افغانستان سے امریکی انخلاء کا امکان نہیں
امریکا نے کہا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت سے افغانستان میں قیام امن کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔
www.facebook.com/shah Naqvi
امریکا نے کہا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت سے افغانستان میں قیام امن کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ امریکا کے لیے خطرہ بننے والے تمام افراد اور نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا جائے گا۔ امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت اسی بات کی تصدیق ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کو لاحق خطرات کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس اہم آپریشن پر امریکی فورسز کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ایسے تمام افراد اور نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا جائے گا جو امریکا اور اس کی فورسز کے لیے خطرہ ہیں۔دوسری طرف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا ہے کہ ملا اختر منصور کو ایران سے ٹریک کیا گیا اور پاکستان میں داخل ہونے کے بعد صوبہ بلوچستان میں نوشکی کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ امریکی اخبار کے مطابق افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو اس وقت ٹریس کیا گیا جب وہ ایران میں مقیم اپنے خاندان کو ملنے کے بعد واپس آ رہے تھے۔
ٹریکنگ کا سلسلہ زاہدان سے شروع ہوا اور ان پر حملہ پاکستان کی سرزمین میں اس وقت کیا جب وہ تفتان سرحد سے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ ملا منصور نے زیادہ وقت پاکستان کے بجائے ایران میں گزارنا شروع کر دیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ پاکستانی ایجنسیاں انھیں گرفتار کر لیں گی۔ جب کہ ایرانی سفیر نے چند دن پیشتر اسلام آباد میں ایک سیمینار میں کہا کہ ایران طالبان کو کسی صورت بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایران خود طالبان کی بدترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا کہ ملا اختر منصور ایران میں تھا قطعی طور پر بے بنیاد اور امریکی پروپیگنڈا ہے۔
جب کہ دوسری طرف امریکی صدر نے جی سیون کے سربراہ اجلاس سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ طالبان جلد مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان تشدد کے ایجنڈے کو جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ملا اختر منصور کبھی مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے حق میں نہیں تھا تاہم ہمیں امید ہے کہ طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض نہیں ہو سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کے پاس اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے جمہوری نظام کا حصہ بن جائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن طالبان ملا منصور کی ہلاکت کے بعد اپنے نئے امیر کا اعلان کر رہے تھے اسی دن ہمارا اس بات پر اصرار تھا کہ جب تک ملا منصور کی لاش کا ڈی این اے ٹیسٹ نہ ہو جائے وہ ان کی موت کی تصدیق نہیں کریں گے۔
ملا عمر کی موت کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ ان کی موت بہت پہلے ہوئی تھی لیکن طالبان نے حکمت عملی کے طور پر ان کی موت کو چھپائے رکھا کہ کہیں ان کی صفوں میں انتشار نہ پھیل جائے۔ پاکستانی حکمران طبقوں نے عوام سے حقائق کو اخفا رکھنے کی پالیسی طویل عرصے سے اپنائی ہوئی ہے خاص طور پر افغانستان میں امریکی جنگ کے بعد تو اس کی انتہا ہو گئی ہے۔ ان پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پہلے ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں ہوتے تھے اب بلوچستان کے شہری علاقے میں ہونے کے بعد دیگر پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔
طالبان کے ترجمان کے حوالے سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ امن مذاکرات نہ شروع کرنے کے حوالے سے طالبان کے نئے سربراہ مولوی ہیبت اللہ کا بیان جعلی اور خود ساختہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ وضاحت خوش آیند ہے کیونکہ مذاکرات کے ذریعے ہی افغانستان پاکستان میں امن ہو سکتا ہے۔ طالبان کے بے لچک رویے نے افغانستان کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ افغانستان میں پچھلے چالیس سالوں سے قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے جس میں مارے جانے والے افراد کی تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا جو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
معذوروں کی تعداد بھی لاکھوں سے متجاوز ہے لیکن قتل و غارت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ امریکی ان کی شرائط پر افغانستان چھوڑ جائیں لیکن یہ ممکن نہیں اور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ اگر کسی طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہو جائے تو اسی کے مخالفین جنگ کا نیا سلسلہ نہیں شروع نہیں کر دیں گے۔ طالبان کا بے لچک رویہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بھی رہا کہ انھوں نے اسے امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اسامہ ایبٹ آباد میں ایک مدت تک کسمپرسی کی حالت میں اپنی مرضی سے ایک عمارت میں قید رہا یہاں تک کہ اس عمارت کے صحن میں آنا تو درکنار اپنے کمرے کی کھڑکیوں کے قریب جن پر دبیز پردے تھے کے قریب بھی نہیں جا سکتا تھا کہ امریکن سٹیلائٹ کے ذریعے اس کا سراغ نہ لگا لیں آخر کار وہ 2 مئی کی تاریک رات کو امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں مارا گیا۔
اسامہ کی وجہ سے لاکھوں افغان مارے گئے اسامہ خود بھی قتل ہوا۔ افغان طالبان اور افغان عوام کے ہاتھ کیا آیا سوائے اس کہ ان کی نسلیں تباہ برباد ہو گئیں۔ جو بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ امریکی کسی صورت طالبان کی شرائط پر افغانستان نہیں چھوڑیں گے۔ امریکا کی ری پبلیکن پارٹی والے اوباما کے افغانستان سے فوجی انخلا کے ارادے کے سخت خلاف ہیں۔ اگر نومبر کے انتخابات ری پبلیکن جیت گئے تو افغانستان سے واپس گئے فوجی پھر واپس آ سکتے ہیں۔
30-29 مئی 5-3-2 تا 8 جون طالبان کے اہم فیصلے اور ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔