جاپان میں انوکھی واردات 2 گھنٹوں میں 1400 اے ٹی ایم مشینوں پر نقب

ہیکرز نےملک بھر کی اے ٹی ایم مشینوں سے ڈیڑھ ارب ین چُرائے


غ۔ع May 31, 2016
 دو گھنٹے کے دوران 1400 اے ٹی ایم مشینوں سے ڈیڑھ ارب چُرا لیے گئے ۔ فوٹو : فائل

یاشی کارا جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں واقع پولیس ہیڈکوارٹر میں عوامی شکایات کے شعبے میں تعینات ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں عوامی شکایات سننا اور پھر نوعیت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کرکے کارروائی کے لیے آگے بڑھا دینا ہے۔ رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو نوجوان پولیس اہل کار فرائض کی انجام دہی کے لیے حسب معمول ہیڈفون سَر پر چڑھائے اپنی سیٹ پر موجود تھی جب اسے ایک فون کال موصول ہوئی۔ کوئی شخص گھبرائے ہوئے لہجے میں بتارہا تھا کہ اسے ابھی بینک کی فون سروس سے پیغام آیا ہے کہ میں نے اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ایک لاکھ ین نکالے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے کوئی رقم نہیں نکالی۔ وہ شخص ٹوکیو کے مضافاتی قصبے ہاچی جو کا رہائشی تھا۔

یاشی کارا اس کی شکایت نوٹ کر کے فارغ ہی ہوئی تھی کہ اسی نوعیت کی ایک اور فون کال موصول ہوئی۔ پھر تو جیسے فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ دو گھنٹے کے دوران بلاشبہ اسے سیکڑوں فون کالز موصول ہوچکی تھیں۔ اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اس نوعیت کی متعدد فون کالیں وصول کیں۔ یہ کالز ٹوکیو کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی کی گئی تھیں۔

فون کرنے والوں کو ایک ہی شکایت تھی کہ اے ٹی ایم کے ذریعے ان کے اکاؤنٹ سے لاکھوں ین نکالے جاچکے ہیں مگر انھوں نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ استعمال نہیں کیا۔یکے بعد دیگر موصول ہونے والی سیکڑوں شکایات پر پولیس ڈیپارٹمنٹ فوراً حرکت میں آگیا۔ پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ دو گھنٹے کے دوران ملک بھر میں1400 آٹومیٹڈ ٹیلر مشینوں ( اے ٹی ایم) سے مجموعی طور پر ایک ارب چالیس کروڑ ین نکال لیے گئے تھے! امریکی ڈالر میں یہ رقم ایک کروڑ ستائیس لاکھ بنتی ہے۔

پولیس کے مطابق جن اے ٹی ایمز سے رقم نکالی گئی وہ سب کی سب مختلف سپراسٹورز میں نصب تھیں، جہاں عام طور پر خریداروں کا اژدھام ہوتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ٹوکیو اور سولہ دوسرے شہروں میں بہ یک وقت انجام دی جانے والی کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی اور منظم گروہ ہے جس میں سو کے لگ بھگ افراد شامل ہیں۔ دو ہفتے گزرجانے کے باوجود اپنی نوعیت کی انوکھی اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی واردات میں ملوث کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوسکا۔ البتہ پولیس کا کہنا ہے کہ واردات میں جعلی کریڈٹ کارڈز اور اے ٹی ایم کارڈز استعمال کیے گئے جن کے لیے ڈیٹا جنوبی افریقا کے بینک سے حاصل کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ واردات کے تمام متأثرین کے اکائونٹ جنوبی افریقی بینک میں تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں