ہم سب ہار گئے ہیں
ذراان آوازوں پر توجہ دیجیے ’’میں بہت مایوس اور حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، میری توکوئی زندگی نہیں ہے میں تو ٹوٹ پھوٹ چکا ہوں
ذرا ان آوازوں پر توجہ دیجیے ''میں بہت مایوس اور حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، میری توکوئی زندگی نہیں ہے میں تو ٹوٹ پھوٹ چکا ہوں، میں اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوں، میری زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ میں یہاں سے کہیں بھاگ جانا چاہتا ہوں۔کوئی بھی نہ تو میری قدرکرتا ہے اور نہ مجھے سمجھتا ہے، میری آمدنی ہی اتنی نہیں کہ ضروریات پوری ہو سکیں، ہر امیر اور بااختیار آدمی مجھے ذلیل کرتا پھرتا ہے، ہمارے ملک کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔
ملک میں کرپشن اورلوٹ مار ایسے ہی چلتی رہے گی ، میرے نصیب کبھی نہیں بدلیں گے ۔کوئی بھی میرے متعلق نہیں سوچتا ہے میں بدانتظامی کا شکار ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے ۔ میں اس منافقانہ سیاست سے تنگ آگیا ہوں ۔
سب چور ہیں ، میں اندیشوں میں مبتلا رہتا ہوں خوفزدہ ہوں۔ میں اکیلا حالات تبدیل نہیں کرسکتا ۔کچھ بدلنے والا نہیں ہے آیندہ بھی ایسا ہی چلتا رہے گا۔''یہ تمام آوازیں ہمارے دفاتر،گھروں ، بازاروں، گلیوں اور محلوں میں سنائی دیتی ہیں، یہ آوازیں لاکھوں والدین، ملازموں، ماتحتوں، محنت کشوں، طالبعلموں، آجروں، ٹھیلہ لگانے والوں، رکشہ چلانے والوں کی ہیں، یہ آوازیں پاکستان کے ان افراد کی ہیں جو اپنی دنیا کو ایک نئی حقیقت میں تبدیل کرنے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ یہ آوازیں اس اذیت کی عکاس ہیں جو ذاتی بھی ہے اورگہری بھی ۔ان آوازوں میں بہت سی خود آپ کی بھی ہوسکتی ہیں اسی لیے کارل روجر نے کہا تھا ''جوکچھ انتہائی ذاتی ہے وہ انتہائی عام ہے ''۔
ایڈورڈ بین فیلڈ کہتے ہیں ''کسی بھی سیاسی نظام کو ایک حادثے سے تعبیرکیا جا سکتا ہے یہ فی الواقع آزمائش و خطا کے طویل عمل سے سلامت بچ نکلنے والے رسوم ورواج، عادات وتعصبات اور اصولوں اور بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے مسلسل ردعمل کا مجموعہ ہوتا ہے، اگر مجموعی طورپر یہ نظام ٹھیک کام کرتا دکھائی دے تو اسے ہم ایک خوشگوار حادثہ تعبیرکرتے ہیں کسی معاشرے،اس معاشرے کے تمام اداروں اس کے پورے کرداراور اس میں وضع پانے والی انسانی اوصاف کا اصل دارومدار حکومت اورسیاسی نظام پر ہوتا ہے ۔''
ہماری خوشی کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمیں وراثت میں کیا ملا ہے، ہمارا کردارکیا ہے، ہمیں رشتے میں کیسے لوگ ملے ہیں اور ہم کہاں اورکن حالات میں پیدا ہوئے ہیں اور پھریہ بھی کہ ہمارا نصیب کیسا ہے لیکن شہروں اور قوموں میں انسانی خوشی کے لیے سب سے زیادہ اہم جو بات ہوتی ہے وہ آب و ہوا یا آس پاس کے قدرتی مناظر اچھے یا برے جین یا قومی کردار نہیں ہوتے بلکہ وہاں جاری حکومت کا معیار ہوتا ہے۔ برطانیہ، یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا تک یہ ریاست کے ہی اوصاف ہیں جو لوگوں کی خوشحالی کا تعین کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں دنیا کے پچاس ملکوں سے اعداد وشمار حاصل کرکے ایک تجزیہ مرتب کیاگیا ہے۔
جس میں مختلف علاقوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خوشی و مسرت کے مختلف درجوں اور ان کے تعین میں اہم کردار ادا کرنیوالے عوامل کا جائزہ لیاگیا ہے اس تجزیے جسے ہم اب تک کیا جاناوالا بہترین تجزیہ قرار دے سکتے ہیں کہ مطابق عوام کی خوشی و خو شحالی پر اچھی حکومت جس قدر زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے وہ ان اثرات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیںجوکہ اچھی تعلیم اچھی آمدن اور بہتر صحت سے مرتب ہوتے ہیں۔
بری حکومت ایسی حکومت ہوتی ہے کہ جو جوابدہی سے انکاری ہوچھپنا شروع کردے جو خود کو ہی اپنا جواز ماننے لگے اور باقی سب کے احتساب کے درپے ہوجائے جو اپنی حقیقت خود تخلیق کرنے کی کوشش کرتی ہے جب کہ تانگ عہد کاایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے جینے کی ترجیح، اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آجانا،اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی۔ وہ بتاتا ہے کہ جب انھیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر وہ لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بندکردیتے ہیں اور انتشار و افراتفری کے بیج پنپنا شروع کر دیتے ہیں ، بری حکومت اور برائی کاجنم خود نہیں ہوتا ہے یہ ہم ہی ہیں جو انھیں جنم دیتے ہیں جب ایک بار ان کا جنم ہو جاتا ہے تو ان کے وارث خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور ہرآنیوالا وارث اور برا اوربرائی والا ہوتا ہے اگر آج ہمیں بری حکومت اور اس کی برائیوں کا سامنا ہے تو یہ آغاز نہیں ہے بلکہ یہ تو تسلسل ہے ہمیں تو آغاز ہی سے بری حکومت اور اس کی برائیوں کا سامنا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ ہم پہلے ہی دن سے آج تک کی حکومتوں کا جائزہ لے لیتے ہیں اور عام لوگوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، خارجہ پالیسی، پڑوسیوں سے تعلقات ، بجلی، پانی،گیس کی صورتحال، بدانتظامی، بدنظمی، برداشت ، رواداری، انتہاپسندی، دہشت گردی، خواتین اور اقلیتوں کی صورتحال،کرپشن،لوٹ مارکو بغورٹٹولتے ہیں گورننس کو باریکی سے دیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ آج میں لوٹ آتے ہیں اور آج کے اور ماضی کے اعدادوشمار کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہوجائیگا یا تو ہمارے نصیب ہی خراب ہیں یا پھر ہم خودہی خراب ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک بات توضرور ہے ورنہ کیا ہمیں ایک اچھی حکومت نہ ملی ہوتی کہ جس کے وارث پیدا ہوجاتے اور ہم سب بھی دنیا کے باقی لوگوں کی طرح چین وسکون اور آرام وخوشحالی کی زندگی گذار رہے ہوتے اور جو آج کل ہورہا ہے ایسا نہ ہورہا ہوتا۔
ایسی ایسی کرپشن اور لوٹ مار جو کبھی پہلے نہ سنی اور نہ پڑھی دنیا بھرکے نامورکرپٹ اور راشی حضرات نے ہماری کرپشن اور لوٹ مار دیکھ کر اپنے کام ہی سے توبہ کرلی کیونکہ ان کے ساتھیوں نے ان پر اس قدر لعنت ملامت کی کہ ایک تم ہو اور دوسر ی طرف پاکستانی ہیں اپنی کرپشن اور لوٹ مار دیکھو اور دوسری طرف ان کی دیکھو افسوس ہے تم پر اس قدر محنت ، رسک ، خطرے ، کے بعد ہاتھ اور جیب میں کیا خاک آتا ہے اور دوسری طرف ہر وقت مقدمات ، پولیس اور جیل کا خوف ڈراتا رہتا ہے۔ اصل میں ہمارے حکمران صرف خود جیتنا چاہتے تھے اور 20 کروڑ انسانوں کو ہرانا چاہتے تھے اس لیے مبارک ہو حکمرانو تم جیت گئے اور 20 کروڑ انسان ہارگئے اب صرف تم فاتح ہو اور ہم سب مفتوح ہیں اب صرف تم زندہ ہو اورہم سب مردے ہیں۔ اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے کہ تمہاری سلطنت میں اب سب مردہ ہیں شادیانے اورتیز بجاؤ اورجشن مناؤ کیونکہ تم جیت گئے ہو اورہم سب ہارگئے ہیں۔