راز'' ایک ایسی خوبصورت فلم ہے جس میں شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس فلم میں برصغیر کے نامور شاعر نصرت جوش ملیح آبادی نے گیت لکھے تھے ۔اور جس ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی اس کے بول تھے:
ہوا سے موتی برس رہے ہیں
فضا ترانے سنا رہی ہے
اس گیت کو آؤٹ ڈور میں فلمایا گیا تھا۔ اور کیا خوبصورت فوٹو گرافی تھی۔ ایک ایک شاٹ بڑا دلکش تھا ایک ایک بول جس طرح موتی کی طرح چمک رہا تھا اسی طرح اس گیت کا ہر منظر دلوں میں اترتا چلا گیا تھا پھر شمیم آرا کی حسین اداکاری، نور جہاں کی جادو بھری آواز اور غلام نبی عبداللطیف کی ناقابل فراموش موسیقی نے اس گیت کا حسن دو بالا کردیا تھا۔ یہاں میں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ جوش صاحب کو فلم کے گیت لکھنے کے لیے سب سے پہلے بمبئی بلانے والے ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد تھے اور جس کے لیے پہلی بار گیت لکھا وہ فلم تھی ''من کی جیت'' اور پاکستان میں جس ہدایت کار نے جوش صاحب کو فلم کے گیت لکھنے کے لیے راضی کیا وہ ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے۔
(جاری ہے)