گوادر اگلی سپر پاور کا دارالحکومت

ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادرکو CPEC کی ضروریات پوری کرنے والی محض ایک علاقائی بندرگاہ نہیں


سید معظم حئی May 31, 2016

LONDON: گوادراور دبئی کا فضائی فاصلہ یعنی FLIGHT DISTANCE تقریباً 700 کلومیٹر،گوادر اور مسقط کا تقریباً 400 کلومیٹر جب کہ گوادر اوراسلام آباد کا تقریباً 1400کلومیٹر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے جزیرہ نما عرب کے خطے کے اختتام پر دور دور تک یہاں تک کہ قطب جنوبی تک پھیلا ہوا ہے۔ افریقہ کا عظیم براعظم ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ اور افریقا آنے والے دورکی سپر پاورکی خصوصی توجہ کا مرکز ہوں گے اور اس سلسلے میں گوادر سے بہتر مرکز اورکوئی نہیں ہوسکتا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم آنے والی سپر پاورکے بارے میں بات صاف کرلیتے ہیں۔ یہ سپر پاور نہ امریکا ہوگا نہ چین نہ جاپان بلکہ آنے والے وقت کی سپر پاورہوگی سولر پاور یعنی شمسی توانائی۔ جی نہیں یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (IEA) کا تجزیہ ہے، جس کے مطابق 2050 تک سولر پاور دنیا میں توانائی کا مرکزی ذریعہ بن چکی ہوگی۔

اور صرف سولر پاور ہی نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی دنیا اس وقت گرین انرجی جس میں سولر پاورکے علاوہ ونڈ پاور، بائیوگیس، ہائیڈروالیکٹرک، ویسٹ ٹوانرجی WEE، جیو تھرمل پاور وغیرہ شامل ہیں کہ ایک انقلابی دور میں داخل ہورہی ہے۔ اس کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایے کہ 2008 میں پہلی باردنیا بھر میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے گرین انرجی نے روایتی فوسل فیول انرجی کے شعبے پر سبقت حاصل کرلی۔

جون 2009 میں جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2008 میں گرین انرجی میں عالمی سرمایہ کاری کا حجم 140 ارب ڈالر جب کہ روایتی انرجی کے شعبوں میں 110 ارب ڈالر تھا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں گوادرکہاں آتا ہے۔ مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ اور افریقا گرین انرجی کی عظیم ترین مارکیٹس بننے والی ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ ہر روز 11.75 ملین بیرل کے حساب سے دنیا میں تیل پیدا کرنے والے دوسرے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی حکومت نے مئی 2012 میں اعلان کیا کہ وہ 2032 تک ملک میں 41 گیگاواٹ سولر انرجی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گی۔ ایک گیگا واٹ میں 100 میگاواٹ اور ایک میگا واٹ میں ایک ملین یعنی دس لاکھ واٹ ہوتے ہیں۔ دنیا میں توانائی کی صورتحال کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی 1.1 بلین یعنی ایک ارب دس کروڑ لوگ بجلی کی سہولت تک رسائی سے محروم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر افراد براعظم افریقہ اور ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔

جب کہ مزید 2.9 بلین یعنی دو ارب نوے کروڑ لوگ کھانا پکانے اور حرارت حاصل کرنے کے لیے لکڑی اور دوسرے بائیو ماس ذرائع مثلاً مویشیوں کا فضلہ (گوبر) وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان ذرائع سے پیدا ہونے والی ان ڈور اور آؤٹ ڈور آلودگی سے ہر سال 4.3 ملین یعنی کوئی 43 لاکھ انسانی اموات واقع ہوتی ہیں۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ اور براعظم افریقا گرین انرجی خصوصاً سولر انرجی ونڈ پاور اور ویسٹ ٹو انرجی کے میدان میں نمایاں ترین ملک ہے۔

TECH INSIDER کے 2016 کے اعداد وشمار کے مطابق 38250 میگا واٹ کے ساتھ جرمنی پہلے اور 28330 میگاواٹ کے ساتھ چین سولر پاورکی پیداوار میں دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 145104 میگاواٹ ونڈ پاور پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ دنیا بھر میں چین پہلے جب کہ 141579 میگاواٹ کے ساتھ یورپی یونین دوسرے اور 74472 میگاواٹ کے ساتھ امریکا تیسرے نمبر پر ہے۔ یاد رکھیے کہ پاکستان میں اس وقت اس شدید گرمی میں بجلی کی انتہائی طلب تقریباً 19000 میگاواٹ ہے جو پوری نہیں ہو پارہی اور لوڈ شیڈنگ کا دور دورہ ہے۔

گوادر 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری و قرضوں سے پاکستان میں چین کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے اقتصادی راہداری منصوبے CPEC کا اہم ترین جزو ہے۔ کراچی جس کا نام 1960 کی دہائی میں نیو یارک اور لندن جیسے عالمی اقتصادی و ثقافتی مراکزکے ساتھ لیا جاتا تھا۔ اب کچرے،کرپشن، قبضے، بھتے سے اٹی وڈیرہ راج کی محض ایک لٹی پٹی کالونی ہے کہ جس کا وڈیرہ جمہوریت میں نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل چنانچہ اب اور زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان کے پاس ایک باقاعدہ اور جدید پورٹ سٹی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادرکو CPEC کی ضروریات پوری کرنے والی محض ایک علاقائی بندرگاہ نہیں بلکہ ایک عالمی صنعتی و تجارتی مرکز بنایا جائے۔

میرا آئیڈیا یہ ہے کہ ہم گوادر کواسپیشلائزڈ گرین انرجی فری پورٹ کا درجہ دے کر اسے دنیا میں گرین انرجی معاشیات کا عالمی مرکز CAPITAL بنادیں۔ ہم گوادر گرین انرجی فری پورٹ میں گرین انرجی مشینری Equipments, Accessories وغیرہ کی امپورٹ، ایکسپورٹ، ری ایکسپورٹ پر سے تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم یا کم سے کم کردیں۔ نہ صرف چین بلکہ جرمنی، امریکا، برازیل، اسپین دنیا بھر کے ملکوں کو ترغیبات کے پیکیجز دیں کہ وہ گوادرکو اپنا گرین انرجی HUB بناکرگرین انرجی کی عالمی تجارت کے لیے استعمال کریں یہاں وسیع مینوفیکچرنگ یونٹس لگاکر مشرق وسطیٰ، افریقا و ایشیا ایکسپورٹ کریں ہم اس طرح سے گوادرکو قومی و بین الاقوامی مارکیٹس کے لیے گرین انرجی مینوفیکچرنگ، اسمبلی، ری اسمبلنگ، ریسرچ اور افرادی قوت کی ٹریننگ کی سہولیات اور روزگار کا عالمی مرکز بنادیں۔

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات نہایت اہم ہوں گے۔ (1) بلوچستان میں قدرتی طور پر سات ونڈ کاریڈورز ہیں جب کہ صوبے کی شمالی بیلٹ تافتان سے لے کر ژوب اورخاران، باسیما، سوراب تک کا علاقہ سولر تھرمل پاور سسٹمز کے لیے آئیڈیل ہے۔ چنانچہ ان علاقوں میں ونڈ انرجی اور سولر انرجی فارمزکے لیے اسپیشل پیکیجز دیے جائیں جو نہ صرف گوادروبلوچستان بلکہ ملک بھرکی توانائی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ براہ کرم ونڈ فارمز کی تنصیب پرندوں کی قدرتی راہ گزر سے ہٹ کر کی جائیں۔

(2) گوادر کے نظم و نسق کو چلانے اور ترقیاتی کاموں کے لیے گوادر کی مقامی منتخب بااختیار شہری حکومت، پاک فوج، بلوچستان حکومت، حکومت پاکستان، حکومت چین، چینی کمپنیوں کے نمائندوں، پاکستانی بزنس نمائندوں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور ایماندار آڈٹ فرمز پر مشتمل ایک مستقل نظام ہونا چاہیے جس میں گوادر پر خرچ کیے جانے والے ایک ایک روپے کا حساب روزکے روز اپ ڈیٹ ہو اور سب کے سامنے ہو۔ (3)گوادر کے مقامی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کی گرین انرجی کے تمام شعبوں میں تکنیکی ٹریننگ کے وسیع پروگرام شروع کیے جائیں اورگوادر میں ملازمتوں میں انھیں پہلی ترجیح دی جائے۔

(4)گوادر میں سیکیورٹی فورسز کی معاونت سے ایک 24/7 ٹاسک فورس ہو جو ناجائز تجاوزات اورکچی آبادیاں قائم کرنے کی ہر کوشش آغاز میں ہی مسمار کردے کیوں کہ تجاوزات اورکچی آبادیاں شہروں کی تباہی میں دوسرے کم آمدنی والے افراد وخاندانوں کے لیے 30 سے 40 منزلہ فلیٹوں کے کمپلیکس قائم کیے جائیں جہاں ان لوگوں کو کرائے کی جگہ ماہانہ قسطوں پر ملکیت حاصل ہو جو آسانی سے قابل منتقلی ہو۔ اس طرح کی وسیع، سستی، معیاری اور با عمل ہاؤسنگ اسکیمز میں چین اپنے تجربے سے ہماری بہترین مدد کرسکتا ہے۔

(6)گوادر کو Horizontally یعنی چاروں طرف بے تحاشا پھیلانے کے بجائے دنیا کے جدید ترین شہروں کی طرح Vertically یعنی بلندی کی سمت پھیلائیں تاکہ شہری نظام اور انفرا اسٹرکچر کنٹرول میں رہ سکیں۔ (7)گوادر میں کام کے لیے آ نے والے تمام غیر مقامی افراد کی رجسٹریشن کی جائے اور معاشی ضرورت کے مطابق ہی لوگوں کو آنے کی اجازت دی جائے تاکہ امن وامان اور معاشی ترقی برقرار رہیں ورنہ کراچی کی بربادی ہمارے سامنے ہے۔

گوادر کو باقاعدہ عالمی گرین Capital قرار دیا جائے اور اس ضمن میں ایک باقاعدہ تقریب میں پاکستانی حکومت، اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں، چین اور دوسری حکومتوں اور کمپنیوں کے نمائندوں کی موجودگی میں اس اجتماعی عہد کے ساتھ گوادرکوگرین انرجی کا عالمی Capital بنانے کے کام کا آغازکیا جائے کہ ہم کسی طرح کم ازکم گوادر کوکرپشن، سفارش، کوتاہ نظری اور نا اہلی سے بچاکر رکھیں گے۔ گوادر عالمی گرین انرجی Capital بن کر پاکستان کی قسمت بھی بدل سکتا ہے بشرط کہ یہ ہماری سیاسی، قوم پرست و مذہبی قیادتوں اور سول و فوجی بیوروکریسی میں موجود ناقابل اصلاح کرپٹ عناصرکی نہ ختم ہونے والی لالچ اورکرپشن سے کسی طرح بچ جائے ورنہ یہ ایک اورکراچی ہوگا، ایک اور اچھے خواب کی ڈراؤنی تعبیر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔