محب وطن ہونے کی سزا
واقعی آنے والے کل کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ مستقبل ناکردہ گناہوں کی سیج بن جائے گا
KARACHI:
واقعی آنے والے کل کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ مستقبل ناکردہ گناہوں کی سیج بن جائے گا اور حب الوطنی کی سزا موت کی شکل میں ملے گی اور موت بھی اس وقت جب ایام پیری کے دن ہوں گے۔ عبادت و ریاضت میں عمر بسر کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے گا۔ بزرگی میں ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار کیا جائے گا۔
پورے خاندان پر قیامت خیز وہ لمحے بھی آئیں گے جب گھر کے سربراہ کو جنھیں اﷲ نے دادا اور نانا کے مرتبے پر فائز کردیا تھا اور جو ضعف کے باعث جسمانی تکلیفوں میں مبتلا تھے اور قدم قدم پر اپنوں کی مدد کی ضرورت تھی، اس ناتواں شخص کو پھانسی گھاٹ لے جایا جائے گا اور ان لوگوں کے ہاتھوں جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو حاکم وقت ہیں، وہی لوگ جسم و جاں کے دشمن بن جائیں گے۔ محض بھارت کو خوش کرنے کے لیے، ان کے احکام اور مشوروں پر عمل کرکے ایک بار سر بازار مقتل سجادیا گیا۔
اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے اپنے ملک اور ملک سے محبت کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ ہر شخص کا اپنے وطن سے محبت کرنا فطری تقاضا ہے اور فہم و آگہی رکھنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور ملک کی سالمیت کے لیے عملی اقدامات کرنا فرائض میں شامل ہوجاتا ہے۔ لیکن افسوس، صد افسوس 45 سال گزرنے کے بعد بزرگ رہنماؤں کو پھانسی کی سزا دینا انسانی تقاضوں کے منافی ہے۔
حسینہ واجد کی حکومت نے ظلم کی تمام حدوں کو پار کرلیا ہے اور اقتدار کی ہوس اور ملکی استحکام کی طلب نے آنکھوں سے آندھا اور بصیرت سے محروم کردیا اور ضمیر، اس کا نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں ہے، نیم مردہ یا مردہ۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد انتقام کی آگ اسی طرح بھڑک رہی ہے جس طرح بیتے وقتوں میں نفرت اور تعصب کے باعث جل اٹھی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب پہلی بار قائداعظم محمد علی جناح نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو اور صرف اردو پاکستان کی زبان ہوگی، اسی وقت قائداعظم کا یہ فیصلہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں کدورت کا سبب بنا، ان ہی میں شیخ مجیب الرحمن کا نام بھی شامل ہے۔
قیام پاکستان کے چند سال کے بعد 1952 میں بنگلہ زبان کو قومی زبان قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور اردو بولنے والوں کے خلاف شدید نفرت کی صورت میں سامنے آئی لیکن وزیراعلیٰ نورالامین نے سخت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں تحریک آگے نہ بڑھ سکی، اس کے ساتھ بنگالی اور غیر بنگالیوں کے درمیان دوریاں بڑھنے لگیں۔ بنگالیوں نے بات کو آگے بڑھانے اور فسادات پیدا کرنے کے لیے اپنے چھ مرحوم ساتھیوں کو جو طالب علم تھے، ان کی یادگار ڈھاکا میڈیکل کالج کے ساتھ بنادی اور پھول چڑھائے، دعائیہ تقریبات کا سلسلہ شروع کردیا۔
یہ طالب علم پولیس کی فائرنگ سے مظاہروں اور ہنگاموں کے درمیان مارے گئے تھے۔ اس طرح 21 فروری 1952 بنگلہ زبان کی تحریک کہلانے لگی۔ اسی تاریخ کو طلبا جلوس نکالتے اور ان دکانوں، ریستورانوں اور ہر اس جگہ کے بورڈز کو توڑ ڈالتے جو اردو یا انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ اس سنگین صورت حال سے نمٹنے کے لیے جنرل ایوب خان نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو صوبوں کے بجائے دو یونٹوں میں تقسیم کردیا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان قرار دے دیا، لیکن بنگالی اب بھی مطمئن نہیں تھے۔
ہنگامے، توڑ پھوڑ کے واقعات آئے دن رونما ہونے لگے اور حالات دن بدن بگڑتے چلے گئے اور اس وقت تو مزید ابتری پھیلی جب مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی میٹنگ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس اعلان کے بعد احتجاج شروع ہوگیا، ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور غیر بنگالیوں کی جان و مال کو اپنے پیروں تلے روندنے لگے۔
پاکستان کے مقتدر لوگوں کی کوتاہ عقلی اور ہوس اقتدار کی وجہ سے غیر بنگالیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے اور انسانیت دم توڑ گئی اور گھر، آنگن، گلی کوچوں، دفاتر، شاہراہوں پر خون بہنے لگا اور ایک ایسی خونیں تاریخ نے جنم لیا جس کا ہر صفحہ مسلمانوں کے خون سے تر ہے۔ جو پڑھتا ہے، اس کا دل شدید صدمے سے پارا پارا ہوجاتا ہے، وہ منظر سامنے آجاتا ہے جب مصالحت، حکمت، وطن پرستی کی جذبات سے پر راہوں کو محدود کردیا گیا اور آرمی ایکشن ہوا۔
اس وقت ڈھاکا کی فضا میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا لہو گھل مل گیا اور ڈھاکا میں بنگلہ دیشی پرچم لہرانے لگا۔ غیر بنگالیوں کا قتل عام، بنگال رجمنٹ کے بنگالی فوجیوں کے ہاتھوں شروع ہوگیا، عزتیں تار تار ہوگئیں۔ ان حالات میں بنگالیوں کے ایک گروہ نے جو مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کا پیروکار اور محب وطن تھا ان لوگوں نے غیر بنگالیوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی کہ اسلام اور انسانیت کا یہی تقاضا تھا۔
اور پھر 16 دسمبر کا وہ سورج بھی طلوع ہوا جس نے برسوں مایوسی، دکھ اور غم کے سائے بڑھادیے، آنکھیں خون کے آنسو رونے لگیں اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینے کے بعد جو علیحدہ وطن حاصل کیا تھا اس کا ایک حصہ جدا ہوگیا۔ اس خونیں واقعے کو گزرے زمانہ بیتا لیکن حسینہ واجد نے ایک بار پھر انتقام کی ایسی راہ نکالی کہ بزرگوں اور قابل احترام حضرات کو دار پر چڑھایا جانے لگا۔
جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی دی گئی اور اب مطیع الرحمن نظامی کو بے دردی اور سفاکی کے ساتھ موت کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اگر حکومت سابقہ حالات کی روشنی میں ان محب وطن پاکستانیوں (جو مشرقی پاکستان میں سکونت پذیر تھے) کے تحفظ کے لیے اقدامات کرتی تو بنگلہ دیشی حکومت کبھی دوبارہ دہشت گردی و بربریت کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ حکومت کی خاموشی نے دیار غیر کی جیلوں میں قید تنہائی کاٹنے والوں پر اذیت کے در کھول دیے ہیں اور اس رویے نے خاندان کے خاندان تباہ کردیے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے کسی حکمران نے دل سے کوشش ہی نہیں کی۔
اگر بحیثیت سربراہ کے اپنے اختیارات کا استعمال اپنی رعایا کے لیے کیا ہوتا تب ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہوتا لیکن اقتدار کے بھوکے لوگوں کو اپنی عزت و ناموس اور وطن عزیز کی حمیت کا احساس ہی نہ تھا، ان لوگوں نے تو حساس مسائل پر خاموشی محض امریکا کی خوشنودی کے لیے اختیار کی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے کردار کو دیکھیے کہ کس طرح استنبول میں خطاب کے دوران انھوں نے مغرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ اگر سیاسی پھانسیوں کے خلاف ہیں تو مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر خاموش کیوں رہے؟ یہ دہرا معیار ہے۔ یہی نہیں بلکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر بھی واپس بلالیا، سچا مسلمان ایسا ہوتا ہے جو صرف اور صرف اپنے رب سے ڈرتا ہے، امریکا سے نہیں۔