یہ ہیں عوام

ان واقعات پر مجرموں کو گرفتار تو کیا گیا لیکن ابھی تک کوئی سزا نہیں دی گئی۔


Zuber Rehman May 30, 2016
[email protected]

چند روز قبل کی بات ہے کہ لیہ میں تیزاب گردی کی شکار خاتون کو ایک فرد امداد کا جھانسا دے کر خالی مکان میں لے گیا، جہاں دو افراد پہلے سے موجود تھے، وہاں باری باری اس نابینا خاتون سے زیادتی کی گئی۔ اس سے ایک روز قبل نوشہرو فیروز میں ایک وڈیرے نے اپنی کار سے مزدوروں کی گدھا گاڑی ٹکرانے پر انھیں اپنا جوتا چٹوایا، مزدوروں کو جرگے نے حکم دیا کہ وہ جوتا اپنے دانت سے اٹھا کر وڈیرے کے پاس آئیں اور معافی مانگیں۔

ان واقعات پر مجرموں کو گرفتار تو کیا گیا لیکن ابھی تک کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس عطا آباد، ہنزہ (گلگت بلتستان) میں سیلاب زدگان کے مسائل پانی، بجلی، گیس، گھر اور روزگار کے حصول کے لیے وہاں کے عوام نے جب احتجاجی جلوس نکالا، تو اس جلوس کے قائدین میں سے ایک قائد کامریڈ بابا جان کو گرفتار کرکے انھیں دہشت گرد قرار دے کر 25 اور 40 سال کی دو سزائیں دے کر جیل میں مقید کردیا۔ اس طرح سے ہمارے ملک میں مسائل کو پس پشت ڈال کر نان ایشوز کو ابھارا جارہا ہے۔

کراچی میں سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے کی اپنے جلسوں میں اعلانات کرتی رہتی ہیں، لیکن 69 سال سے آج تک عوام کو (فوجی علاقوں کے علاوہ) پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوا۔ اس وقت 'کراچی شہر 9 لاکھ ایکڑ زمین سے زائد پر مشتمل ہے، جب کہ 60 ہزار ایکڑ زمین پر مختلف وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اداروں اور ہاؤسنگ اتھارٹی نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے'۔ یہ انکشاف کسی غیر سرکاری ادارے نے نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ سندھ نے کیا ہے۔ جب کہ اسی شہر میں امریکی سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطا بق 70 لاکھ لوگ کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کو مفت رہائش فراہم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

زمبابوے، بیلاروس اور نیپال کے بعد اب کیرالہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ کیرالہ (ہندوستان کا جنوبی صوبہ) کے کمیونسٹ رہنما نے اعلان کیا ہے کہ وہ ساری کچی آبادیوں کو قانونی رہائش گاہوں میں تبدیل کردیں گے۔ ویسے بھی امریکا میں سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز، ہلیری کے مقابلے میں عوام کی زیادہ حمایت حاصل کرتے جارہے ہیں، ادھر برطانیہ کے سوشلسٹ حزب اختلاف کے قائد جیمری کاربون نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

لاہور میں کسان تنظیموں اور پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے ملازمین نے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا۔ پنجاب اسمبلی کے اطراف جانے والے تمام راستوں کو بند کر رکھا۔ دھرنے میں شریک خانیوال کا رہائشی ستر سالہ عبدالسمیع حرکت قلب بند ہونے کے باعث دم توڑ گیا جب کہ دو خواتین گرمی سے بے ہوش ہوگئیں۔ کسانوں کے دھرنے کی کوریج کرنے والے صحافی زخمی ہوگئے۔

اس دھرنے میں پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود رشید نے بھی شرکت کرکے ان سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب کھاد پر 20 ارب روپے کی رعایت دی جاسکتی ہے تو لو گوں کو زندگی بچانے کے لیے مفت دوائیں کیوں نہیں دی جاسکتیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جس ملک میں لوگ بخار کے لیے معمولی گولی اور کھانسی کے لیے شربت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ ہیپاٹائٹس کا مہنگا علاج کیسے کراسکیں گے؟

ہاں بات ہورہی تھی نابینا خاتون سے زیادتی اور مزدوروں کے دانت سے وڈیرے کا جوتا پکڑ کر اس سے معافی مانگنے کی اور کامریڈ بابا جان کو مسائل پر جلوس نکالنے پر 40 برس کی قید کی۔ بابا جان نے جی بی ایل اے 6 ہنزہ سے قانون ساز اسمبلی کے 8 جون 2015 میں امیدوار کے طور پر جیل میں رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں ایم ایل نون کا جو امیدوار کامیاب ہوا تھا، اسے جی بی کا گورنر بنادیا گیا۔ اب پھر جیل میں رہتے ہوئے کامریڈ بابا جان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور مسلم لیگ ن سے کانٹے کا مقابلہ ہے۔

یہاں پی پی پی اور پی ٹی آئی بھی حصہ لے رہی ہیں۔ بابا جان کے ساتھ ساتھ شکورالحق اور افتخار کو بھی سزائیں دی گئی تھیں اور وہ بھی جیل میں ہیں۔ کامریڈ بابا جان کا مقابلہ گورنر کے بیٹے سلیم سے ہورہا ہے۔ یہ ہنزہ کا علاقہ ہے، یہاں شنہا، بروشکی اور وکی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہاں 34 ہزار ووٹرز ہیں۔ گلگت بلتستان کی آبادی 1985 کی مردم شماری کے لحاظ سے 18 لاکھ تھی، جب کہ اس وقت 50 لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ گوادر راہداری سے یہاں کے لوگوں کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہوں گی، جب کہ یہ علاقہ چین سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں کوئی فیکٹری ہے اور نہ کوئی معقول تعلیمی ادارہ۔ لوگ اپنی ضرورتوں کے اجناس پنڈی سے لاتے ہیں۔ راستہ بہت ہی خراب ہے۔

یہاں سے پنڈی کا سفر 28 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، جو 600 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اگر سڑک ٹھیک کردیی جائے تو یہ سفر 5 گھنٹے کا ہوسکتا ہے۔ یہاں صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے شاہراہ ریشم۔ لوگوں کو اکثر پیدل ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اسکول شاذو نادر ہی ہیں، کوئی کالج نہیں ہے، کوئی میڈیکل کالج ہے اور نہ یونیورسٹی۔ ہر چند کہ گلگت بلتستان 28 ہزار مربع میل پر مشتمل ہے اور ہنزہ 400 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگوں کے سب سے بڑے مسائل بجلی، پانی، گیس اور نوجوانوں کی بے روزگاری ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما اور اسمبلی کے امیدوار کامریڈ بابا جان کو شکست دینے کے لیے حکومت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایم ایل این کے امیدوار کو جتوانے کے لیے نواز شریف نے خود ہنزہ کا دورہ کیا۔ لیکن دوسری طرف عوامی ورکرز پارٹی بھی سرگرم ہے۔ 2015 کے انتخابات میں ایم ایل نون نے کامریڈ بابا جان کو شکست دی تھی۔ اس بار عوامی ورکرز پارٹی کی خواتین ڈور ٹو ڈور جاکر بابا جان کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔

عطا آباد، ہنزہ کے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ تھرپارکر میں بھوک، پیاس اور غذائی قلت سے سیکڑوں انسانی بچے، ہرن اور مور لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ عوام کو پینے کا پانی نصیب نہیں تو دوسری جانب لاکھوں لیٹر پانی سے صاحب جائیداد طبقات کے باغات سیراب کیے جاتے ہیں۔ حکومت نے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 13 ہزار روپے کرنے کا کہا ہے جب کہ 90 فیصد مزدوروں کو 8 سے 10 ہزار روپے ملتے ہیں۔ صرف 6 فیصد سرکاری ملازمین کو 13 ہزار روپے میسر ہیں۔ پنشن بھی صرف سرکاری ملازمین تک محدود ہے۔

کسی بھی نجی ادارے کے مزدوروں کو پنشن نہیں ملتی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز، جونیئر ڈاکٹرز، اساتذہ، بلدیہ کے مزدوروں اور دیگر ملازمین کو کئی کئی مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ ان کے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، تو دوسری جانب کروڑ پتی اور ارب پتی اسمبلی اراکین کی تنخواہیں 2 لاکھ روپے کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، جو دیگر سہولیات کو ملا کر فی ارکان اسمبلی 4 لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔

تنخواہیں بڑھانے کی تجویز پر سارے اراکین ایک رائے ہوگئے، کسی نے یہ نہیں کہا کہ میری آمدنی اتنی ہے کہ مجھے تنخواہ کی ضرورت نہیں۔ جن لوگوں کی دولت اربوں میں اندرون ملک اور بیرون ملک خفیہ بینکوں اور کاروبار میں لگی ہوئی ہے انھیں تنخواہوں کی کیا ضرورت ہے۔ غریبوں اور متوسط طبقے کی جماعت کہلانے والی پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بھی تنخواہ بڑھانے کی تجویز پر خاموش رہیں۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست، ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔