ملک کی نصف سے زیادہ آبادی افلاس کا شکار

حکومت تین سال میں بھی معاشی نمو کا ہدف حاصل نہ کرسکی، ملکی معیشت کا مختصر جائزہ


Nadeem Subhan May 29, 2016
حکومت تین سال میں بھی معاشی نمو کا ہدف حاصل نہ کرسکی، ملکی معیشت کا مختصر جائزہ۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: مالی سال 2016-17 کے لیے بجٹ ایسے وقت پیش کیا جارہا ہے جب پاناما لیکس اسکینڈل پر اٹھنے والا طوفان قریب قریب تھم گیا ہے، اور وزیراعظم نوازشریف اپنے 'مہربان دوستوں' کے سہارے اس دلدل سے باہر نکل آئے ہیں۔

پاناما لیکس کی وجہ سے اپنی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے انھوں نے ملک کے مختلف حصوں میں طوفانی جلسے کیے اور شاہراہوں کی افتتاحی تختیوں کی نقاب کشائی کرتے رہے۔ ان مواقع پر وزیراعظم نے حسب روایت دعوے کیے کہ ان کے دور حکومت میں ملک ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے اور مخالفین ترقی کا یہ سفر روکنا چاہتے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ان کے دعووں کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔

رواں مالی سال کے لیے خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) یا معاشی نمو کا ہدف 5.5فی صد مقرر کیا گیا تھا۔ قومی اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق جاری مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی کی نمو 4.7فی صد رہے گی۔ یوں مسلسل تیسرے سال پاکستان مسلم لیگ ( نون) کی حکومت معاشی نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ آزاد اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی شرح نمو 4.7 فی صد سے بھی کم ہے، اعدادوشمار کے ہیرپھیر کے ذریعے اسے 4.7 فی صد کی سطح تک لایا گیا ہے۔ مسلسل تین سال سے جی ڈی پی کے ہدف کے حصول میں ناکامی کیا حکم رانوں کے ترقی کے دعووں سے متصادم نہیں؟

تجارتی خسارہ معاشی ترقی کا اہم اشاریہ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار تجارتی خسارے میں اضافے کی نشان دہی کررہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر برآمدات سُکڑ رہی ہیں ۔ پاکستان بیوروآف اسٹیٹکس کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال ابتدائی دس ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران برآمداتی حجم17.3 ارب ڈالر رہا، جب کہ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 19.9 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات باہر بھیجی گئی تھیں۔ اس طرح برآمدات میں 13 فی صد کمی آئی۔ اس مدت کے دوران درآمدات میں بھی کسی حد تک کمی آئی۔ گذشتہ مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران 37.3 ارب ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں۔

اس کے مقابلے میں رواں مالی سال کی اسی مدت میں 36.3 ارب ڈالر درآمدات پر خرچ ہوئے۔ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں زیادہ کمی آئی ہے۔ اس طرح درآمدات و برآمدات کی درمیانی خلیج یا تجارتی خسارہ 19ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ چکا ہے جو پچھلے سال 17.4 ارب ڈالر رہا تھا۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے تجارتی خسارے کا ہدف 17.7 ارب ڈالر مقرر کیا تھا مگر دیگر اہداف کی طرح یہ ہدف بھی حاصل نہیں ہوسکے گا کیوں کہ تجارتی خسارہ دس ماہ کے دوران ہی اس سے تجاوز کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ درآمداتی بل برآمداتی بل سے دُگنے سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔

غیرملکی قرضوں کے بوجھ سے وطن عزیز کی کمر جھکنے لگی ہے مگر حکم راں ہیں کہ قرض لادے چلے جارہے ہیں۔ ستمبر 2015ء میں پاکستانی قوم پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم 66.457 ارب ڈالر تھا۔ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال پر بیرونی قرض 70ارب ڈالر کی حد کو عبور کرجائے گا۔ وطن عزیز کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی بھی قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے۔ جون 2015ء کے اختتام پر ہر شہری 101338 روپے کا مقروض تھا۔ رواں مالی سال کے اختتام پر یقیناً واجب الادا قرض کی رقم سوا لاکھ روپے فی کس تک پہنچ چکی ہوگی۔

حکومت کے دعوؤں کے مطابق غربت کا خاتمہ، تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اپنی ترجیحات کو اس نے کس حد تک عملی جامہ پہنایا ہے اس کا اندازہ ''ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرز'' کے عنوان سے گذشتہ برس جاری کی جانے والی عالمی بینک کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی نصف سے زاید آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے! عالمی بینک کی رپورٹ کو جھٹلانا وزیراعظم اور ان کے رفقاء کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ رپورٹ ایک آئینہ ہے جس میں حکم راں اپنی ترجیحات اور 'عوام دوست' معاشی پالیسیوں کا اصل اور بدنما چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

حکومت نے مزدور کی کم سے کم تن خواہ چودہ ہزار روپے مقرر کی ہے۔ کاش کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون، کوئی ایسا نظام ہوتا جس کے تحت منتخب حکم راں زمام اقتدار سنبھالنے سے پہلے چھے ماہ کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مزدور کی تن خواہ میں گزارہ کرنے کے پابند ہوتے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں مزدور کی تن خواہ اراکین اسمبلی سے زیادہ مقرر کی جاتی۔

تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کو حکم راں کس حد تک اہمیت دیتے ہیں، اس کا اندازہ ان کی مغربی ممالک کے منہگے ترین تعلیمی اداروں میں پڑھتی اولادوں اور چھینک آنے پر بھی میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن اور امریکا جاپہنچنے سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تین سالہ دوراقتدار میں ایک بھی ایسا اسپتال قائم نہ کرسکی، اور نہ پہلے سے موجود کسی اسپتال کو اس حد تک اپ گریڈ کرسکی جہاں اس کا وزیراعظم طبی معائنہ کرواسکے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے سوائے ارباب اختیار کے سب واقف ہیں۔ وہاں روتی بلکتی اور سسکتی زندگی ان کی نگاہوں سے ہمیشہ کی طرح رواں مالی سال بھی اوجھل رہی۔

اگرچہ رواں مالی سال کے دوران ' معجزاتی' طور پر صحت کے لیے وفاقی بجٹ میں، گذشتہ مالی سال کی نسبت 19 فی صد زاید رقم مختص کی گئی تھی مگر ملک بھر میں کوئی نیا اسپتال قائم ہوتا نظر نہیں آیا۔ حکومت نے جنوری میں غریب خاندانوں کے لیے ہیلتھ انشورنس پروگرام ضرور شروع کیا تھا، مگر اس کا دائرہ پنجاب، شمالی علاقوں اور بلوچستان تک محدود رہے گا۔ یہ پروگرام غریبوں کے علاج معالجے میں کس حد تک معاون ثابت ہوگا؟ یہ واضح ہونا باقی ہے۔ تاہم خدشہ ہے کہ دوسری اسکیموں کی طرح یہ پروگرام بھی کرپشن اور بدانتظامی کی نذر نہ ہوجائے۔

زراعت ملکی معیشت کا اہم ترین شعبہ ہے۔ آبادی کی اکثریت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24فی صد ہے۔ مجموعی برسرروزگار افرادی قوت کا نصف زراعت سے وابستہ ہے۔ علاوہ ازیں، زراعت غیرملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم حکومتی پالیسیوں نے اس شعبے کو زوال سے دوچار کردیا ہے۔ ناقص زرعی پالیسیوں کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار زوال پذیر ہے، اور اسی مناسبت سے کاشت کار بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔

کپاس کی پیداوار گذشتہ برس کے مقابلے میں 30 فی صد کم ہوئی ہے، جس کے لیے کاشت کار حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ زرعی ترقی اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ صرف گندم کی پیداوار تسلی بخش رہی ہے باقی تمام فصلوں کی پیداوار ہدف سے کم رہی۔ حکومت کی مبینہ 'زراعت کُش' پالیسیوں کے خلاف کاشت کئی بار احتجاج کرچکے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حکومت مقامی زراعت کی ترقی کے بجائے بھارت سے اجناس کی درآمد کو ترجیح دے رہی ہے۔ رواں مالی سال کے لیے زرعی شعبے کی نمو کا ہدف 3.9فی صد رکھا گیا تھا، مگر اب نمو 3.7 فی صد تک محدود ہے۔ عشروں میں یہ پہلا موقع ہے جب زرعی شعبے کی نمو کا ہدف حاصل نہ کیا گیا ہو۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ملک بھر میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ امن وامان کی تسلی بخش صورت حال غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی ترٖغیب دے گی، مگر اب تک معاملہ برعکس رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بجائے اضافہ ہونے کے نمایاں کمی ہوئی ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران غیرملکی سرمایہ کاری 65فی صد تک گر گئی ہے۔ مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران وطن عزیز میں بیرونی سرمایہ کار 63 کروڑ ڈالر لے کر آئے۔ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔

غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کے لیے وزیراعظم لاؤ لشکر سمیت بیرون ممالک کے دوروں پر دورے کرتے رہے ہیں، مگر ان کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ اور پاناما گیٹ اسکینڈل کے بعد تو موجود حکومت پر ان کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوتا نظر آتا ہے کہ جس ملک میں وزیراعظم کی اولاد سرمایہ لگانے کی روادار نہ ہو تو وہ دوسروں کو کیسے اس ملک میں سرمایہ کاری پر راضی کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔