نیک دل بیمار حکمران
مملکت پاکستان کا ایک شریف ترین سیاست دان میاں نواز شریف ان دنوں لندن کے ایک اسپتال میں روبصحت ہے۔
مملکت پاکستان کا ایک شریف ترین سیاست دان میاں نواز شریف ان دنوں لندن کے ایک اسپتال میں روبصحت ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے لوگ اس کی صحت کے لیے دعا گو ہیں اور اسلام کے نام پر بنے ہوئے اس ملک کے باشندوں کی مخلصانہ دعائیں ضایع نہیں جاسکتیں، میاں صاحب کو سخت خطرناک بیماری لاحق ہے۔ ڈاکٹر ان کے دل کی چیرپھاڑ کر کے اسے درست کرنا چاہتے ہیں۔
انسانی زندگی کا انحصار جسم کے اسی ہر دم متحرک ٹکڑے مسمی دل پر ہوتا ہے۔ اس کی متوازن حرکت انسانی جسم کو متوازن رکھتی ہے اور طبی سائنس انسانی جسم کے اسی حصے کو درست رکھنے پر پورا زور دیتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے خوش خوراک میاں صاحب نے اپنے جسم کے اس مرکزی اور کلیدی حصے پر توجہ نہیں دی اور معدے کی طرح اسے بھی بذریعہ غذا توانا رکھنے کی کوشش کی ہے۔
بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے اور مجھ سمیت ہم سب پاکستانیوں کو میاں صاحب کی صحت کی سلامتی کی بہت فکر ہے۔ ایسا با حیا حکمران ہمیں شاید پھر کبھی نہ مل سکے۔ آپ نے ان کے سامنے منظوری کے لیے کوئی کاغذ رکھا انھوں نے اسے دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ یہ درخواست کسی وجہ سے ان کے خیال میں مناسب نہیں تھی لیکن آپ ان کی منظوری کے لیے سامنے بیٹھے ہی رہے بالآخر انھوں نے آنکھیں جھکا کر دستخط کر دیے اور ہاتھ بڑھا کر آپ کو رخصت کر دیا۔ ناپسندیدگی کے باوجود حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ کسی کو ناراض کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ نام کے ہی نہیں کام کے بھی شریف تھے۔
پاکستانیوں نے طرح طرح کے حکمران دیکھے ہیں ان میں زیادہ تر فوجی تھے جو قوم میں بھی ایک خاص طرز کے ڈسپلن کو پسند کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ عام شہری اس انداز زندگی کے عادی نہیں تھے۔ لیکن اس قوم نے چار فوجی حکمرانوں کے ساتھ گزارا کیا اور ضرورت پڑنے پر اب بھی تیار ہے۔ عین ممکن ہے کوئی سپہ سالار اب بھی یہ سوچ رہا ہو کہ قوم سیدھے راستے پر نہیں چل رہی لیکن بیرونی حالات ایسے ہیں کہ اب ایسے کسی شوق کی تشفی آسان نہیں ہے جو کچھ ملک کے اندر ہے اسی پر گزارہ کرنا ہے۔
میں اپنے ان دشمنوں کا شکر گزار ہوں جن کے خطرے کی وجہ سے ہمارا کوئی جرنیل اپنی جرنیلی نہیں دکھاتا۔ ہمارے بعض مارشل لاء تو امریکا جیسے ملک کو اس قدر پسند تھے کہ اس نے ہر قسم کا اسلحہ دیا بلکہ یہانتک کہ کھاریاں جیسی چھاؤنی بھی تعمیر کر کے دے دی لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں پاکستان کے گردوپیش پر خصوصی غور کرنا پڑتا ہے۔
میں اپنی ذاتی معلومات کے مطابق بھارت کو اس پوزیشن میں نہیں سمجھتا کہ وہ پاکستان کے حالات میں موثر مداخلت کر سکتا ہے لیکن بعض عالمی طاقتیں جن میں امریکا بھی شامل ہے وہ بھارت کو اس کے قدموں پر کھڑا کرنے میں بہت کوشاں ہیں لیکن بھارت جیسے بڑے ملک کے بھانت بھانت کے عوام پاکستان کے لیے کوئی متحدہ خطرہ نہیں ہیں اگر ہمارے حکمران خود ہی ایسے حالات پیدا نہ کر دیں تو پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے مگر ہمارے گردوپیش کو اگر باہر کی دنیا کسی خاص توجہ کے ساتھ دیکھتی ہے اور ان کا مطالعہ کرتی ہے تو ہمیں ان کے عزائم کی تلاش کرنی چاہیے وہ کہیں ہمارا کچھ نقصان نہ کر دیں۔ ہمارے جیسے کرپشن کے مرض کے مارے ہوئے ملک کے لیے کسی بڑی مصیبت اور خطرے کا سدباب اور اس کا ازالہ آسان نہیں ہے۔ سب سے بہتر پالیسی اس سے بچنا ہے۔
بات اپنے وزیراعظم کی لندن میں علالت کی ہو رہی تھی جس کے بعض سیاسی اور آئینی پہلوؤں پر یہاں پاکستان میں بحث جاری ہے۔ سیاست دانوں کو ان کی اغراض اور ضرورتوں سے روکنا بہت مشکل ہے اور وہ بات سچ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ میاں صاحب کی علالت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمند سیاستدانوں کو خدا ہی ہدایت دے کہ وہ اپنے ایک سنجیدہ بیمار ساتھی کی بیماری پر پوری طرح پریشان نہیں ہیں۔
میاں صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی اور ایسے موقع بہت کم آئے تو وہ نہایت ہی شفقت سے ملے۔ معلوم ہوا کہ ان دنوں ان کے آس پاس ایسے لوگ جمع ہو گئے ہیں جو ان کو اپنی پسند کی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اچھا ہے کہ فراخدل میاں صاحب سے ہمارے کچھ ساتھی جھولی نہیں جیب ہی بھر لیں لیکن مہربانی کر کے وہ میاں صاحب کو ایسے کسی غلط راستے پر لے جانے کی کوشش نہ کریں جس میں ہمارے اس شریف اور عوام کے لیے مہربان حکمران کا سلسلہ حکمرانی بدستور جاری نہ رہے اور اس کی روانی میں کچھ خلل پیدا ہو۔ اگر ذاتیات کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں آپ کو اس خوبصورت حکمران کے بعض واقعات سناتا جس سے آپ کو اندازہ ہوتا کہ بعض سیاستدانوں کے اندر دل بھی ہوتا ہے اور وہ اس دل کی مانتے بھی ہیں۔
میاں صاحب کے پاس اقتدار کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے اور وہ اس کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کیونکہ مزاج کے اعتبار سے وہ ایک نیک آدمی ہیں۔ اپنے مرحوم والد کی کرسی کو ہر روز مسجد نبوی تک لانے اور لے جانے والا ارب پتی نوجوان دنیا میں ناکام نہیں ہو سکتا۔ اس کے نرم اور گداز دل کے لیے ہر زبان پر دعا ہے۔