خدا اور امریکا
یہ امداد جو ہمیشہ مشروط ہوتی ہے اسے ہم فخر کے ساتھ امداد کیوں کہتے ہیں؟
بظاہر تو یہ ایک عجیب سی بات لگتی ہے، مگر ہے ٹھیک، یوں کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہ ایک تلخ تقسیم تھی۔ برسوں ساتھ رہنے والے الگ الگ ہو رہے تھے بلکہ صدیوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اصل میں اس وقت دنیا میں برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا اور دو نئی طاقتوں کے سورج افق پر نمودار ہوچکے تھے اور وہ تھے امریکا اور روس۔ برطانوی مجرموں اورغلاموں نے ایک نئی طاقت امریکا کا روپ دھار لیا تھا اور جنگوں کے بعد روس نے بھی اپنا سکہ قائم کرلیا تھا۔ چین جاپان ابھی دورکی بات تھے۔ فرانس کے بھی حالات ایک طاقت جیسے نہیں تھے۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے حکومتی فیصلے کے مطابق امریکا کو چن لیا اس میں بھی ان ہی قوتوں کا ڈر غالب تھا جو قیام پاکستان کے خلاف تھیں اوردین کے نام پر سیاست کررہی تھیں پاکستان کے قیام کی مخالفت کا بھی سبب یہ تھا کہ اب وہ کچھ حاصل ہونے کا امکان ختم ہوجاتا جو ہمیشہ حاصل رہا تھا۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ پاکستان خود ایک بڑا دربار بن جائے گا جہاں ان کی بالواسطہ حکومت ہوگی۔
ڈر یہ تھا کہ اگر روس سے دوستی کا ہاتھ ملایا گیا تو وہاں کیونکہ بے دین لوگ ہیں تو ملائیت پاکستان کے عوام کو حکومت سے متنفرکردے گی یوں پاکستان کا شیرازہ بکھر جائے گا اور چونکہ پاکستان، یہ مشہورکردیا گیا تھا کہ صرف دین کے نام پر بنا ہے لہٰذا لوگ ان کے پیچھے چل پڑیں گے یوں لیاقت علی خان شہید ہونے کے لیے امریکا یاترا پر چلے گئے۔ کیونکہ بعد میں لیاقت علی خان امریکا کے لیے کارآمد نہیں رہے تھے اور وہ مقاصد حاصل کرچکا تھا لہٰذا انھیں راستے سے ملکی لوگوں کو خرید کر شہید کردیا گیا۔ مقاصد کو تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد حکومت پاکستان کے تعاون کا اعلان کر کے حکومت امریکا نے یہ ذمے داری بھی پاکستان پر ڈال دی اور پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار رہا۔ 9/11 ایک ڈراما تھا مسلمان ملکوں پر اقتصادی قبضے کا جو مکمل ہونے کے قریب ہے۔ اب F-16 کا ڈراما بھی آپ دیکھ رہے ہیں اور تازہ ترین ملا اختر منصور کا پاکستان میں قتل؟
ہم کو یہ کہنا پڑے گا کہ امریکا کے بالواسطہ غلام ہی ہوئے ہیں۔ امداد کے نام پر ایک بہت بڑا فراڈ عرصہ دراز سے چل رہا ہے اور مشروط امداد کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ امریکا نے مسلسل پاکستان کو دھوکے دیے یہ وہ بات ہے جس کا کئی بار امریکا کے اہم لوگ کبھی فخریہ اورکبھی بظاہر ندامت کے ساتھ اعتراف کرچکے ہیں اور ہم اس اعتراف پر بغلیں بھی بجاتے رہتے ہیں۔
یہ امداد جو ہمیشہ مشروط ہوتی ہے اسے ہم فخر کے ساتھ امداد کیوں کہتے ہیں؟ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہم امداد لیتے ہی کیوں ہیں؟ جب اپنے وسائل سے ایٹم بم بناسکتے ہیں تو پھر بقیہ کیا مسئلہ ہے۔ روس ہرچند کہ متحدہ نہ رہا مگر روس ہے اور قائم ہے اور بھارت نے امریکا کی طرح کام نکلنے کے بعد روس سے آنکھیں پھیر لیں جس نے اپنے ویٹو سے بھارت کوکشمیر پر غاصبانہ قبضہ پکا کرنے کا برسوں موقع فراہم کیے رکھا۔ مگر ریاست ہائے متحدہ بھی عرب کی چاندی کی کیلوں پر متحدہ ہے جو اس کی چولوں میں فٹ ہیں اور جن کے سہارے امریکا کی معیشت اور سیاست اور عربوں کی عیاشیاں چل رہی ہیں۔
تابکہ! قدرت نے اپنی طاقت کے منہ زورگھوڑے کی جس دن باگیں ڈھیلی کردیں سارا متحدہ امریکا تہس نہس ہوجائے گا۔ عالم عرب کی امریکا برداری اور دوستی ہمیں تو قدرت کے وہ اشارے لگتے ہیں کہ جن کے ذریعے اس نے عظیم الشان سلطنتوں کو روئی کے گالے کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔ تفصیلات قرآن میں دیکھ لیجیے اور ثبوت آثار قدیمہ میں۔دنیا بدل رہی ہے، اس کے پہاڑ، سمندر، آب و ہوا، لوگ سب بدل رہے ہیں اس کا اندازہ عام آدمی کو کم، حکومتوں کو زیادہ ہوتا ہے مگر حکومتیں اقتدار کے لیے اسے ظاہر نہیں کرتیں اور اپنا مفاد حاصل کرتی رہتی ہیں تاوقتیکہ قدرت کے بے رحم ہاتھ جھاڑو پھیرکر انھیں سڑک پر لے آتے ہیں۔ قدرت قوموں میں سے ہی قوم لوگوں میں سے ہی لوگ، پیدا کرتی ہے۔ یہ کوئی الگ سے Process نہیں ہے کہ آسمان کی طرف نگاہیں لگا کر بیٹھا جائے۔
جب معاشرے زوال پذیر ہوجائیں جیساکہ ہمارا معاشرہ ہے تو پھر کچھ ہوتا ہے۔ شاید بہت سے خوش فہم سمجھ رہے ہوں کہ معاشرہ زوال پذیر نہیں ہے۔ بلند عمارتیں ہیں،کشادہ سڑکیں ہیں اور یہ ہے وہ ہے جناب! والا یہ سب اسٹرکچر ہے، معاشرہ نہیں ہے۔ چھوٹی سی مثال حکومت نے اب لوگوں کی رقوم جو بینکوں میں ہیں، منافعے کی اسکیموں میں بیواؤں اور پنشنرز نے رکھی ہوئی ہیں گزارے کے لیے اس پر ادائیگی اورکم کردی ہے اس حکومت کے آنے سے پہلے شاید بارہ فی صد تھی اب پانچ فی صد پر لے آئی ہے حکومت یعنی عام لوگوں کو مزید پریشان کیا جارہا ہے۔ چور، لٹیرے، رشوت خور سب آرام سے ہیں۔ چند کیس سے معاشرہ کیا ٹھیک ہوگا۔ یہ تو آنسو پونچھنے کو بھی کم ہیں۔
تو حکومت کی ذمے داری ہے کہ بیت المال سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے یہ رقوم جو لوگوں کی ہیں اور حکومت کو دی گئی ہیں کہ حکومت ان سے کام کرکے لوگوں کو فائدہ اور منافع دے حکومت نے رقوم پر تو قبضہ کر رکھا ہے مگر منافعے کو دن بہ دن کم کرتی جا رہی ہے تاکہ معاشرے کے افراد پریشان ہوں، ہاتھ پھیلائیں، بھیک مانگیں، یہ ہے معاشرے کی زوال پذیری اور اس کا سرمایہ دارانہ بندوبست ۔ یہ تو اندازہ نہیں کہ پاکستان پر برا وقت کب ختم ہوتا ہے۔ یہ ضرور معلوم ہے کہ پاکستان کا اچھا وقت کبھی نہیں آتا۔ہر جگہ لوٹ مارکا ایک بازار گرم رہتا ہے۔
تُو چور...میں چور... یہ سب ڈراما ہے سیاستدانوں کا جو عوام کو متوجہ رکھنے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ جہاں سارے سکے کھوٹے ہوں وہاں سچا کھیل کہاں؟ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ان لوگوں سے۔ یہ میزکرسی جما کر پرائیویٹ چینلز پر قوم سے خطاب کرلیتے ہیں۔ قوم ان کے خطاب کی افیون لے لیتی ہے۔ادھر وہ جوبقول ان کے قدم بڑھاؤ کے بجائے رقم بڑھاؤ پر توجہ دیے ہوئے ہیں، ان کا تو کام ہی یہ ہے اب صرف مسجدکی روٹی سے توکام نہیں چل سکتا۔ تو یوں سمجھیے کہ ہم مجموعی طور پر زوال پذیر ہیں۔ اب لکھنے والے بلبلوں اور گلوں کے قصے لکھتے رہیں، جب چمن ہی نہ رہا توکہاں کے گل اورکہاں کی بلبل۔ اس وقت یہ ملک خطرے کی دہلیز پر ہے لوگ سمجھ رہے ہیں، ایٹمی قوت ہیں کوئی کیا بگاڑے گا۔
ایٹم کے لیے بھی رقم چاہیے ملک کا دیوالہ نکال دیا ہے، ٹوڈرمل نے اور اب بجٹ میں رہی سہی کسر نکل جائے گی۔ دیوالہ پورا ہوجائے گا۔ یہ تیرا ہے...یہ میرا ہے۔تُو کون ہے... میں کون ہوں۔ یہ تاریخ کے صفحات میں جھانک کر دیکھیے اس قوم کا آغاز ہے جس کا انجام تباہی ہوا ہے۔ سچ کہنا عادت ہے۔ ایک اور سچ کہہ دیا ہے، شاید کچھ ذہن، کچھ ہاتھ اس سچ تک پہنچ جائیں۔کوئی راستہ بے شک کمزور ہو، چھوٹا ہو اس تباہی سے بچنے کا نکل آئے۔ ورنہ ڈبو دینے والی لہریں بچانے والی ہواؤں سے بلند ہیں۔ دیوالیہ حکومتیں صرف غلام بنتی ہیں اور مملکتیں کسی اورکی جاگیر۔ خدا امریکا نہیں ہے، امریکا خدا نہیں ہے۔