اہلکاروں کی بدزبانی پولیس سے نفرت میں اضافہ کی بڑی وجہ

 تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی گفتگو سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے


Rana Naseem May 29, 2016
نت نئی پولیس فورسز کے قیام اور بھاری مراعات سے تھانہ کلچر نہیں بدل سکتا۔ فوٹو: فائل

KARACHI: برصغیر میں پولیس کے نظام کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مغلیہ عہد میں یہاں پولیسنگ موجود تھی، لیکن انگریز نے جب یہاں قبضہ کیا تو ہر قابض کی نفسیات کے مطابق اس نے دیگر چیزوں کے ساتھ پولیس کا نظام بھی بدل ڈالا۔

برطانوی سامراج نے مجسٹریٹی نظام متعارف کروایا، جس کے مطابق داروغا اور دیگر ماتحت افسروں کو پولیسنگ کے لئے بھرتی کیا گیا۔ انگریزحاکم نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پولیسنگ کا جدید نظام متعارف کروایا تاکہ وہ مقامی افراد پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکے، لیکن افسوس! انگریز کا بنایا نظام آزادی کے بعد نہ صرف اسی طرح چل رہا ہے، بلکہ اس نظام کو چلانے کے ''مخصوص'' مقاصد بھی نہیں بدلے، یعنی آج بھی حکمران اور دیگر بااثر طبقات پولیس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ پھر ادارے کی تباہی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

کیا عجب بات ہے کہ ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے تھانہ کلچر میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور پھر خود ہی اس کی راہ میں روڑے اٹکائے، کیوں کہ پولیس کے بغیر ان کا اپنا نظام نہیں چلتا۔ محکمہ میں بھرتی سے لے کر افسروں کی تعنیاتیوں تک رشوت اور سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ہر تھانے میں پولیس افسر کی تعیناتی وہاں کے مقامی سیاست دانوں یا دیگر بااثر افراد کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے تاکہ فرمانبردار افسر ان کے ہر جائز و ناجائز حکم پر سرتسلیم خم کرے۔ آج پولیس عوام کے جان و مال کی حفاظت کے بجائے حکمرانوں کی حکمرانی، سیاست دانوں کی سیاست اور بااثر افراد کی اثر انگیزی کو بچانے میں مصروف ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی مداخلت اور حکمرانوں کے ''مخصوص'' مقاصد کے حصول کے باعث آج حالات یہ ہیں کہ شریف آدمی اپنے جائز کام کے لئے بھی تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے۔

افسوس! سے کہنا پڑتا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار پولیس خود ہی معاشرتی انتشار کا باعث بنی ہوئی ہے۔ صرف حکمرانوں کی خدمت پر مامور پولیس اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور مہارتوں سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دہشت گردوں کا سامنا کرنا تو کجا آج یہ عام چوروں ڈاکوؤں کو قابو کرنے میں بھی ناکام ہے۔ ایسا کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اب یہ فورس صرف شریف شہریوں یا مخالفین کو مزہ چکھانے کے لئے ہی رہ گئی ہے، اصل مجرموں سے ٹکرانا تو شائد ان کے ہاں ایک بے وقوفی تصور کیا جاتا ہے، جس کی بہترین مثال حال ہی میں کیا جانے والا کچہ آپریشن ہے، جس میں ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں کو ہی یرغمال بنا لیا اور ایک بار پھر پاک فوج کی مداخلت سے پولیس کی جان بخشی ہوئی۔

پولیس یونیفارم کی گرتی ہوئی ساکھ کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، بلکہ افسر و اہلکار خود ہی ہیں۔ روایتی تھانہ کلچر کے باعث کالی وردی سے شہریوں کی نفرت بلاوجہ نہیں۔ تھانوں میں عام شہریوں کے ساتھ جو سلوک برتا جا رہا ہے، اس کو دیکھنے کے بعد کوئی بھی شخص کسی سطح پر پولیس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی کے لئے آئے روز پٹرولنگ پولیس، ایلیٹ فورس، محافظ سکواڈ اور اب ڈولفن کے نام سے بنائی جانے والی نئی فورسز کے قیام سے شہریوں کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے؟

تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے لئے کبھی پولیس کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے افسروں و اہلکاروں کی مراعات بڑھائی جا رہی ہیں تو کبھی ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے، لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود جرائم اور پولیس سے نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سیاسی مداخلت اور اہلکاروں کی بد زبانی و بداخلاقی ہے۔ تھانوں میں جھوٹوں پرچوں کا اندراج اور بدزبانی کے رجحانات انتہاؤں کو چھو رہے ہیں اور کوئی انہیں لگام ڈالنے والا نہیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:

''خدا کی نظر میں بدترین آدمی قیامت کے روز وہ ہوگا جس کی بدزبانی اور فحش کلامی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں''

پولیس کے ظلم کے داستانیں اتنی طویل ہوتی جا رہی ہیں کہ انہیں زیر قلم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ پولیس کی ''ٹریننگ، ٹریننگ، ٹریننگ'' کی رٹ سن کر کان پک رہے ہیں، لیکن اہلکاروں کے اصل مسئلہ یعنی اخلاقی تربیت پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ تھانوں میں پولیس اہلکاروں کی بدزبانی اور بداخلاقی کے واقعات سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس آرٹیکل کا محرک بھی چند روز قبل پنجاب کے ایک تھانے میں پیش آنے والا بدزبانی کا واقعہ ہی ہے۔

چیک ڈس آنر کے کیس میں پولیس نے ایک ملزم پکڑ لیا تو اس کا سسر جب تھانے آیا تو وہاں موجود تھانیدار نے اس بزرگ سے دس پندرہ افراد کے سامنے جس انداز میں گفتگو کی، وہ سن کر ایک بیٹی کا باپ یقیناً چاہتا ہو گا کہ اسی وقت زمین پھٹے اور وہ اس کے اندر اتر جائے۔ یہ ایک واقعہ ہے، لیکن ہمارے تھانوں میں ایسے روز کئی کئی واقعات پیش آتے ہیں، جن کے بارے میں ہر کوئی جانتا بھی ہے، لیکن شریف شہری چوں کہ اندر سے بزدل ہوتا ہے وہ آواز نہیں اٹھاتا اور حاکم وقت کبھی اپنے وفادار کے خلاف ایکشن نہیں لیتا۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے گزشتہ برس مئی میں پولیس ٹریننگ کالج سہالہ میں سب انسپکٹروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''تھانہ کلچر بدل دیں تو پاکستان کا کوئی ملک مقابلہ نہ کر سکے'' سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کرنا کس نے ہے؟ عوام اپنے نمائندگان کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ملک و قوم کے لئے کام کریں، اور اگر یہی نمائندے خود سوالیہ الفاظ کا استعمال کریں گے تو شہری کہاں جائیں گے؟ تھانہ کلچر میں تبدیلی کیا عام شہری کی ذمہ داری ہے؟ تین تین بار وزیراعظم اور وزیر اعلی بننے کے اعزاز پر فخر کرنے والوں کی ذمہ داری صرف سو ماڈل پولیس سٹیشن بنا دینا نہیں، اس کے لئے پولیس اہلکاروں کی اخلاقی تربیت کرکے ہر تھانے کو ماڈل بنانا ہو گا۔

4 لاکھ افسروں و اہلکاروں کے ساتھ 1580 تھانوں اور 1365چوکیوں پر مشتمل پولیس ڈیپارٹمنٹ

وطن عزیز میں پولیس فورس کی طاقت کی بات کی جائے تو ایک اندازے کے مطابق ایک ملین (10 لاکھ) لوگوں کے لئے تقریباً سوا دو سو پولیس اہلکار بنتے ہیں، جو تعداد کے اعتبار سے مناسب نہیں تو بہت زیادہ کم بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہ تناسب ترقی یافتہ ممالک میں تو چھوڑیں ہمارے پڑوس میں بھی کہیں کم ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں ایک ملین لوگوں کے لئے 123پولیس اہلکار جبکہ بنگلہ دیش میں 96 پولیس اہلکار ایک ملین لوگوں کے لئے ہیں۔

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق ملک بھر میں اس وقت پولیس ڈیپارٹمنٹ تقریباً 4لاکھ افسروں و اہلکاروں کے ساتھ 1580 تھانوں اور 1365چوکیوں پر مشتمل ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 686 پولیس سٹیشنز اور 287 چوکیاں ہیں، جہاں ایک لاکھ 80 ہزار کے قریب افسر و اہلکار اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 262 پولیس سٹیشنز اور 429 چوکیاں، سندھ میں 503 پولیس سٹیشنز اور 405 چوکیاں، بلوچستان میں 111 پولیس سٹیشنز اور 237 چوکیاں جبکہ فیڈرل ایریا یعنی اسلام آباد میں 18 پولیس سٹیشنز اور 7 چوکیاں ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔