بجلی جانے سے برق گرنے تک

گزشتہ دور کے حکمراں اپنی مدت حکومت ختم ہونے کے بعد لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا اعلان کرتے ہیں


شاہد سردار May 29, 2016

گزشتہ دور کے حکمراں اپنی مدت حکومت ختم ہونے کے بعد لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال کے لیے اقتدار پر قابض ہونے والے اس کے بعد لوڈ شیڈنگ تمام ہوجانے کا عندیہ دیتے ہیں لیکن اپنی اپنی باریاں لینے یا پوری کرنے کے باوجود برسہا برس سے وطن عزیز میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوسکی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے حالیہ منظرنامے کو دیکھ لیں۔ پورے ملک میں شدید ترین گرمی پر نگاہ دوڑائیں اور محسوس کریں اور پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو محسوس کریں تو اس تلخ حقیقت کو حلق سے انڈیلنا ہی پڑے گا کہ وقت کے کسی حاکم نے سوائے حکم چلانے کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔

کہتے ہیں کہ نزدیک سے آنے والی آوازوں میں سب سے قریب ترین آواز ضمیر کی ہوتی ہے لیکن یہ بہت کم لوگوں کو سنائی دیتی ہے۔ وزارت پانی وبجلی کی جانب سے بار بار اعلان کے باوجود گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد ملک بھر میں جان لیوا لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ متعلقہ اداروں کی جانب سے شہروں میں چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں آٹھ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس پر عمل درآمدکیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا اور بجائے لوڈ شیڈنگ کم کرنے کے اس کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور آئے دن کا بریک ڈاؤن اس ملک اور اس کے شہروں کا اب متعلقہ ادارے نے عوام کا مقدر بنادیا ہے جس نے عوام کا جینا دوبھرکردیا ہے۔کاروبار شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے جس سے ادارے چلانے والے اورکاروبارکرنے والے تاجر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف پورے ملک کے شہروں، ان کی شاہراہوں اور سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کا تدارک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

یوں ضمیر کی آواز تو سننا ایک طرف حکمرانوں کو عوام الناس کا شوروغوغا بھی محسوس نہیں ہو رہا ،جسے ان کی شدید بے حسی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ بجلی آج کی دنیا میں ترقی کا پہلا زینہ کہلاتی ہے لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے کہ اکیس ویں صدی میں رہتے ہوئے ہمارے ہاں بجلی کے نام پر جنریٹر، یوپی ایس، ایمرجنسی چارجر لائٹیں یا لالٹینیں اور موم بتیاں چلائی اور جلائی جارہی ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آج کی دنیا شعور، علم اورآگہی کی دنیا ہے اور وہی ممالک آگے اور آگے بڑھ رہے ہیں جنھوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی اقتصادی قوت ان کی اصل طاقت ہے۔ اس لیے وہ اپنے نوجوانوں یا مستقبل کے معماروں کی تخلیقی صلاحیت کو تعلیم اور تحقیق کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں، آج کل چھوٹے چھوٹے ممالک تعلیم، ریسرچ یا تحقیق پر اپنا زرکثیر خرچ کر رہے ہیں اور اس تحقیق کو اپنے ملک کی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہمیں کسی ملک نے ترقی کرنے یا آگے بڑھنے سے نہیں روکا بلکہ ہم خود ترقی کی راہ پر نہیں چلنا چاہتے، ہمارے ملک کے پست تعلیمی معیارکو دیکھ لیں اور توانائی میں اضافے کی پیش رفت پر نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہر شعبہ ہمیں برف کی طرح جما بلکہ منجمد نظر آئے گا۔ ہماری حکومتیں ہمارے ارباب اختیار سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو ترقی دینا ہی نہیں چاہتے اور اس کی واحد وجہ فیوڈل ازم (جاگیردارانہ نظام) ہے جس نے پورے ملک کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ اس نظام اس سسٹم میں تعلیم، توانائی، تحقیق یا ریسرچ کی کوئی گنجائش ہی نہیں، وسائل، اذہان اور بالخصوص قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ہم ترقی نہیں بلکہ ترق معکوس کررہے ہیں، اس وجہ سے پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان موجود فرق روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔

وطن عزیز ان دنوں وقت کی شدید ترین گرمی کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے، بجلی اور پانی کی شدید قلت ہے اور ''ہیٹ اسٹروک'' کی ہٹیں خوب ہیٹ لگا رہی ہیں لیکن ہمارے حکمران گرمی کیا ہوتی ہے اسے جانتے ہیں محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ انھیں ہر جگہ ایئرکنڈیشنڈ کی سہولت دستیاب رہتی ہے 24 گھنٹے۔ بے بس اور بے کس عوام کو چھ گھنٹے بھی بجلی نہیں دی جاتی بھاری بل اور مرضی کے یونٹ ان پر مسلط کرنے کے باوجود وہ بنیادی سہولتوں سے عاری چلے آرہے ہیں۔ جب لوڈ شیڈنگ کا مقررہ ٹائم پورا ہوجاتا ہے تب کراچی جیسے بڑے اور حساس شہر میں ''فالٹ'' کے نام پر بجلی بند کردی جاتی ہے اور یہ روایت بھی اب جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔

بجلی مہیا کرنے والے اداروں کی جانب سے مختلف حیلے بہانے سے بجلی بند کردینے سے پانی کا بحران اس شدید گرمی میں سر اٹھاتا ہے جہاں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک جانب عوام ''کے الیکٹرک'' انتظامیہ کی من مانیاں جھیل رہے ہیں، زائد بلنگ کو برداشت کر رہے ہیں اور دوسری جانب عوام کو بجلی کی فراہمی میں انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا جس کی وجہ سے اکثر شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مذکورہ ادارے، انتظامیہ اور حکومت وقت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

اگر لوڈ شیڈنگ اسی طرح برقرار رہی تو پچھلے سال کی نسبت اس سال ''ہیٹ اسٹروک'' سے اموات کا خدشہ بہت بڑھ جائے گا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی کئی بار بجلی کی پیداوار میں اضافے کی نوید دے چکے ہیں لیکن عوام کو اس کا ریلیف ملتا کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کی جانب سے یہی خوشخبری دی جا رہی ہے کہ بجلی کے کئی میگا پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ جیساکہ پہلے ہم نے کہا یہ اعلان محض اعلان ہے، عوام کے ساتھ احسن سلوک نہ کبھی پہلے کیا ہے اور نہ شاید آیندہ کیا جائے گا ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی عوام کے مصائب و مشکلات پر توجہ نہیں دی جا رہی اور ان کے مسائل سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ حکومت گیس، پانی اور بجلی کے بل وصول کرکے انھیں تینوں سہولتیں دینے کی پابند ہے لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہم اپنے لیے جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہی دفن ہوجاتا ہے لیکن جو کچھ ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں وہ تادیر زندہ رہتا ہے بلکہ امر ہوجاتا ہے۔ ہمارے حکمران برسہا برس سے ہم عوام کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ہمارا جو حال ہے بلکہ پورے ملک کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

اس تلخ سچائی سے کبھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ ''بدعنوانی'' ہے۔ بجلی بنانے والی نجی کمپنیز سے جو معاہدے کیے گئے وہ بہت زیادہ نرخوں کے تھے جس کے نتیجے میں صنعتیں تباہ و برباد ہوگئیں، ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں کو بجلی کے لیے ڈیمز بنانے چاہیے تھے جو نہیں بنائے گئے، کوئلے اور ہوا تک سے بجلی بنائی جاسکتی ہے، شمسی توانائی سے بجلی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن یہ سب کرنے کے کام عوام کے نہیں حکمرانوں کے ہوتے ہیں اگر ان تمام طریقوں پر توجہ دی جائے تو ملک کے عوام کو بجلی کے مسئلے سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے۔

2001 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا بجٹ 6 ارب روپے تھا جو آج گھٹ کر صرف ایک ارب روپے ہوگیا ہے یعنی6 گنا کم ہوگیا ہے یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے جتنا کام پہلے ہوا اتنا اب نہیں ہو رہا۔کاش ہمارے ارباب اختیار ہمارے عوام پر ترس کھانے کی روایت کو گلے لگالیں اور اپنے دامن، اپنے مقام کو صاف اور اجلا کرلیں کیونکہ ایک نسل کے بوئے کانٹے دوسری نسل کی ایڑیوں میں کھب جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں